زندگی کے قرطاس پہ کچھ قلم واقعی میں موتی بکھیر دیتے ہیں
ان قلمو ں کے لفظ کسی کے لیے دوا ہو تے ہیں اور کسی کے لیے دعا۔ادب اور
ادیب عقل اور فہم سے ذرا مختلف چیز ہے اکثر ادبا نے اپنی تحریروں سے زندگی
میں واقعیت برپا کی ہے اور شاید ہمیشہ یہ سلسلہ رہے گا ۔ضعیفی میں بڑی
باتیں کرنا دانائی ہے ہی مگر کم عمری میں دانائی پرونا بہت کم لوگوں کا
خاصہ ہے اور اِس صف میں ایک نمایاں نام شیخوپورہ سے تعلق رکھنے والی ہونہار
سٹوڈنٹ مہ رُخ چودھری کا بھی ہے ۔ نہایت ہی کم عمری میں نہ صرف کالم نگاری
افسا نہ میں طبع آزمائی کر رہی ہیں بلکہ شعری اُفق میں بھی روشنا ئی
بکھیرنے کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔گزشتہ دنوں ان کے ساتھ ہونے والی نشست
میں انہوں نے اپنی شخصیت اور قلمی فن و ہنر بارے کئے رازوں سے پردہ ہٹایا
ان کا کہنا تھاکہ’’میں ایک سنجیدہ مزاج۔تنہائی پسند اور خاموش کن انسان ہوں۔
لو گوں کے سا تھ رشتہ صرف مہربا نی کی حد تک ہے۔ ہم تین بہن بھائی ہیں میرے
بڑے بھائی میرے دوست ہیں اور میرا یقین۔چھوٹا بھائی میرا پیار۔ ماں با پ
ہماری کائنات کی رونق ہوتے ہیں اور میں خدا سے دعا کرتی ہوں میری کائنات کی
رونق سدا قائم رہے‘‘۔یہ بات واضح ہوگئی کہ ماں باپ سے محبت اور اُن کی
قدرومنزلت کا ہی کمال خاص ہے کہ عرصہ قلیل قلمی حلقے میں وہ مقام حاصل کر
لیا جس جو چھونے کیلئے بڑے بڑے لکھاریوں کو بھی کئی دہائیاں درکار ہوتی ہیں
۔ ایک سوال پر اُنہوں نے بتایا کہ مجھے فطری طور پر ادب سے لگاؤ ہے کسی بھی
نقطے کو میں عام لوگوں سے ذرا مختلف سو چتی ہوں اور پھر اس پر لکھ کر مجھے
تسکین ملتی ہے،مھے پچپن سے ہی لکھنے کا شوق رہالیکن با قاعدہ کالج کے دنوں
میں لکھنا شروع کیا 17 سال کی عمر میں بزم ادب میں میری غزل کو بہت سراہا
گیا تھا اورپہلا کالم گزشتہ سال روزنامہ آفتاب میں شائع ہوا ۔لکھنے کے
مقصدپر کہنا تھا کہ دراصل میں اکثر جو کچھ اپنے اردگرد رونما ہوتا دیکھتی
ہوں اس کی حمایت یا بغاوت میں لکھتی ہوں۔لکھنے کے اوقات بارے کہا کہ یوں تو
لکھنے کا کوئی مقرر وقت نہیں مگر اکثر میں رات گئے لکھتی ہوں یہ وہ وقت ہے
جب عقل والے سوتے ہیں اور عشق والے جا گتے ہیں۔عورت یا مرد کس صنف کی حامی
ہیں؟ کے جواب میں کہا کہ کسی صنف کی نہیں بلکہ انسان کی حامی ہوں کیونکہ
غلط یا درست ہونے کے لیے مرد اور عورت ہونا ضروری نہیں صرف انسان ہو نا
ضروری ہے۔یہ کونسا عشق ہے؟کے سوال پر کہنا تھا کہ ’’کام اور مقاصد سے ۔۔مجازی
بھی ہو سکتا ہے الغرض یہ لا محدود ہے۔ اور میرے نزدیک میرا وہ عشق مجازی ہے
جسے میں قرآن کے لفظوں کی طرح پاک سمجھتی ہوں‘‘جب ماہ رُخ سے پوچھا گیا کہ
شاعر کیسے بنا جائے؟تو ان کا کہنا تھا کہ شاعر بنا نہیں جا تا نہ ہی بنایا
جاسکتا بلکہ یہ خدا داد صلا حیت ہے، ہاں ۔۔اصلاح سے بہتری پیدا ضرور کی
جاسکتی ہے اور میں نے دیوان غالب و داغ سے اصلاح لی ۔ ایک سوال کے جواب میں
کہا کہ محبت خود ایک شعر کی طرح ہے جسے سمجھ آ جائے اسے سرور دیتی ہے اور
جسے سمجھ نہ آئے اس پر بے سود ہو تا ہے۔دوسرا یہ کہ اصل محبت میں نا کا می
نہیں ہوتی کیونکہ یہ تو بے حد و حسا ب ہوتی ہے مزید کہنا تھا کہ ایک انسان
ایک خیال جو کہ میری زندگی کی رعنائی ہے میری شاعری اسی ایک شخص پر ہے جس
سے میرا روح کا رشتہ ہے۔ماہ رُخ کا اس سوال پر کہ ادب آداب اور ادب ادیب
ایک پیچ پر ہیں؟کہنا تھا کہ میرے خیا ل میں ادیب ایک طبیب کی مانند ہوتا ہے
جسے معا شرے کا ہر مرض محسوس ہو جاتا ہے۔۔مگر آج کل نہ تو ادب رہا ہے نہ
ادب شناس۔ ایک ادیب کو عام انسانوں سے ذرا گہرا اور سنجیدہ مزاج ہو نا
چاہیے۔ آج کے ادیب کو اسلا ف کے ادب سے رہنمائی اور اصلاح کی ضرورت ہے یہ
میں ہر برائی کو اس سلیقے سے بیان کرنے کی ضرورت ہے کہ برائیوں کا سد باب
ہو کیونکہ اگر قلم حق بجانب ہو تو یہ تلوار سے کہیں زیادہ طا قتور ہے لیکن
اس کے لیے ہمارا اپنی مفاد پرستی سے مبرا ہو نا ہو گا۔اس مختصر نشست میں اس
آخری سوال پرکہ اتنی چھوٹی سی عمر میں اتنی گہرائی اتنی دانشمندی اتنا عجز
کیسے ہوتا ہے یہ سب؟ان کا لاجواب جواب کچھ یوں تھا کہ’’علمیت کے لیے ذہین
ہونا کا فی نہیں میرے خیا ل سے زندگی ایک معتبر استا د ہے جو ہمیں ہر پل
تراش رہا ہے اب یا تو ہم کانچ کا ہتھیار بن جاتے ہیں یا پھر ایک نایاب
نگیں۔بحر حال میری دانائی اور سنجیدگی یہ سب زندگی کی عطا ہے‘‘۔ ان سے ہونے
والی گفتگو میں یہ باتیں بھی آشکار ہوئی کہ انکی نظر میں زندگی ایک حسین
چیز ہے مگر تب تک جب تک کہ مہربان ہو جو نہی اس نے آزمائش کا اردہ کیا تو
یہ تراش دیتی ہے۔عیش و عشر ت اور زیادہ دولت کی انہیں چاہت نہیں سادگی کو
ہی اصل حسن مانتی ہیں اور دوستی کے رشتہ کو تمام رشتوں سے کہیں زیادہ مضبوط
اور پاکیزہ قرار دیتی ہیں، ان کی نظر میں عورت ایک وقار کا نام ہے ایک غرور
کا نام ہے اور اور یہ غرور تب تک ہوتا ہے جب تک عورت کا وقار قائم رہتا
ہے۔آخر میں مہ رُخ کیلئے دعا ہے کہ وہ ہمیشہ اپنی تہذیب اور اقدار کا دامن
تھامے اپنے قلم سے اس معاشرے میں روشنیاں بانٹتی، رعنائیاں بکھیریتی اور
دعائیں سمیٹتی رہیں ۔
|