اے عقل تم ہمیشہ دیرسے کیوں آتی ہو !

کہانی بہت پرانی ہے،کسی جنگل میں ایک چرواہا رہتا تھا،وہ اس جنگل میں بکریاں چراتا،وہیں اُس کی ساری زندگی گزری،ہروقت بکریوں کے ساتھ اُس کا اُٹھنا بیٹھناتھا،وقت کے ساتھ ساتھ اُس کی ساری عادات بکریوں جیسی ہوگئیں،یہاں تک کہ وہ پانی بھی بکریوں طرح اوندھا ہوکرپیتا،کھانابھی انہی کی طرح کھاتا ۔ پھرحالات نے کروٹ بدلی،تبدیلی آئی اوراُس کے دن بدل گئے،ہوا یوں کہ بادشاہ کی جوان بیٹی شادی کی عمرکوپہنچ چکی تھی،بادشاہ کے لئے پریشانی کی بات یہ تھی کہ وہ اپنے آس پاس کی دیگرریاستوں کے ساتھ تعلقات اچھے رکھنے کا خواہاں تھا ،بادشاہ نے سوچا،اگرکسی ایک ریاست کے شہزادے سے اس کی شادی کر دی تودوسری ریاستوں کے بادشادہ ناراض ہوجائیں گے۔جس سے خواہ مخواہ حالات خراب ہوں گے اورلڑائی جھگڑے ہوں گے،کیوں نہ ایسا حل تلاش کیا جائے کہ شہزادی کی شادی بھی کردی جائے اورکسی کی ناراضی کی نوبت بھی نہ آئے،چناچہ وہ ہروقت ایسی ہی ترکیب سوچنے میں مصروف رہنے لگا۔بادشاہ نے اپنے مشیرباتدبیرسے اپنی اس پریشانی کے حل کا مشورہ کیا،مشیرنے جومشورہ دیااورحل تجویزکیا بادشاہ کوبہت پسندآیا اورملک بھرمیں اعلان کردیا"فلاں دن فلاں میدان میں گڑوی گھمائی جائے گی اورجس شخص کے سامنے گڑوی ٹھہرے گی اسی سے شہزادی کی شادی کی جائے گی۔

میدان میں سب جمع ہوگئے توبادشادہ نے گڑوی گھمانے کا حکم دیا، چرواہا جس کے کپڑے پھٹے پرانے، منہ سرمٹی سے بھرا ہواتھا،وہ بھی اتفاق سے وہاں آپہنچا اورمجمع میں بیٹھ گیا،گڑوی گھومتی ہوئی سیدھی چرواہے کے سامنے آکررکی۔سب حیران تھے کہ اتنی خوبصورت وحسین شہزادی کی شادی اس غریب بدحال چرواہے کے ساتھ ہوگی۔یہ دیکھ اورسوچ کربادشاہ بھی حیران وپریشان تھا،آخرکچھ سوچ کراُس نے فیصلہ کیا،کہ گڑوی دوبارہ گھومائی جائے،اتفاق سے گڑوی پھرچرواہے کے سامنے آکررکی۔اس باربادشاہ نے تقدیرکا فیصلہ سمجھ کراسے اپنا دامادقبول کرلیا۔چرواہے کواچھی طرح سے تیارکیا گیا،نئے کپڑے اورتمام لوازمات کے ساتھ بنا سنوارکراُسے بادشاہ کے سامنے پیش کیا گیا،بادشادہ نے شہزادی کی شادی چرواہے کے ساتھ کردی۔

شادی کی رسومات کے بعدچرواہے کو کھانا دیا گیا جواُس نے اپنی عادت کے مطابق بکریوں کی طرح اُلٹا لیٹ کر کھایا،تمام لوگ اُسے دیکھ کرحیران ہورہے تھے،جب کھانے سے فارغ ہوکراُسے شہزادی کے پاس پہنچایا گیا،وہ وہاں بھی چرواہوں والی آوازیں نکالتا رہا،شہزادی اُس کی حرکتیں دیکھتی رہی،پھرفیصلہ کیا کہ کیوں نہ اس سے تین سوال پوچھوں اگراس نے غلط جواب دئیے تواسے پھانسی چڑھوادوں گی اورمجھے اس مصیبت سے نجات بھی مل جائے گی۔

شہزادی نے چرواہے سے کہا،میں تم سے سوال پوچھتی ہوں،تم نے درست جواب دیئے توٹھیک ورنہ تم کوپھانسی کی سزاملے گی۔چرواہے نے کچھ سوچے بغیرہی شہزادی کی بات تسلیم کرلی۔شہزادی نے پوچھا،بتاؤپیٹ کس کا اچھا ہے،چرواہے نے جواب دیاکہ پیٹ مچھلی کا اچھاہے۔پھرشہزادی نے پوچھا پانی کس کا اچھا ہے،چرواہے نے کہاپانی لکڑی کااچھاہے،شہزادی نے آخری سوال پوچھاپھول کونسااچھا ہے،چرواہے نے جواب میں کہا کہ پھول گوبھی کااچھاہے۔چرواہے کے فضول جواب سن کرشہزادی نے غصے سے وزیرکوبلاکرکہاکہ اس بیوقوف کولے جاکرپھانسی پرچڑھا دو۔

چرواہے نے ان حالات میں اپنے آپ کوسمجھایاکہ دیکھواب بھی عقل سے کام نہ لیا تومارے جاؤگے،چرواہے نے وزیرسے کہامحترم وزیر،شہزادی کا حکم بجا، لیکن مرنے سے پہلے میری آخری خواہش ہے کہ مجھے ایک باربادشاہ سے ملوادو۔وزیراُسے بادشاہ کے پاس لے گیا۔بادشاہ نے چرواہے سے کہا ،کیسے آنا ہوا۔ چرواہے نے عرض کی جناب کا اقبال بلندہو،آپ نے اپنی خوشی سے میری شادی شہزادی سے کروائی اورشادی کی رات ہی کسی کوپھانسی پرچڑھانا کونسا انصاف ہے۔بادشاہ نے وزیرسے پوچھا آخرماجراکیا ہے،وزیرنے جواب میں کہا،شہزادی کاحکم ہے کہ یہ بیوقوف ہے،اس لئے اسے پھانسی دی جائے۔بادشاہ نے شہزادی کوطلب کیا اوراس سے سارا واقعہ پوچھا ۔شہزادی نے کہا ہم نے شرط رکھی اس نے میرے سوالوں کے جواب درست نہیں دیئے،اس لئے ہم نے پھانسی کاحکم دیا۔

بادشاہ نے کچھ دیرسوچنے کے بعدحکم دیا، وہ سوال ہمارے سامنے پوچھے جائیں اگردرست جواب دے توٹھیک ورنہ اسے پھانسی چڑھا دینا۔شہزادی نے پہلا سوال کیا،پیٹ کس کا اچھا ہے؟چرواہے نے کچھ دیرسوچا اورپھرجواب دیا،پیٹ دھرتی کا اچھا ہے جس میں سب کچھ سماجاتاہے۔شہزادی نے دوسراسوال کیا، پانی کس کا اچھا ہے؟چرواہے نے سوچنے کے بعدکہاکہ پانی بارش کا اچھا ہے،جس پرسانس لینے والی ساری مخلوق کی زندگی کا انحصارہے۔شہزادی نے تیسرا اور آخری سوال پوچھا،پھول کون سا اچھا ہے؟چرواہے نے جواب دیا،کپاس کاپھول سب سے اچھا ہے جوساری مخلوق کاتن ڈھانپتاہے۔سارے جواب سن کربادشاہ اورمحفل میں موجودلوگ بہت خوش ہوئے ،شہزادی بھی اپنے فیصلہ پرشرمندہ ہوئی اورچرواہے کواین آراو،دیتے ہوئے،اس کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی گزارنے کا تہیہ کرلیا،بادشاہ نے کہا،یہ سب باتیں توعقل مندی اورسمجھداری کی ہیں۔بادشاہ نے چرواہے کوانعام واکرام سے نوازا،شہزادی اوربادشاہ کی زبان سے تعریف سن کراورانعام واکرام پاکرچرواہے نے کہا۔اے عقل تم ہمیشہ دیرسے کیوں آتی ہو !یہی حال ہماری قوم ،قائدین اورویزروں،مشیروں کاہے۔ ہمیں بھی عقل ہمیشہ دیرسے آتی ہے۔

MUHAMMAD AKRAM AWAN
About the Author: MUHAMMAD AKRAM AWAN Read More Articles by MUHAMMAD AKRAM AWAN: 99 Articles with 92418 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.