نئے سال کا آغاز ہوا تو پارلیمنٹ میں یکجہتی کا مظاہرہ
دیکھنے میں آیا، انتہائی اہم ایشو پر اپوزیشن جماعتیں حکومت کے ساتھ شانہ
بشانہ کھڑی ہو گئیں جس سے ساری قوم بھی حیران رہ گئی کہ حکومت کے خلاف
تنقید کرنے والے بلاول، ن لیگ بھی انتہائی اہم ایشو پر ایک ہو گئیں اور
حکومت کا ساتھ دے رہی ہیں یقینا خوش آئند امر ہے،ایسے لگتا ہے کہ سال 2020
ء پاکستان کے لیے بہتر خبروں کا سال ہو گا، اس وقت جو بہتری آئی ہے وہ آرمی
چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے حوالے سے ہے، وفاقی کابینہ نے ترمیمی بل
بڑی تیزی سے منظور کیا، اب یہ پارلیمنٹ میں جائے گا۔ اس بل کی منظوری کے
بعد جنرل قمر جاوید باجوہ کو 2023 ء تک بطور آرمی چیف توسیع مل جائے گی جو
پاکستان کے لیے بہت اچھی اور مثبت خبر ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے اس بل کی غیر
مشروط حمایت کر دی ہے۔ حکومتی مذاکراتی ٹیم پیپلزپارٹی کی قیادت سے بھی ملی۔
بلاول بھٹو نے پارلیمنٹ میں ڈبیٹ کی خواہش کا اظہار کیا۔ اور بعد ازاں غیر
مشروط طور پر بل کی حمایت کا اعلان کر دیا۔اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے
حکومت کی حمایت سرد موسم میں ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ہے۔ایسا پہلی بار ہو رہا
ہے کہ موجودہ حکومت میں تمام جماعتیں ایک پیج پر آ رہی ہیں۔بلاول زرداری نے
یقینا ایک اچھا فیصلہ کیا ہے اور مسلم لیگ ن نے بھی ووٹ کو عزت دو کے نعرے
کو ترک کرکے بل کی حمایت کا اعلان کیا، اگرچہ ہو سکتا ہے کہ ن لیگ میں
اندرونی اختلاف اس حوالہ سے ہو لیکن پارلیمنٹ میں اس بل کی حمایت ایک اچھی
روایت ہے جو قانون سازی کے لئے مدد دے گی۔
اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے آرمی ایکٹ میں ترمیم کے بل کی غیر مشروط حمایت
کے بعد آرمی ایکٹ ترمیمی بل 2020 قومی اسمبلی میں پیش کر دیا گیا۔ قواعد و
ضوابط کے تینوں بل متعلقہ قائمہ کمیٹی کو بھیج دیئے گئے۔ وزیردفاع پرویز
خٹک نے بل قومی اسمبلی میں پیش کیا۔ اس سے قبل وزیر دفاع پرویز خٹک کی زیر
صدارت پارلیمانی کمیٹی برائے امور قانون سازی کا اجلاس اسلام آباد میں ہوا
جس میں سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر، شبلی فراز، اعظم سواتی، بیرسٹر فروغ
نسیم شریک ہوئے، جبکہ ن لیگ کی جانب سے سردار ایاز صادق، خواجہ آصف، مرتضیٰ
جاوید عباسی اور پیپلز پارٹی کی جانب سے نوید قمر، شیری رحمان، پرویز اشرف
نے شرکت کی۔وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں
توسیع اور سروسز چیفس کی ریٹائرمنٹ کے لئے عمر کی حد بڑھانے سے متعلق مجوزہ
ترمیمی بل کے خدوخال شرکاء کے سامنے پیش کیے اور اپوزیشن کی جانب سے سامنے
آنے والے تحفظات دور کرنے کی کوشش کی۔ پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں حکومت
اپوزیشن جماعتوں کو مسلح افواج کے قوانین میں ترمیم کے لئے حمایت پر آمادہ
کرنے میں کامیاب ہو گئی تاہم حکومت نے پیپلز پارٹی کی جانب سے پارلیمانی
طریقہ کار اپنانے کا مطالبہ تسلیم کر لیا ہے۔جس کے تحت پارلیمنٹ کے دونوں
ایوانوں سے منظوری پہلے مجوزہ ترمیمی بل متعلقہ قائمہ کمیٹیوں کو بھجوائے
جائیں گے۔ سینیٹ اور قومی اسمبلی کی امور دفاع سے متعلق قائمہ کمیٹیوں میں
بحث اور منظوری کے بعد ترمیمی بل کو پارلیمنٹ میں پیش کر کے منظوری لی جائے
گی۔
وفاقی حکومت کی آرمی ایکٹ کی مجوزہ ترمیم کی تفصیلات سامنے آئی ہیں، اب
چیئرمین جوائنٹ چیف آف سٹاف کمیٹی تینوں سروسز سے آسکیں گے۔ سروسز چیفس کی
مدت ملازمت سے متعلق قانونی ابہام کو دور کرنے کے بعد افواج پاکستان سے
متعلق تین قوانین میں ترمیم کی جائینگی، 3 قوانین سے متعلق ترمیمی مسودے
پارلیمانی کمیٹی کو پیش کر دئیے گئے۔ آرمی ایکٹ، نیول ایکٹ، ایئر فورس ایکٹ
میں ترامیم کی جائے گی، تینوں قوانین میں سروسز چیفس کو چیئر مین جوائنٹ
چیف آف سٹاف کمیٹی بنانے سے متعلق ترمیم کی جا رہی ہے۔ قوانین میں چاروں
سروسز چیفس کی مدت ملازمت میں توسیع، دوبارہ تقرری کی شقیں ڈالی جا رہی ہیں،
قوانین میں چاروں سروسز چیفس کی عمر حدود ملازمت 64 سال کی گئی ہے۔ سپریم
کورٹ نے 16 دسمبر کو آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت سے متعلق
کیس میں تفصیلی فیصلہ جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر پارلیمنٹ چھ ماہ میں
آرمی چیف کی مدت ملازمت توسیع اور ریٹائرمنٹ سے متعلق قانون سازی نہیں کرتی
تو صدر مملکت نئے آرمی چیف کی تعیناتی کریں گے۔43صفحات پر مشتمل فیصلہ جسٹس
منصور علی شاہ نے تحریر کیا تھا جبکہ سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے دو
صفحات پر مشتمل اضافی نوٹ تحریر کیا۔ فیصلے میں کہا گیا کہ اب معاملہ
پاکستان کے منتخب نمائندوں کی طرف ہے، پارلیمان آرمی چیف کے عہدے کی مدت کا
تعین کرے۔
بھارت میں بھی نئے آرمی چیف کی تقرری ہو چکی اور نئے بھارتی آرمی چیف نے
عہدہ سنبھالنے کے فوری بعد پاکستان کو دھمکی دی جس پر پاکستان نے آزاد جموں
وکشمیر میں ایل او سی پر ’’پیشگی حملے‘‘سے متعلق بھارتی آرمی چیف لیفٹننٹ
جنرل منوج مکھنڈکے غیر ذمہ دارانہ بیان کو مسترد کرتے ہوئے واضح کیا کہ
بھارت کو بالا کوٹ میں مہم جوئی پر پاکستان کی منہ توڑ جوابی کارروائی کو
نہیں بھولنا چاہیئے۔پاکستان کسی بھی بھارتی جارحیت کا منہ توڑ جواب دینے
کیلئے پوری طرح تیار ہے۔بھارتی اشتعال انگیزیوں کے باوجود ،پاکستان خطے اور
دنیا بھر میں امن ،سلامتی اور استحکام کیلئے اپنا کردار ادا کرتا
رہیگا۔ترجمان دفتر خارجہ کا کہنا تھا کہ 5 اگست کے بھارتی غیر قانونی اقدام
کے بعد وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی اور وزیر اعظم عمران خان نے دنیا
بھر میں بھارت کی ہندو توا پالیسی کو بے نقاب کیا، وزیر اعظم نے اقوام
متحدہ کی جنرل اسمبلی میں مسئلہ کشمیر کو اٹھایا جبکہ وزیر خارجہ نے اقوام
متحدہ کے سیکرٹری جنرل کو سات خطوط لکھے۔ او آئی سی نے مسئلہ کشمیر پر مکمل
حمایت کرتے ہوئے 5 اگست کے بعد او آئی سی کے دو اجلاس منعقد کیے،کشمیر کے
حوالے سے او آئی سی وزارائے خارجہ کے اجلاس پر کام ہو رہا ہے جو اپریل میں
پاکستان میں ہوگا۔ 5 اگست کو بھارت کے غیر قانونی اور یک طرفہ اقدامات پر
ہماری قیادت نے کشمیریوں کی تکالیف کو اجاگر کیا، بھارت میں جاری ہندتوا
نظریے کو دنیا کے سامنے بے نقاب کیا۔ عالمی برادری ہندتوا کے باعث خطے کو
درپیش امن و سلامتی کو درپیش خطرات سے آگاہ ہو چکی ہے۔
ایسے وقت میں جب ملکی سرحدوں اور خطے کی صورتحال کشیدہ ہے، اس صورتحال میں
سیاسی جماعتوں کو قومی مفاد مقدم رکھنا ہوگا، آئین ملکی دفاع کی ذمہ داری
وزیراعظم کو دیتا ہے، قانون میں سقم موجود تھا جسے پارلیمنٹ دور کر رہی ہے،
تمام سیاسی جماعتوں نے معاملے پر دانشمندی کا مظاہرہ کیا۔ امید ہے دیگر
معاملات پر بھی پارلیمنٹ سے یکجہتی کی آواز اٹھے گی۔ موجودہ صورتحال میں
سیاسی درجہ حرارت کم کرنا ہو گا، ووٹ کو عزت عمل سے دینی ہے الفاظ سے نہیں،
سیاسی جماعتوں کو قومی مفاد کی خاطر یکجہتی کا مظاہرہ کرنا چاہیئے،آرمی
ایکٹ میں توسیع کے حوالہ سے پوری پارلیمنٹ وزیر اعظم عمران خان کی پشت پر
کھڑی ہے، ایک بہتر سیاسی ماحول بن رہا ہے، توقع ہے الیکشن کمیشن، نیب
قوانین کی تبدیلی کے حوالے سے اپوزیشن کی سفارشات کو بھی شامل کیا جائے گا۔
آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے بعد چیف الیکشن کمشنر کے معاملے کو
بھی باہمی اتفاق رائے سے حل کیا جائے گا جسے ملک میں یکجہتی کی فضا بنے گی۔
|