دل شکستہ قسط نمبر: 6 (آخری قسط)

دارین کے لئے زندگی ایک بار پھر اکیلی اداس اور تنہا تھی ۔ساتھ ہی وہ سدرہ سے شرمندہ بھی تھا۔اس لئے اس نے سدرہکو کال کی۔
ہیلو۔ میں دارین بات کررہا ہوں ۔
جی دارین صاحب آپ نے کیسے کال کی؟
آپ کے پاس میرا نمبر نہیں تھا اس لئے میں نے سوچا آپکو نمبر دے دوں۔ اسے سمجھ نہیں آیا بات کہاں سے شروع کرے۔
اسکی اب کوئی ضرورت نہیں ہے دارین صاحب اچھا ہوا آپ نے کال کرلی ورنہ کل میں باباکو آپ کے آفس بھیجتی۔
کک۔۔۔ کیوں خیریت؟؟ وہ گھبرا گیا تھا۔
جی اصل میں آپکو بتانا تھا کے میں نے نوکری کر لی ہے۔ اب میں اپنے علاقے کی پولیو ٹیم کے ساتھ کام کرونگی۔ اجمل کی فیس بھی آرام سےجمع ہو جائے گی۔ اس لئےآپ اب پیسے نہیں بھیجئے گا۔
یہ تو بہت خوشی کی بات ہے سدرہ لیکن آپ مجھے پیسے دینے سے مت روکیں۔ ابھی تو اجمل اسکول میں ہے آپ اسکی فیس افورڈ کر سکتی ہیں ۔ آگے جب وہ کالج اور یونیورسٹی میں پڑھے گا تو اخراجات بڑھ جائیں گے تب وہ پیسے آپ کے کام آئیں گے۔ اتنا تو میں بھی سمجھ گیا ہوں کے اب آپکو ضرورت بھی ہوگی تو آپمجھے نہیں بتائیں گی۔
لیکن دارین صاحب ۔۔۔۔۔۔
لیکن ویکن کچھ نہیں۔ میں پہلے ہی آپ سے بہت شرمندہ ہوں ۔میں نے چھوڑ دیا ہے ابیشہ کو۔ اسکی طرف سے بھی میں آپ سے معافی مانگنا چاہتا ہوں۔ دارین نے اداسی سے بتایا۔
مجھے بہت افسوس ہے معافی تو مجھےمانگنی چاہیے میری وجہ سے آپ کاگھر ٹوٹ گیا۔ سدرہ کوابیشہ کے فون کی وجہ سمجھ آگئ تھی اب وہ اورشرمسار تھی۔
نہیں آپکی وجہ سے نہیں یہ تو ایک دن ہونا تھا۔ شاید مجھے اس سے شادی کرنی ہی نہیں چاہیے تھی مجھے ایسی لڑکی سے شادی کرنی چاہیے تھی جو مجھےسمجھسکے۔ جیسے۔۔۔۔۔۔ جیسے ۔۔۔۔۔ آپ۔۔۔وہ نہ چاہتے ہوئے بھی بول گیا تھا۔
سدرہ حیران تھی اس بات کی توقع ہی نہیں تھی اسے۔
دارین صاحب آپ بہت اچھے ہیں اسدنیا کے باقی لوگوں سے بہت مختلف۔ جب آپ دوسروں کا اتنا خیال رکھتے ہیں تو اپنی فیملی کا کتنا رکھیں گے اسکا اندازہ ہے مجھے ۔لیکن ۔۔۔۔۔۔ میں وہ خوش قسمت نہیں ہو سکتیاگر میں نے ایسا کیا تو کوئی بھی کبھی کسی بیوہ اور یتیم کی مدد نہیں کرےگا میں دنیا کے لئے ایک بری مثال نہیں بن سکتی ۔اور سچ پوچھیں تو مجھےابیشہ بی بی کی بد دعائوں سے ڈر لگتا ہے جانے انجانے میں میں نے بھی انکا دل دکھایا ہے۔ مجھے یقین ہے آپکو کوئی اچھیلڑکی ضرور ملے گی۔ سدرہ نے بہت سوچ کر جواب دیا۔ بہت کم عمری میں ہی دنیا دیکھ لی تھی اس نے۔ وہ اچھی طرح جانتی تھی دارین اور اسکا کوئی جوڑ نہیں وہ محض اپنی پشیمانی دور کرنے کے لئے یہ سب کہہ رہا ہے۔لیکن اسنے ابیشہ کے فون کے بارے میں نہیں بتایا وہ واقعی خوفزدہ تھیاسکی بد دعائوں سے۔
ہممممم۔۔۔۔۔۔ ٹھیک کہا آپ نے۔ اس طرح تولوگ ابیشہ کی باتوں کو ہی سچ سمجھیں گے۔ اسےبھی اندازہ ہوگیا تھا یہ فیصلہ آسان نہیں تھا دونوں کے لئے ۔
ٹھیک ہے لیکن آپ مجھ سے وعدہ کریں آپکوجب بھی کسی بھی معاملے میں میری مدد یا رہنمائی کی ضرورت پڑے گیآپ مجھے کال کریں گی۔
جی ضرور۔ اللہ حافظ ۔
آج کی رات مشکل تھی لیکن ایک نئے دن کا سورج طلوع ہونے والا تھا۔ سدرہ کو یقین تھا وہ اپنے بیٹے کی ذندگی میں کبھی اندھیرے نہیں آنے دےگی۔ ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نورالھدی نے دارین کو اپنی فرینڈ کی شادی میں دیکھا تھا۔ اسکی دوست دانیہکی شادی دارین کے کزن سے ہوئی تھی۔ جب اپنی دوست سے دارین کی کہانی سن کر وہ اس سے بہت متاثر ہوئی۔ دانیہ نے اپنے شوہر سے نور الھدی اور دارین کی شادی کی بات کی۔دارین بہت مشکل سے اس شادی کے لئے راضی ہوا تھا۔ نورالھدی ایک پڑھی لکھی اور سمجھدار لڑکی تھی وہ مڈل کلاس فیملی سے تعلق رکھتی تھی۔ وہ بہت خوش مزاج اور نرم دل تھی۔ سدرہ نے ٹھیک کہا تھا وہ دوسروں کی ذندگی میں روشنی بکھرتا تھا اسکی اپنی ذندگی میں بھی اندھیرا زیادہ دن نہیں رکا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دارین سے طلاق ابیشہ کی ذندگی کی سب سے بڑی غلطی تھی۔ والدہ تو پہلے ہی نہیں تھیں اسکے والد بھی یہ صدمہ برداشت نہیں کرسکے۔ انکے انتقال کے بعد بھابیوں نے اسکی شادی کرانے کی بہت کوششیں کیں لیکن اسکی بے اولادی کا سن کر کوئی بھی راضی نہ ہوا۔آخرکار انہوں نے اپنا رنگ دکھانا شروع کردیا۔ اسکے بھائیوں نے اسکا حصہ دے کر اسے الگ کردیا۔ اتنا پیسہ ہوتے ہوئے بھی وہ تنہا تھی۔ ایک بڑا سا گھر اس نے کرائے پر لے لیا تھا۔نوکر بھی رکھ لئے تھے فلاحی ادارے میں دوبارہ جانا شروع کردیا تھا لیکن یہ سب عارضی تھا۔ بہت جلد ہی ہر چیز سے اسکا دل اکتانے لگا۔ وہ آہستہ آہستہ ڈپریشن کا شکار ہوتی جارہی تھی نہ گھر میں اسکا دل لگتا تھا نہ چیرٹی ورک میں۔ وہ ذیادہ تر گھر سے باہر پارٹیز اور فرینڈز کے ساتھ گھومنے میں وقت صرف کرتی۔اس نے بزنس شروع کرنے کی کوشش کی لیکن ناتجربہ کاری کی وجہ سے بھارینقصان اٹھانا پڑا اورجب اسے پتا چلا کے اسے کینسر ہے۔ ایک ایک کرکے اسکے سبھی دوست اسکا ساتھ چھوڑ چکے تھے۔ اگر وہ کسی کو اپنی مجبوری بتاتی تو بھی لاکھ دو لاکھ سے زیادہ مدد کرنے کے لئے کوئی بھی حامی نہ بھرتا یہاں تو لاکھوں چاہیے تھے۔وہ بڑے گھر سے چھوٹے گھر میں آگئ پیسہ پانی کی طرح بہہ رہا رھا تھاوہ خود فلاحی ادارے کی سرگرم رکن رہ چکی تھی لیکن دوسروں کے لئے امداد اکھٹی کرنے اور اپنے لئے مدد مانگنے میں بہت فرق تھا۔اسکی انا خود داری سب ٹوٹ جاتی۔ اب تو یہ نوبت آگئ تھی کے وہ سرکاری ہاسپٹلز میں علاج کے لئے دھکے کھا رہی تھی جب دارین کے ماموں نے اسے وہاں دیکھا بات دو تین لاکھ کی ہوتی تو وہ خود ہی مدد کردیتے لیکن اس سے ذیادہ بڑا دل نہیں تھا انکا اس لئے انہوں نے دارین کو اسکی اطلاع دی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دارین۔۔۔۔۔۔ یہ کون ہیں؟
وہ گھبرا کر کھڑی ہوئ فائل اسکے ہاتھ سے گر گئ تھی۔ ابیشہ نے دروازے کی طرف دیکھا وہ سدرہ نہیں تھی ۔
یہ ابیشہ ہیں میں نے تمہیں بتایا تھا انکے بارے میں ۔ دارین نے فائل اٹھاتے ہوئے جواب دیا۔
اوہ اچھا۔ نورالھدی کی آنکھوں میں حیرانی تھی اس نے دارین کی پہلی بیوی کی خوبصورتی کے چرچے سنے تھے لیکن اسکے سامنے ایک کمزور نحیف اور کالی رنگت کی حامل عورت کھڑی تھی۔
آپ کھڑی کیوں ہوگئیں پلیز بیٹھئے۔ دارین نے مجھے بتایا تھا آپ کے بارے میں ۔ آپ فکر مت کریں انشاءاللہ آپ بالکل ٹھیک ہوجائیں گی۔ میں چائے لیکر آتی ہوں ۔ وہ کمرے سے چلی گئ۔
دارین یہ۔۔۔۔۔ وہ جملہ پورا نہیں کرسکی۔لیکن دارین سمجھ گیا تھا ۔
یہ نورالھدی ہے میری بیوی۔
اور ۔۔۔۔۔۔ سدرہ کا کیا ہوا؟؟؟
سدرہ؟؟ اوہ اچھا وہ۔۔۔۔ اسکا بیٹا اب انجینئر ہے میں اور ھدی گئے تھے اسکے کانوکیشن میں۔ وہ خوشی سے بتا رہا تھا۔
دعا اور بد دعا رائیگاں نہیں جاتیں یہ لوٹ کر ضرور آتی ہیں ۔ کسی کے کہے گئے الفاظ یاد آئے اسے۔
اچھا میں چلتی ہوں۔ مزید رکنا محال تھا اسکے لئے۔
ارے بیٹھو نہ ھدی چائے لا رہی ہے۔
نہیں اب اور نہیں رک سکتی۔ اس نے ایک نظر گھر پر ڈالی جو کبھی اسکی جنت تھا اور باہر نکلنے لگی جب ایک چھوٹا بچہ کمرے میں داخل ہوا۔
پپا آپکو مما بلا رہی ہیں۔ اس نے دارین سے کہا۔
اوکے ان سے کہو میں آتا ہوں ۔
ابیشہ نے بچے کو جاتے ہوئے دیکھا۔ پھر ایک نظر دارین پر ڈالی۔اسکی ذندگی مکمل تھی۔ اسکے دل میں چبھن ہونے لگی تھی وہ دل شکستہ اسکے گھر سے نکل گئ۔۔۔۔۔
ختم شد

 

Sana Waheed
About the Author: Sana Waheed Read More Articles by Sana Waheed: 25 Articles with 38670 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.