ایک ہیرا ایک جوہری

وہ دو بہنیں اور ایک بھائی تھے- ان کے ماں باپ کی بچپن میں ہی علحیدگی ہو گئی تھی- اس کی وجہ باپ کی دوسری شادی بنی تھی- ان کا باپ ایک کاروباری آدمی تھا اور روپے پیسے کی کوئی تنگی نہ تھی- دوسری شادی کے لیے اس کی ہونے والی بیوی نے شرط رکھی تھی کہ پہلی بیوی کو چھوڑنا پڑے گا- محبّت کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا، اس نے پہلی بیوی کو چھوڑنے میں دیر نہیں لگائی-

تینوں بچے کم عمر تھے اس لیے قانوناً انھیں ماں کے پاس ہی رہنا تھا- باپ کو اس بات کی فکر بھی نہیں تھی، ایک طرح سے تو اس کی جان ہی چھوٹ گئی تھی- کچھ عرصہ کے بعد ماموں اور نانی کے اصرار سے مجبور ہو کر ان کی ماں نے بھی دوسری شادی کرلی- اس کے دوسرے شوہر کی بھی ایک شرط تھی اور وہ یہ کہ بچے ماں اپنے ساتھ نہیں لائے گی- ماں کو اس بات سے دکھ تو ہوا مگر پھر اس نے بھی صبر کرلیا- تینوں بچے نانی کے پاس رہنے لگے اور ماموں ان کی کفالت کرنے لگا- ماں اور باپ سے بچوں کا بالکل بھی رابطہ نہیں تھا- وہ تینوں خودرو پودوں کی مانند بڑے ہونے لگے- فیروزہ بڑی تھی، ملیحہ اس سے چھوٹی اور بہروز ان دونوں سے چھوٹا تھا-

نانی اور ماموں نے ان کا بہت ساتھ دیا اور ان کی تعلیم کا خیال رکھا- مگر حالات دیر تک سازگار نہیں رہے- ان کی پرورش کے سلسلے میں ہونے والے اخراجات کے سلسلے میں ماموں کا ممانی سے جھگڑا ہی رہتا تھا- فیروزہ ایک سمجھ دار لڑکی تھی- اس سے پہلے کہ یہ جھگڑا طول کھینچتا اس نے اپنی تعلیم کو خیر آباد کہا اور ایک اسکول میں نوکری کرلی- اس کے علاوہ شام کو بچوں کو ٹیوشن پڑھانے لگی- اس کی اپنی تعلیم کا راستہ رک گیا تھا اور وہ انٹرمیڈیٹ کے بعد آگے نہ پڑھ سکی مگر اس نے ملیحہ اور بہروز کی تعلیم میں رکاوٹ نہ آنے دی- ممانی نے ان پر ایک احسان یہ کیا تھا کہ ان کو گھر سے نکلنے کو نہیں کہا تھا- انھیں ایک چھوٹا سا کمرہ دے دیا گیا جس میں وہ رہتے تھے- فیروزہ کو ملیحہ اور بہروز کی بڑی فکر رہتی تھی اور وہ ان کی ذرا ذرا سی تکلیفوں پر پریشان ہو جاتی تھی- وقت دھیرے دھیرے گزرتا رہا، فیروزہ کے بالوں میں سفیدی جھلکنے لگی تھی- ملیحہ اور بہروز کے اچھے مستقبل کے لیے اس نے دن رات ایک کردئیے تھے- اس نے انھیں ماں بن کر پالا تھا- اس کی زندگی میں نہ تو کوئی تفریح تھی اور نہ ہی کوئی اور خوشی- وہ صبح سے رات تک بچوں کو پڑھانے میں مصروف رہتی- اسکول سے آکر کر وہ کھانے وغیرہ کا انتظام کرتی، میلے کپڑے جمع ہوجاتے تو ان کو دھوتی، پھر سہ پہر سے لے کر رات دس بجے تک بچوں کو ٹیوشن پڑھاتی- ان تمام مصروفیات سے وہ تھک کر چور ہوجاتی تھی- کبھی کبھی دوپہر کے کھانے کے بعد اس کا دل چاہتا تھا کہ دو گھڑی لیٹ کر کمر سیدھی کر لے، مگر گھر کے بقیہ کام اس کو اس بات کی اجازت نہیں دیتے تھے، وہ پھر سے کام میں جٹ جاتی-

لڑکیاں تو ہمیشہ ہی سے لڑکوں سے زیادہ حساس اور سمجھدار ہوتی ہیں- ملیحہ ان تمام چیزوں کو اچھی طرح سمجھتی تھی- اس کی ساری توجہ اپنی پڑھائی کی طرف مرکوز کر رکھی تھی- اتوار کے دن وہ فیروزہ کو گھر کے کسی کام میں ہاتھ نہیں لگانے دیتی تھی، سارا کام خود کرتی- بہروز کے ذمے بازار سے سودا سلف لانے اور گھر کے دوسرے چھوٹے موٹے کام لگادئیے گئے تھے اور وہ ان کو کرتا تو تھا مگر اپنی مرضی سے-

فیروزہ کی عمر تیزی سے ڈھل رہی تھی- ایسے میں ممانی کو اس پر ترس آگیا- وہ اپنے کسی دور پرے رشتے دار کا رشتہ لے کر آگئیں- وہ ادھیڑ عمر کا شخص تھا اور کسی کپڑے کی مل میں سپروائزر تھا- اس نے اب تک شادی نہیں کی تھی- ملیحہ نے ایم بی اے کر لیا تھا اور بہروز کمپیوٹر سائنس میں BCS کی ڈگری لے کر اب یونیورسٹی میں داخلے کی تیاری کر رہا تھا- فیروزہ کو احساس تھا کہ اس کی شادی اس بات کے مترادف ہوگی کہ جیسے ناؤ کو بیچ منجھدار میں چھوڑ دیا جائے- ملیحہ نے تو بہت کوشش کی کہ آپی اس شادی پر رضامند ہو جائیں، مگر وہ نہ مانی، اس نے بڑے دکھ سے کہا تھا- "ملیحہ- میں نے تو اس در کو اسی روز بند کردیا تھا جب ابّو اور امی کی علحیدگی ہوئی تھی"- اس کی بات سن کر ملیحہ بےاختیار رو پڑی تھی-
ممانی کو نہ سننے کی عادت ہی نہیں تھی- فیروزہ کے انکار پر وہ چراغ پا تو ہوگئی تھیں مگر خاموش رہیں- چند روز بعد انہوں نے اس سے کہا "فیروزہ- اب ہم اپنے بیٹے کی شادی کررہے ہیں- گھر چھوٹا ہے بہتر ہوگا کہ تم اور کہیں انتظام کرلو"-

جب ماں باپ ہی اپنے نہ ہوسکے تو یہ تو ممانی تھیں- فیروزہ نے دوسری مصروفیات کم کیں اور کرائے کا گھر ڈھونڈنے لگی- بہروز اس کے ساتھ ساتھ ہوتا تھا- بڑی تگ و دو کے بعد انھیں ایک اچھے علاقے میں چھوٹا سا فلیٹ مل گیا- ماؤں جیسی سمجھداری فیروزہ میں بھی آگئی تھی- وہ گھر کی ضروریات سے کچھ پیسے بچا بچا کر الگ رکھتی تھی- وہ پیسے اب کام آئے- ان پیسوں میں سے فلیٹ کی سیکورٹی اور ایک ماہ کا کرایہ دیا گیا اور یہ لوگ وہاں منتقل ہوگئے-

اس وقت فیروزہ کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا جب ملیحہ کو ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں اکاؤنٹس کے شعبے میں ایک اچھی نوکری مل گئی- فیروزہ کو یوں محسوس ہوا جیسے اس کی محنت ٹھکانے لگی- ملیحہ کو ایک پرکشش تنخواہ پر رکھا گیا تھا- ملیحہ نے اپنے سامنے دو مقاصد رکھے تھے- ایک تو یہ کہ فیروزہ کو بہت عیش کرواے گی اور اسے اب کوئ کام نہیں کرنے دے گی- دوسرا مقصد یہ تھا کہ بہروز کو باہر پڑھنے بھیجے گی-

زندگی میں بہت سی تکلیفیں اٹھا کر عملی زندگی میں قدم رکھنے والے لوگ بہت محنتی اور ذمہ دار ہوتے ہیں- ملیحہ نے اس بات کو سچ ثابت کردیا تھا- اس نے اپنی کمپنی میں بہت دل لگا کر کام کیا- فیروزہ کی تربیت نے اس کی اخلاقی قدروں کو بھی جلا بخشی تھی، وہ سب سے خوش اخلاقی سے پیش آتی تھی، ہر ایک کے دکھ سکھ میں شریک رہتی اس وجہ سے سب لوگ اس کی بہت عزت کرتے تھے-

کمپنی کا حساب کتاب اور دوسرے مالی معاملات چلانے کے لیے اکاؤنٹس کا شعبہ تھا- اس کا سربراہ باہر سے ڈگری لے کر آنے والا ایک چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ تھا- وہ ملیحہ کی کارگردگی سے بہت متاثر تھا- وہ ہر وقت اپنے کام میں لگا رہنے والا ایک کم گو شخص تھا- اس کی عمر پچاس پچپن کی ہوگی اور اس کا نام عبدالجبار تھا- ملیحہ کی عادت تھی کہ آفس پہنچتے ہی دس بجے چائے کے وقفے میں، لنچ سے پہلے اور آفس سے چھٹی کے وقت فیروزہ سے موبائل پر ضرور بات کرتی تھی- کبھی یہ بات چیت طویل بھی ہوجاتی تھی ورنہ عموماً اس گفتگو کا دورانیہ پندرہ سے بیس سیکنڈ ہوتا تھا- عبدالجبار ملیحہ سے بھی بہت کم گفتگو کرتا تھا- ایک روز چھٹی میں ابھی آدھا گھنٹہ باقی تھا کہ ملیحہ نے فیروزہ کو فون کیا اور بتایا کہ وہ آدھے گھنٹے بعد آفس سے نکلے گی- عبدالجبار اپنی سیٹ پر بیٹھا ہوا تھا، ایسا کبھی کبھی ہی ہوتا تھا کہ وہ فارغ بیٹھا نظر آئے- ملیحہ نے فون بند کیا تو اس نے خلاف توقع مسکرا کر کہا- "میں جب کالج میں تھا تو میری بھی یہ ہی ڈیوٹی تھی- اپنے آنے، جانے، کھانے پینے کی ساری رپورٹیں مجھے بھی تھوڑی تھوڑی دیر بعد اپنی امی کو دینا پڑتی تھیں"-

"میں یہ سب باتیں اپنی آپی سے کرتی ہوں- میری امی نہیں ہیں"- ملیحہ نے بڑی اداسی سے کہا- عبدالجبار شرمشار سا ہو گیا اس کے دل میں خیال آیا کہ اسے یہ بات نہیں کرنی چاہیے تھی- اس نے آہستگی سے کہا "میں معافی چاہتا ہوں، مجھے پتہ نہیں تھا کہ آپ کی امی نہیں ہیں"-

"کوئی بات نہیں"- ملیحہ اٹھ کر اس کے سامنے والی کرسی پر بیٹھ گئی- عبدالجبار نے یہ تذکرہ کر کے اس کو ایک جذباتی ہیجان میں مبتلا کردیا تھا- اس کے دل میں یہ خواہش تھی کہ وہ چیخ چیخ کر ساری دنیا کو اپنی آپی کی قربانیوں کے بارے میں بتائے جنہوں نے اپنی زندگی کی تمام خوشیاں اس کی اور بہروز کی پرورش پر قربان کر دی تھیں- اب جو اسے موقع ملا تو اس نے اپنی پوری زندگی کھول کر عبدالجبار کے سامنے رکھدی- مقصد صرف یہ ہی تھا کہ فیروزہ کے بارے میں اس کے جو دلی جذبات ہیں، ان کا اظہار دنیا کے سامنے نہیں تو کسی ایک کے سامنے ہی کردے- عبدالجبار اس کی دلی کیفیت سمجھ گیا تھا- چھٹی تک اس کی داستان سنتا رہا- ملیحہ کی نظر گھڑی پر پڑی تو پانچ بج گئے تھے- "سوری سر- میں جذباتی ہو گئی تھی- میں ساری دنیا کو بتانا چاہتی ہوں کہ میری آپی ماں سے بھی بڑھ کر ثابت ہوئی ہیں"- اس کی آنکھیں بھیگ گئیں- تھوڑی دیر بعد اس نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا- "سر میں آپ کی مشکور ہوں کہ آپ نے میری بات سنی"-

عبدالجبار کے چہرے پر سنجیدگی تھی- "میں آپ لوگوں کی جدوجہد سے بہت متاثر ہوا ہوں- خانگی زندگی میں پیچیدگیاں ہوں تو سب سے زیادہ اثر بچوں پر ہوتا ہے- بہرحال یہ خوش آئند بات ہے کہ آہستہ آہستہ تمام تکلیفوں کا خاتمہ ہو گیا ہے"- اس نے کہا اور کرسی سے اٹھ گیا-

ملیحہ نے ایک بات نوٹ کی تھی کہ اس واقعہ کے بعد عبدالجبار کے رویے میں کافی تبدیلی رونما ہو گئی تھی- شروع شروع میں ملیحہ نے اسے ایک کم گو انسان کے روپ میں دیکھا تھا، اب وہ کوشش کرتا تھا کہ اس سے باتیں کرے- اس نے پہلے کبھی اس کے کام کی زبان سے تعریف نہیں کی تھی- اب اکثر اس کے منہ سے اس کے کام کے سلسلے میں تعریفی کلمات ادا ہونے لگے تھے- اس نے ایک کام اور بھی کیا تھا، اس نے ملیحہ کو بتائے بغیر اس کے لیے آفس کی ٹرانسپورٹ کا بھی انتظام کردیا تھا- یہ بھی سنائی میں آرہا تھا کہ کمپنی کی طرف سے ملیحہ کو ہائرنگ پر گھر بھی ملنے والا ہے-

یہ تمام باتیں اسے مظہر نے بتائی تھیں- مظہر اسی کمپنی میں کمپیوٹر کے شعبے میں انجنیئر تھا اور کام کے سلسلے میں اس کی ملاقاتیں اکثر ملیحہ سے ہوتی رہتی تھیں- وہ اچھے گھر کا ایک وجیہہ نوجوان تھا- اس کی شرافت کی وجہ سے ملیحہ اس کو پسند کرتی تھی مگر وہ اس سے محبّت کرنے لگا تھا- وہ اکثر لنچ اکھٹے ہی کرتے تھے- ایک روز جب ملیحہ نے اسے ٹرانسپورٹ کی سہولت اور گھر کے بارے میں بتایا تو وہ بولا- "یہ سب عبدالجبار صاحب کی مہربانی سے ہوا ہے- انہوں نے نے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی میٹنگ میں ان چیزوں کی منظوری کروائی تھی، اس روز کمیٹی روم میں میری بھی ڈیوٹی تھی- ان سے ذرا محتاط ہو کر رہنا- ویسے بھی وہ ابھی تک غیر شادی شدہ ہیں"-

مظہر کی بات سن کر ملیحہ سنجیدہ ہو گئی- "کیوں- انہوں نے اب تک شادی کیوں نہیں کی؟"- اس نے سوال کیا-

"وہ یونیورسٹی میں تھے تو کسی لڑکی سے محبّت کرتے تھے- پڑھاکو لڑکے محبّت کے معاملے میں بہت حساس ہوتے ہیں اور کسی ایک پر ہی تکیہ کرلیتے ہیں- عبدالجبار صاحب بھی اس لڑکی کی محبّت میں بہت سیریس تھے- بدقسمتی سے اس وقت ان کی مالی حالت بہت پتلی تھی، اس لڑکی کی کہیں اور شادی ہوگئی- میرا یہ خیال ہے کہ اسی وجہ سے انہوں نے شادی نہ کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا اور اب تک اس فیصلے پر قائم ہیں"-

مظہر کی باتوں نے ملیحہ کو ایک فکر میں مبتلا کر دیا تھا- اس کو احساس ہونے لگا کہ عبدالجبار صاحب کی مہربانیاں اس کو رجھانے کو کوششیں ہیں- اس سلسلے میں اس نے فیروزہ سے بھی تذکرہ کیا تھا اور اسے یہ بتایا تھا کہ اسے عبدالجبار صاحب کی یہ عنایتیں اچھی نہیں لگیں- اس پر فیروزہ نے کوئی تبصرہ نہیں کیا تھا مگر سوچ میں پڑ گئی تھی- وہ ایک حقیقت پسند عورت تھی- عبدالجبار کی محبّت کی ناکامی کے غم کو وہ اچھی طرح سمجھتی تھی- مرد دوبارہ کسی لڑکی سے محبّت کرتا ہے تو اس کی وجوہات بھی پیدا کرلیتا ہے- ملیحہ کی شکل لاکھوں میں ایک تھی- فیروزہ نے سوچا کہ ہوسکتا ہے عبدالجبار جس لڑکی سے محبّت کرتا تھا، ملیحہ کی شکل یا اس کی کوئی عادت اس لڑکی سے ملتی جلتی ہو- وہ زیادہ فکرمند نہیں تھی، اس نے سوچ لیا تھا کہ وقت پڑنے پر سب دیکھ لیا جائے گا- ہاں کرنا اور نہ کرنا تو فیروزہ اور ملیحہ کے ہی ہاتھوں میں تھا-

پھر وہ وقت بھی آگیا- ایک روز چھٹی کے وقت عبدالجبار نے جھجکتے ہوۓ کہا- "مس ملیحہ- میں آپ کی آپی سے ملنا چاہ رہا تھا- "-

اس کی بات سن کر ملیحہ کو اپنے گلے میں کوئی چیز اٹکتی محسوس ہوئی- وہ کہنا چاہ رہی تھی "کیوں؟" مگر اس کے منہ سے نکلا "جی اچھا"-

رات آٹھ بجے عبدالجبار ان کے گھر پہنچ گیا- اس کے ہاتھ میں دو بڑے بڑے پیکٹ تھے- فیروزہ نے اس کا پرتپاک استقبال کیا- بہروز بھی گھر پر تھا- بہروز کے لیے وہ ویڈیو گیم کا کنسول لے کر آیا تھا، ملیحہ نے کبھی اسے بتایا تھا کہ وہ ویڈیو گیمز کا شوقین ہے- فیروزہ کو اس نے ایک دوسرا پیکٹ تھما دیا- "میں پہلی دفعہ آپ کے گھر آیا ہوں، والد صاحب کی نصیحت تھی کہ کسی کے گھر جاؤ تو کبھی خالی ہاتھ نہ جاؤ"- فیروزہ نے کسی قدر ہچکچاتے ہوۓ پیکٹ تھام لیا- پھر عبدالجبار ملیحہ سے بولا- "مس ملیحہ- آپ کے لیے بعد میں کچھ"- ملیحہ بےبسی سے مسکرا کر رہ گئی-

ملیحہ کچن میں جا کر کھانے کا انتظام کرنے لگی- فیروزہ نے ممنونیت بھرے لہجے میں کہا- "جبار صاحب، آپ کا بہت بہت شکریہ- ملیحہ مجھے آپ کے بارے میں بتاتی رہتی ہے- وہ گھر سے پہلی مرتبہ نکل کر کسی آفس میں گئی تھی، میں محسوس کرتی ہوں کہ وہ وہاں کے ماحول سے بہت خوش ہے- میں آپ کے حسن سلوک کا شکریہ ادا کرتی ہوں- الله آپ کو اس کا اجر دے گا"-

اس کی بات سن کر عبدالجبار کچھ نہ بولا- خاموشی سے مسکراتا رہا- بہروز کے کرنے کا کوئی کام نہیں تھا، وہ اپنے گیم کو سیٹ کرنے لگا- عبدالجبار اس کو دلچسپی سے دیکھ رہا تھا- تھوڑی دیر بعد وہ بھی اس کے پاس جا کر بیٹھ گیا- بہروز کو عبدالجبار بہت پسند آیا تھا اور اس پسند آنے کی وجہ یہ تھی کہ ان کا شوق مشترکہ تھا، عبدالجبار کو بھی ویڈیو گیموں کا شوق تھا- اس نے بہروز سے کہا تھا "بہروز بھائی- میں تو سوچتا ہوں کہ ننٹنڈو، سونی اور مائیکروسافٹ والوں نے ان گیموں کو نہ بنایا ہوتا تو زندگی کتنی بدمزہ ہوتی"-

بہروز نے کہا- "سب کی زندگی بدمزہ تھوڑی ہوتی، صرف ان لوگوں کی ہوتی جن کو گیموں کا شوق ہے"- اس کی بات سن کر عبدالجبار کے منہ سے بےاختیار قہقہہ نکل گیا- ہنسی کی آواز کچن میں بھی پہنچی تھی، ملیحہ نے سرگوشی میں کہا- "آپی مجھے کمپنی میں کام کرتے ہوۓ چھٹا مہینہ ہے، آج میں پہلی دفعہ ان کی ہنسی کی آواز سن رہی ہوں"- فیروزہ مسکرانے لگی- "یہ بھی تو دیکھو اپنا بہروز اس کے ساتھ کتنا خوش ہے"-

"اس کی صرف یہ ہی وجہ ہے کہ عبدالجبار صاحب کو بھی ویڈیو گیموں سے دلچسپی ہے"- ملیحہ نے کہا- تھوڑی دیر بعد کھانا لگ گیا- کھانے کے بعد ملیحہ قہوہ بنانے کے لیے چلی گئی- بہروز دور ٹی وی کے پاس بیٹھا گیم میں لگا ہوا تھا-

عبدالجبار نے اپنے اطراف میں ایک نظر ڈالی، پھر نسبتاً دھیری آواز میں بولا- "فیروزہ- میں اس دنیا میں اکیلا ہوں، اکیلا نہ ہوتا تو آج بزرگوں میں سے کوئی میرے ساتھ آتا- مجبوری ہے اس لیے یہ درخواست مجھے براہ راست آپ سے کرنا پڑ رہی ہے- "-

فیروزہ کا دل زور سے دھڑکا- اس نے فرش پر نظریں جما کر کہا- "ہاں- ہاں- کہیے کیا کہنا چاہتے ہیں- ہمارے بس میں ہوا تو ہم پوری کوشش کریں گے کہ آپ کے کسی کام آسکیں"-

"میں اپنے بارے میں تھوڑی سی تفصیل اور بتا دوں- پڑھا لکھا ہوں، گھر اور گاڑی میری اپنی ہے، گاؤں میں بہت سی آبائی زمین میرے نام ہے اور بینک میں لاکھوں روپے میرے اکاؤنٹ میں ہیں- مجھ میں کوئی اخلاقی برائی بھی نہیں ہے سواے اس کہ سگار اور کافی پیتا ہوں- آپ کی طرح میں نے بھی زندگی میں بہت جدوحہد کی ہے"- یہ کہہ کر وہ تھوڑی دیر کے لیے خاموش ہوگیا- فیروزہ اس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگی-

تھوڑی دیر بعد وہ پھر بولا- "میں نے آپ کو شادی کے لیے پروپوز کیا ہے، اچھی طرح سوچ لیں، دل کرے تو ابھی جواب دے دیں دل کرے تو بعد میں- یہ یقین بہرحال میں دلاتا ہوں کہ آپ کو ہمیشہ خوش رکھوں گا"-

(ختم شد)

 

Mukhtar Ahmed
About the Author: Mukhtar Ahmed Read More Articles by Mukhtar Ahmed: 70 Articles with 122365 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.