ہمیں پولیوفری پاکستان بنانا ہے

دنیا سے ایسی کئی بیماریوں کا خاتمہ کیا جا چکا ہے جن کی وجہ سے انسانوں کی بڑی تعداد ہلاک ہوجاتی تھی ان میں کئی طرح کے کینسر،پولیو،کالا بخار ،ٹی بی اور ایسی ہی دیگر بیماریاں شامل ہیں جبکہ پولیو واحد بیماری ہے جس سے مریض زندگی بھر کے لئے معزور ہوجاتا ہے پولیو کیسز افغانستان،پاکستان اور بھارت میں رپورٹ کئے جا رہے ہیں جبکہ پولیو کے خاتمے کے لئے اب تک کروڑوں ڈالر زخرچ کئے جا چکے ہیں اور بہت سے پولیو ورکرز اس مہم میں قتل بھی ہو گئے ہیں مگر اس کے با وجود وقفے وقفے سے پاکستان میں پولیو کے خاتمے کے لئے چلائی گئی مہمات کامیاب نہ ہو سکیں اورپولیو کے کیسز میں مسلسل اضافہ ہی ہو رہا ہے پولیو مہم چلانے کا مقصد یہ تھا کہ جس طرح دیگر ممالک سے پولیو کا خاتمہ کیا جا چکے ہے اسی طرح پاکستان میں کسی بھی بچے میں پولیو وائرس کی علامات نہ ہوں اور بچوں کو پولیو سے بچایا جا سکے چونکہ پولیو وائرس کی وجہ سے بچے زندگی بھر کے لئے معزور ہوجاتے ہیں پاکستان میں نا خواندگی کی وجہ سے پولیو مہم چلانے والوں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہاہے اکثر سوشل میڈیا پر پولیو ویکسین کے بارے میں منفی پروپیگنڈاکیا جاتا ہے جس کی وجہ سے والدین اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے سے ہچکچاتے ہیں چونکہ انہیں پولیو ویکسین کے قطرے پلانے پر تحفظات ہوتے ہیں پاکستان میں پولیو کیسزکی کئی وجوہات ہیں ان میں ایک وجہ پینے کے پانی میں سیوریج کے پانی کی آمزش ہے چونکہ مخدوش سیوریج لائنوں سے نکلنے والا پانی پینے کی پائپ لائنوں میں مکس ہو کر گھر وں میں آتا ہے جس کی وجہ سے بھی پولیو وائرس پھیلنے کے خدشات موجود ہیں اس کے علاوہ اکثرافغانستان سے آنے والے افراد کے بچوں میں بھی پولیو وائرس پایا جاتا ہے چونکہ وہاں بھی پولیو ویکسین کے بارے میں غلط پروپیگنڈاکیا گیا ہے جسکی وجہ سے وہاں پر بھی بچوں کو پولیو کے قطرے نہیں پلائے جا سکتے ہیں اس وقت پاکستان میں جتنی کوششیں پولیو کے خاتمے کے لئے حکومت کر رہی ہے اور بار بار پولیو کے خاتمے کے لئے جو مہمات چلائی جارہی ہیں پاکستان میں پولیو کیسز میں اتنا ہی اضافہ ہو تا جارہا ہے جبکہ حکومت ہر طرح سے عوام کے تحفظات ختم کرنے کی کوششیں بھی کر رہی ہے اور انہیں بتایا جا رہا ہے کہ یہ پولیو ویکسین صحت کے لئے نہایت محفوظ اور بے زرر ہے اس سے کسی بھی قسم کے نقصانات یا سائیٹ افیکٹ نہیں ہوتابلکہ نومولود اور بچوں کو جو حفاظتی ٹیکے لگائے جاتے ہیں وہ بھی مختلف قسم کی چھ بیماریوں سے انہیں بچاتے ہیں اسی طرح پولیو ویکسین بھی بچوں کو ہمیشہ کے لئے معزور ہونے سے بچانے کے لئے ہے مگر یہ بات مشاہدے میں آئی ہے کہ اکثر والدین پولیو ورکرز سے تعاون نہیں کرتے اور ان پولیو ورکرز کو مزاحمت کا سامنا بھی کرناپڑتا ہے مگر اس کے با وجود پولیو ورکرز جن میں اکثر خواتین ہوتی ہیں وہ جان کو خطر ے میں ڈال کر ملک کے دشوار گزار علاقوں ،کچی آباد یوں ،سخت سردیوں ،گرمی اور برف باری میں بھی پہاڑوں پر بسنے والے افراد کے بچوں کو پولیو کے قطرے پلاتے ہیں اوراپنے فرائض سے غافل نہیں ہوتے اور پاکستان کو پولیو سے پاک کرنے کے عزم کے ساتھ مصروف عمل رہتے ہیں ایسے بہادر نڈر پولیو ورکرز جنہوں نے اس عظیم کازکے لئے اپنی جانوں کا نظرانہ تک پیش کیا حکومت کو چاہئے کہ وہ انہیں ایوارڈزاوراسناد سے نوازنے کے ساتھ ان کے لواحقین کو خطیر رقم معاوضے کے طور پر اداکرے اوران کی خدمات کے صلے میں انہیں قومی ہیرو زکے طور پر ہر سطح پر سہرایاجائے چونکہ جن نا مسائد حالات میں یہ پولیو ورکرزانتہائی کم معاوضے پر اپنی جان کی پرواہ کئے بغیر اس نیشنل کاز کے لئے خدمات سرانجام دے رہے ہیں اس کے لئے نہ صرف ان کا معاوضہ کئی گنازیادہ ہونا چاہئے بلکہ انہیں دیگر سہولیات بھی فراہم کی جانی چاہئے اورحکومت کو علما ء و مشائع پر مشتمل ایک ایسی کمیٹی بھی تشکیل دینی چاہئے جو پولیو ویکسین سے متعلق منفی پروپیگنڈاکو مسترد کر تے ہوئے عوام میں ایسا شعور بیدار کر ے کہ وہ اپنی آنے والی نسلوں کو پولیو سے بچاؤ کے لئے ازخود ہسپتالوں اور ہیلتھ سینٹروں سے پولیو ویکسین پلوائیں تا کہ پولیو فری پاکستان بنایا جا سکے چونکہ صحت مند پاکستان ہی ترقی کرسکتا ہے اور صحت مند رہنے کے لئے ہمیں اپنے بچوں کو ہر قسم کی بیماریوں سے تحفظ دینا ہوگا
 

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Sonia Ali
About the Author: Sonia Ali Read More Articles by Sonia Ali: 34 Articles with 32696 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.