موجودہ دور فتنوں کا دور ہے۔ اس
دور میں دینِ اسلام ،امت مسلمہ اور خود وطنِ عزیز پاکستان گو ناگو ں فتنوں
کے نر غے اور سازشوں کے بھنور میں ہے ۔ہم میں سے ہر ایک کا فرض بنتا ہے کہ
دینِ اسلام کو ہر قسم کے فتنوں سے بچانے کی سعی کی جائے ،امت مسلمہ کو
خبردار اور بیدار رکھنے کا عمل مسلسل جاری رکھا جائے اور باالخصوص وطنِ
عزیز پاکستان کو انتشار و خلفشار اور عدمِ استحکام سے بچانے کے لئے مسلسل
”لوگوں! جاگتے رہنا “کی صدائیں لگائی جاتی ر ہیں ۔ الحمد للہ اس سلسلے میں
مختلف محاذوں پر ،مختلف انداز سے محنت وکوشش جاری ہے بالخصوص عالمی مجلس
تحفظ ختم نبوت اور دیگر برادر جماعتیں فتنہ قادیانیت کے حوالے سے شعور
اجاگر کر نے اور عوام الناس کو باخبر رکھنے کے لیے مسلسل سر گر م ِ عمل ہیں۔
فتنہ قادیانیت ایک ایسا فتنہ ہے جو نہ صرف یہ کہ دینِ اسلام بلکہ امت مسلمہ
اور بالخصوص وطن عزیز کیلئے انتہائی خطرناک اور نقصان دہ ہے بالخصوص موجودہ
دور میں جس طرح قادیانی گروہ مختلف بہروپ اختیا ر کر کے اور شکلیں بدل بدل
کر عقیدہ ختم نبوت ،ناموس رسالت ،دینِ اسلام پر حملہ آور ہو رہا ہے اور
مسلمانوں کے اسلامی تشخص کو مٹا دینے اور پاکستان کو اکھنڈ بھارت میں تبدیل
کر نے کے لیے جس قسم کی تگ ودَو میں مصروف عمل ہے ایسے حالات میں اس فتنے
سے کچھ زیادہ ہی خبر دار رہنے کی ضرورت ہے اسی ضرورت کا ادراک کرتے ہوئے
ہوئے عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے زیر اہتمام ملک کے مختلف علاقوں میں عظیم
الشان ختم نبوت کا نفرنسوں کا انعقاد کیا جاتا ہے ۔ان عظیم الشان اجتماعات
اور دیگر فورمز پر ہم عوام الناس ،اربابِ اختیار ،قومی سلامتی کے اداروں ،عالمی
برادری ،سیاستدانوں اور خو د قادیانی گروہ کے نام جو قابلِ غور پیغام دینے
کی کوشش کرتے ہیں وہ تحریراً بھی پیش خدمت ہے تاکہ ان امور پر ٹھنڈے دل
ودماغ سے غور کیا جا سکے ۔
٭....سب سے پہلی بات قادیانیوں سے متعلق ہے۔ قادیانیوں میں دو طرح کے طبقات
ہیں ۔ایک طبقہ تو وہ ہے جو مفادات کا اسیر ہے اور اغراض کی زنجیروں میں
جکڑا ہوا ہے ۔یہ طبقہ حق وباطل کی تمیز کیے بغیر محض اپنی ضروریات ،مفادات
،خاندانی پس ِ منظر اور اس سے ملے جلے دیگر عوامل کی بنا پر قادیانیت کے
علاوہ کسی اور پہلو پر غو ر کر نے کے لئے تیا ر ہی نہیں۔ اس گروہ کو بھی
دینِ اسلام کی دعوت دینا ہمارا فرض ہے لیکن تجربہ اس بات پر شاہد ہے کہ
ایسے لوگوں کے قبولِ حق کے امکانات بہت کم ہوتے ہیں اس لیے ان کے لیے دعا
ہی کی جاسکتی ہے تاہم قادیانیوں میں بہت سے ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو سا
دہ لوح ہونے کے باعث قادیانیوں کے دام ہم رنگ زمیں میں آجاتے ہیں ۔ایسے لوگ
شاطر قادیانیوں کے جھانسے میں آکر غلط راستے کا انتخاب کر تے ہیں لیکن اگر
ان پر محنت کی جائے اور انہیں دعوت اسلام دی جائے تو وہ یقیناً حق قبول
کرنے کے لیے آمادہ ہوجاتے ہیں اس لیے ہم ہر فورم پر خود بھی قادیانیوں کو
دعوت اسلام پیش کرتے ہیں اور دیگر علماء کرام اور بالخصوص تحفظ ختم نبوت
محاذ پر جد و جہد کرنے والے حضرات سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ ایسے لوگوں کو
ضرور دعوتِ اسلام دیں اور ان کے قبول حق کے لئے مسلسل محنت جاری رکھیں
۔ایسی بہت سے قادیانیوں کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں جنہیں اللہ رب العزت نے
قبول حق کی توفیق عطا فر مائی ہے ۔ اس لیے اس معاملے میں ناامید اور مایوس
نہیں ہونا چاہیے ۔
٭....دوسری بات یہ ہے کہ اس وقت قادیانیوں کے حوالے سے یہ بات بہت شدومد کے
ساتھ اٹھائی جا رہی ہے کہ قادیانیوں کے ساتھ ناانصافی ہوتی ہے اور انہیں
اقلیتوں کے لیے مختص حقوق حاصل نہیں اس سلسلے میں عرض ہے کہ قادیانیوں اور
دیگر اقلیتوں میں ایک بنیادی فرق ہے اور وہ یہ کہ قادیانی خود کو اقلیت
ماننے کیلئے تیار ہی نہیں۔پہلی بات تو یہ کہ قادیانیوں کو پاکستان میں نہ
صرف یہ اقلیتوں والے مکمل حقوق حاصل ہیں بلکہ وہ مسلمان اکثریت کے حقوق تلف
کر کے کلیدی اسامیوں سمیت دیگر مفادات سمیٹنے میں لگے ہوئے ہیں اور اگر
تھوڑی دیر کے لیے یہ مفروضہ تسلیم بھی کر لیا جائے کہ واقعتاً قادیانیوں کو
اقلیتوں والے حقوق حاصل نہیں تب بھی اس معاملے کے ذمہ دار خو د قادیا نی
ہیں انہیں چاہیے کہ وہ پہلے خود کو اقلیت تسلیم کریں اس کے بعد وہ کسی بھی
قسم کا دعویٰ کر نے میں حق بجانب ہوں گے ۔
٭....تیسری بات یہ ہے کہ قادیانیوں کی آئینی اور قانونی حیثیت کا تعین خود
آئین ِپاکستا ن میں کردیا گیا ہے اور پاکستان کی منتخب پارلیمنٹ نے طویل
غورو خوض اور بحث مباحثے کے بعد قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دیا ہے
اور پھر خود ریاست کی طرف سے امتناع قادیانیت آرڈیننس جاری کیا گیا اس لئے
اب ریاست اور ریاستی اداروں کو چاہئے کہ وہ قادیانیوں کو ملکی آئین اور
قانون کا پابند بنائیں اور اپنی علیحدہ شناخت کا اظہار کر نے پر مجبور کریں
، ان کی ارتدادی اور ملک دشمن سرگرمیوں کا نوٹس لیں ۔قادیانیوں کے معاملے
کو صرف تحفظ ختم نبوت محاذ پر کام کر نے والی جماعتوں کے سپرد کر کے دیگر
تمام جماعتوں ،شخصیات ،طبقات اور خود ریاست اور ریاستی اداروں کا خاموش
تماشائی بن جانا انتہائی افسوسنا ک بلکہ مضحکہ خیز ہے ۔آئین ِپاکستان کی رو
سے اس معاملے کی سنگینی اور حساسیت کو جب تک حکومت اور ریاستی ادارے نہیں
محسوس کریں گے اس وقت تک یہ مسئلہ حل نہیں ہو پائے گا ۔
٭....چوتھا قابل غور پہلو یہ ہے کہ قادیانیوں کا ماضی اور ان کی حالیہ
سرگرمیاں ،ان کے بیانات ، خیالات اور لٹریچر سے یہ ثابت ہو تا ہے کہ انہوں
نے کبھی بھی پاکستان کو صدق ِدل سے قبول نہیں کیا۔ مرز اغلام احمد قادیانی
کی جنم بھومی ”قادیان“ کو ہندوستان کا حصہ بنائے رکھنے کے لیے انہوں نے ضلع
گورد اسپور کو بھی ہندوﺅں کی جھولی میں ڈال دیا جس کے نتیجے میں مسئلہ
کشمیر نے جنم لیا اور کشمیری مسلمان بر سہا برس سے قادیانیوں کی طرف سے
لگائے گئے زخم سہنے پر مجبور ہیں۔قادیانی لیڈروں نے قیام پاکستان کے وقت
یہاں تک کہہ دیا تھا کہ یہ عارضی تقسیم ہے اور ایک وقت آئے گا جب پاکستان
اور ہند وستان دونوں دوبارہ ایک ہوجائیں گے ۔یہی وجہ ہے کہ اکھنڈ بھارت
یعنی گریٹر ہندوستان نہ صرف یہ کہ قادیانیوں کا دیرنیہ خواب ہے بلکہ ان کا
مذہبی عقیدہ بھی ہے ۔ اسی عقیدے کی بنا پر وہ آج بھی پاکستان میں اپنے مردے
امانتاً دفن کر تے ہیں اور ان کی تمام سیاسی جدوجہد پاکستانی مفاد میں نہیں
بلکہ ہندوستانی مفاد کے محور میں گردش کرتی ہے ۔اس پس منظر کو مد نظر رکھتے
ہوئے اگر موجودہ دور میں قادیانیوں کے بیانات، تحریروں، تقریروں اور گفتگو
کا جائزہ لیا جائے اور بالخصوص ان کی سرگرمیوں کی مانیٹرنگ کی جائے تو
اندازہ ہوتا ہے کہ وہ مسلسل ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہیں ،حکیم الامت
علامہ اقبال ؒ نے بالکل بجا فرمایا تھا کہ ”قادیانی اسلام اور ملک دونو ں
کے غدار ہیں“اس لیے قومی سلامتی کے اداروں کو چاہیے کہ اس گروہ پر بطور خاص
نظر رکھیں اور ان کے شرور وفتن سے ملک وملت کو محفوظ رکھنے کی فکر کریں ۔
٭....پانچویں بات عالمی برادری سے متعلق ہے۔ عالمی برادری کو اس وقت ہم دو
حصوں میں تقسیم کر سکتے ہیں ایک تو عمومی عالمی برادری ہے اور دوسری
استعماری قوتیں ہیں جہاں تک استعماری قوتوں کا تعلق ہے تو وہ سوچے سمجھے
منصوبے کے تحت قادیانیوں کو سر آنکھوں پر بٹھاتی اوران کی بھرپور مالی
،معاشی،عسکری اور اخلاقی سر پرستی کرتی ہیں بلکہ مرزا غلام احمد قادیانی کے
اعتراف کے مطابق قادیانی گروہ ہے ہی انگریزوں کا خود کاشتہ پو دا بلکہ اگر
یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ یہ استعماری قوتوں کی طرف سے امت مسلمہ کے
سینے میں گاڑھا گیا وہ دودھاری خنجر ہے جس نے مسلمانو ں کو لہو لہان کر
رکھا ہے۔ اس لئے ان استعماری قو توں سے تو بہر حال کسی منصف مزاجی کی توقع
نہیں کی جا سکتی تاہم ان کے علاوہ جو دیگر عالمی برادری ہے اسے چاہیے کہ وہ
قادیانیوں کے ساتھ مسلمانوں کی حیثیت سے معاملات و معاہدات نہ کرے بلکہ امت
مسلمہ کے اجماع ،اسلامی ممالک کے قانون ساز اداروں ،عدالتوں اور خود بعض
غیر مسلم عدالتوں کے فیصلوں کی روشنی میں انہیں غیر مسلم اقلیت ڈکلیئر کر
نے کے بعد ان کے ساتھ غیر مسلموں کی حیثیت سے معاملات کیے جائیں۔
٭.... چھٹی بات یہ ہے کہ اس وقت دنیا میں حقوق کا بہت ڈھنڈورا پیٹا جارہا
ہے لیکن عجیب بات یہ ہے کہ قادیانیوں کی طرف سے مسلسل مسلمانوں کے حقوق غصب
کر نے پر نہ صرف یہ کہ ہر کسی کے لبوں پر مہر سکوت ثبت ہے بلکہ الٹا
قادیانی پر و پیگنڈے کے بل بوتے پر دنیا کو یہ باور کروانے میں کامیا ب ہو
گئے ہیں کہ وہ مظلوم ہیں حالانکہ درحقیقت قادیانی وہ ظالم ہیں جو مسلمانوں
کا مذہبی تشخص مجروح کر نے،اسلا م اور کفر کے مابین امتیاز ی لکیروں کو
مٹانے اور دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے میں مصروف ہیں۔ ایک ایسے وقت
میں جب کسی چھوٹے سے چھوٹے برانڈ کیلئے بھی کاپی رائٹس موجود ہیں ایسے میں
دین اسلام جیسے آفاقی مذہب اور پوری امت مسلمہ کے ساتھ دجل وفریب اور جعل
سازی کا ارتکاب کر نے والے قادیانیوں کے معاملے میں دوہرا معیار انتہائی
افسوسناک ہے دنیا کو چاہیے کہ قادیانیوں کے ہاتھوں مسلمانوں کی اس مسلسل حق
تلفی کا نوٹس لے اور قادیانی دھوکے اور پروپیگنڈے کا شکار نہ ہو ۔
٭....ساتویں بات یہ ہے کہ قادیانی اور لبرل انتہا پسند مسلسل یہ واویلا کر
تے چلے آرہے ہیں کہ ۴۷۹۱ءمیں پاکستانی پارلیمنٹ کا فیصلہ اور اسی کی دہائی
میں جاری کیا جانے والا امتناعِ قادیانیت آرڈیننس قادیانیوں کی حق تلفی اور
ان کے ساتھ زیادتی کے مترادف ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ قرآن و سنت اور شریعت
کی رو سے قادیانیوں کے بارے میں حقیقی فیصلہ ان دونوں مواقع پر نہیں ہو
پایا بلکہ مجبوری تحت ایک عبوری فیصلہ تسلیم کیا گیا ۔ اصل میں تو یہ فیصلہ
ہونا چاہئے تھا کہ ارتداد کی شرعی سزا یعنی سزائے موت نافذ کی جاتی لیکن
ایسا نہ ہو سکا اور اس کے نتیجے میں آج بھی قادیانیوں کی ارتدادی سر گر
میاں جاری ہیں۔وہ کسی کو شادی کا جھانسہ دے کر ،کسی کو بیرون ملک بھجوانے
کا لالچ دے کر ،کسی کو مفادات کے سبز باغ دکھا کر ارتداد کی اندھی گہری
کھائیوں میں گرا دیتے ہیں اس لیے اب ضرورت اس اَمر کی ہے کہ ۳۵۹۱ءاور۴۷۹۱ء
کی طرح ارتداد کی شرعی سزا کے لیے بھی ایک باقاعدہ تحریک چلائی جائے ۔ میرے
خیال میں پاکستان پیپلز پارٹی کا دورِ اقتدار اس حوالے موزوں رہے گا کیونکہ
اسی پارٹی کے دو رِ اقتدار میں قادیانیوں کی مذہبی اور آئینی حیثیت کا تعین
کیا گیا ۔اب اس پا رٹی سے وابستہ حضرات اگر اپنے شہید قائد کے نقش قدم پر
چلتے ہوئے ارتداد کی شرعی سزا نافذ کردیں تو بہت بڑ ے فتنے اور فساد کا باب
ہمیشہ کے لیے بند ہوجائے گا ۔
٭....آٹھویں بات ان سیاستدانوں سے متعلق ہے جو قادیانیت اور ختم نبوت کے
اہم ترین معاملے میں بھی گومگو کی کیفیت میں ہیں بلکہ بعض سیاسی جماعتیں تو
بہت کھل کر قادیانیوں کی طرف داری کا مظاہرہ کرتی ہیں حالیہ دنوں میں ایک
لسانی سیاسی جماعت نے پنجاب میں آمد کے لیے قادیانی بیساکھیا ں استعمال
کرنے کی کوشش کی جو انتہائی افسوسناک امر ہے ۔ یہ سیاست دان قادیانیت کے
نازک ترین معاملے کو بھی سیاست کی نظر سے دیکھتے ہیں ،ان میں سے بعض لوگ
کبھی قادیانیوں کو اپنا بھا ئی قرار دیتے ہیں اور کبھی نامو س رسالت ﷺ جیسے
اہم ترین معاملے سے محض امریکی ناراضگی کے ڈر سے نہ صرف کنارہ کشی اختیار
کر لیتے ہیں بلکہ اس معاملے سے میں بالکل ہی چپ سادھ لیتے ہیں انہیں چاہئے
کہ وہ اس معاملے کی سنگینی کا بھی ادراک کریں اور اس کی نزاکتوں کا بھی ،وہ
قادیانیوں او ر دوسرے کافروں کے درمیان فرق کو سمجھیں اور اسلام اور ملک کے
غداروں کو اپنا بھائی بنانے اور ان کی غیر ضروری حمایت وکالت سے گریز کریں
۔
٭....نویں بات عوام الناس سے متعلق ہے ۔تمام غیور اہل ایمان کو چاہیے کہ وہ
عقیدہ ختم نبوت کی اہمیت سے خو د بھی آگاہ رہیں اور دوسروں میں بھی اس
حوالے سے شعور اجا گر کریں بالخصوص نئی نسل کو اس اہم ترین معاملے کی
باریکیوں سے روشناس کروائیں ۔قادیانی سازشوں اور شرارتوں سے خود بھی خبردار
رہیں اور دوسروں کو بھی بیدار رکھیں اور عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ اور
قادیانیت کے تعاقب کو اپنا دینی ،ایمانی اور ملی فریضہ سمجھ کر سر انجام
دیں۔
٭....دسویں اور آخری بات ....صدر پاکستان آصف علی زرداری جنہوں نے
اٹھارہویں ترمیم کے موقع پر اپنے بہت سے اختیارات وزیر اعظم کو منتقل کر
دئے انہیں چاہئے کہ گستاخ رسول کی سزا کی معافی کا جو اختیار ان کے پاس ہے
قرآن وسنت کی روشنی میں وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حق
میں رضا کارانہ طور پر وہ اس اختیار سے دستبرداری کا اعلان کر دیں۔اگر وہ
اس کی ہمت کر لیتے ہیں تو انشا اللہ وہ دنیا اور آخرت میں کامیابیوں اور
کامرانیوں سے ہمکنار ہو جائیں گے ۔ |