|
پاکستان میں جب چند سال قبل موبائل کمپنیوں نے تھری جی اور فور جی نیٹ ورکس
لانچ کیے تو صارفین کے لیے سب سے خوش آئند بات یہ تھی کہ اب وہ کہیں بھی
اپنے موبائل فون کے ذریعے پہلے سے کہیں تیز انٹرنیٹ حاصل کر سکتے تھے۔
اب پاکستانی ٹیلی کام کمپنیوں جاز اور زونگ نے حال ہی میں فائیو جی نیٹ
ورکس کی ٹیسٹنگ شروع کی ہے اور اس کا چرچہ پاکستانی ٹوئٹر پر ہر جگہ جاری
ہے۔
ذیل میں وہ موبائل نیٹ ورکس کی اس پانچویں جنریشن کے بارے میں وہ پانچ
باتیں دی جا رہی ہیں جنھیں جاننا آپ کے لیے ضروری ہے۔
1: یہ ’جی‘ کیا ہے؟
جب بات ہو موبائل کمیونیکیشن کی، تو ٹیکنالوجی میں آنے والی بڑی اور بنیادی
تبدیلیوں کو سائنسدان جنریشن یا جی سے بیان کرتے ہیں۔
1980 کی دہائی میں جب موبائل فون اولین طور پر متعارف کروائے گئے تو وہ
ریڈیائی لہروں کا استعمال کرتے تھے نہ کہ ڈیجیٹل۔ اس کی وجہ سے آواز میں
شور آنا اور غیر متعلقہ افراد کے لیے فون پر ہونے والی گفتگو سُن پانا آسان
ہوتا تھا۔ اس سسٹم کو فرسٹ جنریشن یا ون جی نیٹ ورکس کہا جاتا تھا۔
1990 کے اوائل میں سیکنڈ جنریشن یا ٹو جی موبائل سسٹمز نے ان کی جگہ لینی
شروع کی اور ان کی بنیاد گلوبل سسٹم فار موبائلز (جی ایس ایم) کے تکنیکی
معیارات پر رکھی گئی۔
ٹو جی نیٹ ورکس ڈیجیٹل تھے اور ان پر منتقل ہونے والے نیٹ ورکس نے خود کو
جی ایس ایم کہلوانا شروع کیا۔ اب آپ کو یاد آیا کہ پاکستان میں کسی زمانے
میں موبائل کمپنیوں کے اشتہارات میں لفظ ’جی ایس ایم‘ پر اتنا زور کیوں دیا
جاتا تھا؟
ان کے بعد 2.5 جی میں جی پی آر ایس ٹیکنالوجی کے ذریعے موبائل فون سے
انٹرنیٹ تک رسائی حاصل ہونی شروع ہوئی، 2.75 جی نیٹ ورکس میں انٹرنیٹ کی
سپیڈ بڑھائی گئی اور اسے ایج کا نام دیا گیا۔
اب بھی آپ غور کریں تو کبھی کبھی سگنلز کی کمی کی وجہ سے آپ کے موبائل
انٹرنیٹ پر E لکھا آتا ہے۔ ایک وقت تھا جب ہماری لائف لائن یہی E انٹرنیٹ
ہوتا تھا اور آج ہم اسے کچھ خاص اہمیت نہیں دیتے۔
تھری جی ٹیکنالوجی کے آنے سے موبائل انٹرنیٹ کی رفتار بھی بہتر ہوئی اور
سکیورٹی بھی بہتر بنائی گئی۔ پاکستان میں اس کے لائسنس 2014 میں نیلام کیے
گئے اور پاکستانی موبائل صارفین کے لیے انٹرنیٹ تک دور دراز علاقوں میں بھی
رسائی ممکن ہوئی۔
اس کے ساتھ ہی ایک فور جی لائسنس بھی نیلام کیا گیا جسے پاکستان میں زونگ
نے خریدا۔ فور جی تکنیکی طور پر بھی تھری جی سے کافی مختلف ہے اور اس کا
نتیجہ صارفین کے لیے زیادہ تر صرف انٹرنیٹ کی تیز تر سپیڈ کی صورت میں ہی
نظر آتا ہے۔
|
|
2: فائیو جی کے آنے سے دنیا کیسے تبدیل
ہوگی؟
اب تک آپ نے یہ اندازہ لگا ہی لیا ہوگا کہ فائیو جی نیٹ ورکس کے آنے سے آپ
کے لیے اور بھی تیز رفتار انٹرنیٹ تک رسائی ممکن ہونے والی ہے اور ایسا
ہونے سے مندرجہ ذیل چیزوں میں بہتری آئے گی،
ہائی ڈیفینیشن یعنی بہترین کوالٹی کی وائس اور ویڈیو کالز کر پانا
آن لائن ویڈیوز کو بھی بفرنگ کے وقفوں کے بغیر اعلیٰ کوالٹی میں دیکھ پانا
آن لائن گیمز کھیلتے وقت سست انٹرنیٹ کی وجہ سے دوسروں سے پیچھے نہ رہ جانا
بین الاقوامی تنظیم انسٹیٹیوٹ آف الیکٹریکل اینڈ الیکٹرانکس انجینیئرز (آئی
ٹرپل ای) کے سینئر ممبر خالد مختار کہتے ہیں کہ پانچویں جنریشن تین بڑی
تبدیلیاں لائے گی۔
ایک تو اس سے انٹرنیٹ کی سپیڈ بہت تیز ہوجائے گی جس سے آن لائن ویڈیو
ایڈیٹنگ اور مشترکہ طور پر کام کرنا آسان ہوجائے گا۔
دوسرا ان کے مطابق لیٹینسی یعنی آپ کی انٹرنیٹ ڈیوائس سے منزل تک پیغام
پہنچنے میں لگنے والا وقت فائیو جی نیٹ ورکس کی بدولت بہت کم رہ جائے گا،
جس کی وجہ سے سرجنز دور دراز علاقوں میں بیٹھ کر ایسے ہی سرجری کر سکیں گے
جیسے وہ وہاں خود موجود ہوں، ورچوئل ریئلٹی کے ذریعے سپورٹس کھیلی جا سکیں
گی جبکہ اسی طرح دیگر کئی کام کیے جا سکیں گے۔
اس کے علاوہ ان کا کہنا تھا کہ مشینوں کے مشینوں سے کنیکشن میں بہتری آئے
گی جس سے انٹرنیٹ آف تھنگز (آئی او ٹی) کے میدان میں بہت زیادہ ترقی متوقع
ہے۔
ٹیلی کام ماہر اور فائیو جی ٹیکنالوجی کے محقق ڈاکٹر فیضان قمر کہتے ہیں کہ
یہ ٹیکنالوجی انٹرنیٹ آف تھنگز یعنی ہمارے آس پاس کی چیزوں کے ایک دوسرے سے
رابطے بہتر کر سکے گی جس سے ہماری گاڑیاں اپنے اندر موجود مسائل خود رپورٹ
کر سکیں گی، ڈاکٹر اپنے پاس موجود سینسرز سے مریضوں کی زیادہ بہتر تشخیص کر
سکیں گے۔
ڈاکٹر فیضان قمر ملائیشیا کی یونیورسٹی آف ملایا سے بطور محقق وابستہ ہیں
اور فائیو جی کمیونیکیشن ان کی تحقیق کا موضوع ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ فائیو جی کے آنے سے یہ توقع کی جا رہی ہے کہ روبوٹکس،
انٹرنیٹ آف تھنگز، ٹرانسپورٹ، طب اور انسان کے لیے خطرناک شعبوں میں مشینوں
کا استعمال کیا جا سکے گا۔
|
|
3: فائیو جی سے پاکستان کیسے فائدہ اٹھا
سکتا ہے؟
ڈاکٹر فیضان کہتے ہیں کہ فائیو جی کے بارے میں یہ کہنا کہ یہ صارفین کے
استعمال کے لیے بالکل تیار ہے، درست نہیں ہے کیونکہ پوری دنیا میں اس حوالے
سے ابھی بھی آزمائشیں جاری ہیں۔
’ایک عام صارف کے لیے سب سے بنیادی تبدیلی یہی ہوگی کہ ان کے لیے انٹرنیٹ
کی سپیڈ پہلے سے کہیں زیادہ تیز ہوگی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی نئی ٹیکنالوجی کے آنے سے یہ دیکھا جاتا ہے کہ اس
سے دنیا، معاشرے اور اقتصادیات پر کیا فرق پڑ رہا ہے۔ ’اگر مجموعی اثر کو
دیکھیں تو بالآخر معاشرے پر اس کا اچھا اثر پڑے گا، اس نسل کو ابھی نہیں تو
10 سال بعد یا 20 سال بعد ضرور فائدہ ہوگا۔‘
ٹیلی کام آلات کی تیار کنندہ چینی کمپنی زیڈ ٹی ای کے پاکستان میں ٹیکنیکل
مارکیٹنگ ڈائریکٹر کامران شاہد سمجھتے ہیں کہ حکومت کو ایسی پالیسیاں بنانی
ہوں گی جن کے ذریعے کاروباری برادری فائیو جی کو استعمال کرنے پر قائل ہو
سکے۔
کامران کہتے ہیں کہ اسی وجہ سے اس کا سب سے زیادہ استعمال چین، جاپان اور
امریکہ میں ملے گا اور یہ تینوں ممالک تیزی سے فائیو جی لانچ کرتے جا رہے
ہیں۔
فائیو جی کے روبوٹکس، مصنوعی ذہانت اور دیگر استعمال پر بات کرتے ہوئے
انھوں نے کہا کہ پاکستان میں یہ سب اتنا قریب تب تک نہیں ہوگا جب تک کہ
حکومت ایسی پالیسیاں نہیں لاتی جن سے ٹیکسٹائل، آٹوموبائل، الیکٹرسٹی
کمپنیاں اپنے کام کے لیے فائیو جی کا استعمال کریں۔‘
’فائیو جی کے ذریعے آپ اپنے آبی وسائل کو بغیر کسی انسانی مداخلت کے مانیٹر
کر سکتے ہیں لیکن یہ کسی شخص یا کسی موبائل آپریٹر کے کرنے کا کام نہیں
بلکہ اس میں حکومت کو آگے آنا ہوگا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ فائیو جی آپ کو بہت کچھ کرنے کے قابل بنا سکتا ہے لیکن
یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم اس سے کیسا فائدہ اٹھاتے ہیں۔
4: فائیو جی کے نفاذ میں ابھی کیا چیلنجز
موجود ہیں؟
کامران شاہد کہتے ہیں کہ پاکستان میں ایک مرتبہ حکومت لائسنس نیلام کرے، تو
نیٹ ورک کی حد تک تو اسے نافذ کرنا زیادہ مشکل نہیں۔ ’تکنیکی بنیادوں پر تو
اسے آسانی سے نافذ کیا جا سکتا ہے اور اگر پی ٹی اے اجازت دے تو یہ عملی
طور پر ممکن ہے کہ پاکستان میں ایک سال کے اندر اندر لانچ کیا جا سکے۔‘
لیکن وہ کہتے ہیں کہ ’جو ممالک ایسے ہیں جہاں سرمایہ کاری پر منافع (ریٹرن
اوور انویسٹمنٹ) زیادہ ہو، وہ اس ارتقا پذیر ٹیکنالوجی کو نافذ کرنے کا رسک
تو لیں گے، لیکن پاکستان میں اس میں ابھی وقت لگے گا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ایک مرتبہ ریگولیٹر (پی ٹی اے) فریکوئنسی مختص کردے، تو
بھی 2021 کے اختتام یا 2022 تک ہی اس کی کمرشل لانچ ہوسکے گی کیونکہ ایک
نیٹ ورک کو لانچ کرنے میں کئی ماہ لگتے ہیں۔
|
|
واضح رہے کہ حکومتِ پاکستان نے تھری جی اور فور جی لائسنس کی بھی نیلامی کی
تھی جس کے ذریعے حکومت کو کئی ملین ڈالر کا ریوینیو حاصل ہوا تھا۔
کامران کہتے ہیں کہ موبائل آپریٹرز کے لیے یہ بھی اخراجات ہیں جن پر انھیں
کام کرنا ہے۔ اس کے علاوہ ان کے مطابق فائیو جی سے ہم آہنگ ڈیوائسز بھی
ابھی پاکستان میں اتنی عام نہیں جس کی وجہ سے اسے مکمل طور پر عمل میں آنے
کے لیے کئی سال درکار ہوں گے۔
5: لیکن کیا مجھے اس کے لیے نیا ہینڈ سیٹ
چاہیے ہوگا؟
چونکہ فائیو جی نیٹ ورکس میں سگنلز کی فریکویئنسی موجودہ نیٹ ورکس سے مختلف
ہوگی اس لیے انھیں استعمال کرنے کے لیے ہینڈ سیٹس بھی مختلف چاہیے ہوں گے
جس طرح پرانے ہینڈ سیٹس کو فور جی کے لیے استعمال نہیں کیا جا سکتا تھا۔
ڈاکٹر فیضان کہتے ہیں کہ اس حوالے سے موبائل فون کمپنیاں اپنے فائیو جی سے
ہم آہنگ سیٹس تیار کر رہی ہیں لیکن چونکہ فور جی کے موجودہ سیٹ فائیو جی پر
کام نہیں کریں گے، اور پاکستان میں ابھی بھی زیادہ تر آبادی سمارٹ فون
استعمال نہیں کرتی اس لیے عام صارفین کی فائیو جی پر منتقلی میں کئی سال
لگیں گے۔
اس کے علاوہ ان کا کہنا تھا کہ سمارٹ فونز کی بیٹریوں پر تحقیق جاری ہے کہ
سگنلز کو بھیجنے اور وصول کرنے میں کم سے کم بیٹری کا استعمال ہو کیونکہ
فائیو جی کی ہائی فریکوئنسی زیادہ توانائی خرچ کرتی ہے۔
’ایسی ٹیسٹنگ ہو رہی ہے کہ سگنلز کو ایسے بھیجا جائے جس میں کم سے کم
تونائی خرچ ہو تاکہ بیٹری کم استعمال ہو۔ فی الوقت موبائل فونز کی بیٹریاں
صرف ایک سے ڈیڑھ دن چلتی ہیں لیکن اسے زیادہ عرصہ چلانے کے لیے تحقیق جاری
ہے۔‘
|