|
جولائی 1965 میں مرینر 4 نامی خلائی جہاز نے مریخ کا پہلا کامیاب دورہ کیا۔
اس دورے کا مقصد مریخ کے قریب سے اڑان بھر کر اس کے بارے میں مفید معلومات
اکٹھی کرنا تھا۔
زمین کے ہمسائے سیارے مریخ پر اس کے بعد تسلسل سے خلائی مشنز بھیجے گئے جو
اس کے بارے میں دلچسپ معلومات فراہم کرتے رہے۔
لیکن یہ سب بھی اس ایک سوال کا جواب نہیں دے سکے جس کے ہم سب منتظر ہیں:
کیا مریخ پر زندگی موجود ہے؟
چلیے آپ کو ایک ایسی ٹیکنالوجی سے متعارف کرواتے ہیں جو ممکنہ طور پر ہمیں
اس سوال کا جواب دے سکتی ہے۔
یہ اینالیٹیکل لیبارٹری ڈرائر یا اے ایل ڈی نامی ایک جدید ڈبہ ہے۔ اس ڈبے
میں تین قسم کے آلات موجود ہوتے ہیں جن کے ذریعے پتھر کے نمونوں میں
حیاتیات کے کیمیائی فنگر پرنٹس ڈھونڈے جا سکتے ہیں۔
|
|
ایگزومارس یا ‘روزالنڈ فرینکلن’ نامی یہ چھ پہیوں والا روبوٹ 2021 میں مریخ
کے ’اوگزیا پلین‘ پر اترے گا۔ 16 مئی کے دن اے ایل ڈی کو کرین کی مدد سے
ایگزومارس نصب کر دیا گیا۔
یہ 300 کلو وزنی روبوٹ یورپین اور روسی خلائی ایجنسیوں کے اشتراک سے بنایا
جا رہا ہے اور مریخ کی گرد آلود سطح میں دو میٹر تک ڈرلنگ کرنے کی صلاحیت
رکھتا ہے۔
ڈرلنگ کے دوران یہ روبوٹ جو نمونے مریخ کی سطح سے حاصل کرے گا انھیں ایک
دروازے کے ذریعے اے ایل ڈی کو پہنچا دے گا جو ان نمونوں کو پاؤڈرمیں بدل دے
گا۔ پھر اس پاؤڈر کو اے ایل ڈی میں موجود چھوٹے پیالوں میں رکھ کر ان کا
کیمیائی تجزیہ کیا جائے گا۔
اس سے پہلے جتنے بھی خلائی روبوٹ مریخ پر بھیجے گئے ان سب نے اصل سوال کو
نظر انداز کیا ہے۔ انھوں نے صرف یہ بات جاننے کی کوشش کی کہ کیا مریخ کی
موجودہ یا ماضی کی صورتحال زندگی کے لیے سازگار ہو سکتی تھی۔
|
|
ایگزو مارس کیسے منفرد ہے؟
ماضی میں ان تمام روبوٹس کے پاس وہ آلات موجود نہیں تھے جو زندگی کے نشانات
کو جانچ سکتے۔
روزالنڈ فرینکلن ان سب سے مختلف ہے۔ اس میں موجود 54 کلو وزنی اے ایل ڈی کو
بنائے جانے کا مقصد ان پیچیدہ نامیاتی سالموں یعنی آرگینک مالیکیولز کو
ڈھونڈنا ہے جن کا زندگی کے عمل سے تعلق ہو۔
اے ایل ڈے روزالنڈ فرینکلن مشن کا اہم جز ہے جس کی وجہ سے اس کا اس روبوٹ
میں نصب ہونا سست روی کا شکار رہا۔
اس موقع پر برطانوی خلائی ایجنسی میں خلائی تحقیق کے سربراہ سو ہورن نے کہا
کہ ’ہمیں یہ دیکھ کر بہت خوشی ہوئی ہے کہ اس روبوٹ کا دل نصب کر دیا گیا ہے۔‘
|
|
اے ایل ڈی کی مدد سے ہم مریخ سے اکھٹے کیے جانے والے نمونوں کا جائزہ لے
سکتے ہیں۔ اس طرح ہم مریخ کی ارضیاتی ساخت کو سمجھ سکتے ہیں اور ہمیں یہ
بھی اندازہ ہو سکتا ہے کہ مریخ پر زندگی کے نشانات موجود ہیں یا نہیں۔
ایئربس برطانیہ کے انجینیئرز روزالنڈ فرینکلن کو مکمل کرنے کے لیے روزانہ
تین شفٹوں میں کام کر رہے ہیں۔
سٹیونیج فیکٹری میں اس سے متعلق تمام ضروری سامان ابھی پہنچا ہے، لیکن ابھی
تک اس نے گاڑی کا روپ نہیں دھارا۔ یہ سامان اس وقت تھیلوں میں پڑا ہے اور
اس خلائی گاڑی میں نصب ہونے کے لیے تیار ہے۔
ایک دو چیزیں ایسی ہیں جو اب تک فیکٹری نہیں پہنچ سکیں جن میں سے ایک اس
میں نصب ہونے والا کیمرا ہے۔
|
|
یہ کیمرا جسے پین کیم بھی کہتے ہیں اس خلائی گاڑی کے اوپر نصب ہو گا۔ اس
کیمرے کے ذریعے زمین سے اس روبوٹ کی رہنمائی کی جائے گی۔
ایئربس کے فلائٹ ماڈل آپریشنز مینیجر کرس ڈریپر کا کہنا تھا کہ ’ حال ہی
میں ہمارے ڈلیوری نظرِثانی بورڈ کی میٹنگ ہوئی ہے اور پین کیم جلد ہی ہماری
فیکٹری پہنچ جائے گا۔
سسٹمز انجینیئرنگ کی خوبصورتی ہی یہی ہے کہ ہمیں پہلے سے معلوم ہے کہ اس
روبوٹ کا ہر حصہ اپنی جگہ صحیح کام کرے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کے ہر
حصے کی تعمیر 3-D موڈلنگ کے ذریعے کی گئی ہے۔
|
|
فرانس کے شہر ٹولوز میں موجود کمپنی کی فیکٹری میں اس روبوٹ کے ٹیسٹ کیے
جائیں گے جن کی مدد سے اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ اس کی ساخت میں
مریخ کی پھتریلی سطح پر چلنے کی سکت ہے یا نہیں۔
اس روبوٹ میں مزید تصحیح فرانس میں کی جائے گی جس کے بعد اسے قازقستان کی
مشہور لانچ سائٹ بایکونور کوسموڈروم منتقل کر دیا جائے گا۔
رواں سال جولائی یا اگست میں اسے مریخ پر بھیجا جائے گا۔ اس کی لانچ میں
تاخیر نہیں ہو سکتی کیوںکہ مریخ صرف تب ہی جایا جا سکتا ہے جب وہ زمین کے
قریب ہو اور ایسا 26 مہینے کے وقفے کے بعد ہوتا ہے۔
|
|
روزالنڈ فرینکلن کون تھیں؟
روزالنڈ فرینکلن کنگز کالج لندن (کے سی ایل) میں ڈی این اے میں ایٹمز کی
ترتیب پر تحقیق کر رہی تھیں۔ ان کو ایکس رے کرسٹیلوگرافری کے ذریعے تصویریں
بنا کر ان پر تجزیے کرنے میں مہارت حاصل تھی۔
فوٹو 51 ان کی ٹیم کی بنائی گئی ایک تصویر تھی جس کی مدد سے کرک اور واٹسن
کو ٹو سٹرینڈڈ میکرو مالیکیول کا تھری ڈایامینشنل موڈل بنانے میں مدد دی۔
یہ بیسویں صدی میں سائنس کی عظیم کامیابیوں میں سے ایک تھی جس کے باعث
محققین کو یہ پتا چلا کہ ڈی این اے اپنے جینیٹک کوڈ کو کیسے ’محفوظ، نقل
اور منتقل‘ کرتا ہے۔
کرک، واٹسن اور ان کے سی ایل کے ساتھی موریس ولکنز کو 1962 میں نوبل انعام
دیا گیا۔
فرینکلن کی قبل از وقت موت کی وجہ سے انھیں اس ایوارڈ کے لیے نامزد نہیں
کیا جا سکا کیونکہ نوبل انعام کسی کے انتقال کے بعد نہیں دیا جا سکتا۔ لیکن
بہت سے لوگ یہ شکوہ بھی کرتے ہیں کہ فرینکلن کی خدمات کے عوض انھیں وہ
پزیرائی نہیں ملی جس کی وہ حقدرار تھیں۔
|