ڈنڈا بھی تو ہے!!!

ایک گاؤں میں مولوی صاحب رہتے تھے۔ ہم عموما" فرض کرلیتے ہیں کہ مولوی صاحب کے ہاں برکت ہی برکت ہوتی ہے اسلئے انکی تنخواہ 3 سے 5 ہزار روپے ماہانہ مقرر کرتے ہیں ۔۔۔مولوی صاحب کا کوئی دوسرا ذریعہ آمدنی نہ تھا گاؤں میں رہتے ہوئے گزارا بہت مشکل تھا ۔ اسی گاؤں میں کوئی نیک دل جاگیردار بھی رہتا تھا تو اس نے زمین کا ایک ٹکڑا مولوی صاحب کو ہدیہ کیا کہ ویسے بھی سارا دن آپ فارغ ہوتےہیں تو کھیتی باڑی کریں تاکہ گزارہ اچھا ہو۔مولوی صاحب نے گندم کاشت کرلی اور جب فصل ہری بھری ہوگئی تو بڑی خوشی ہوتی تھی دیکھ کر، اسلئے دن کے اکثر اوقات میں وہ کھیت میں ہی بیٹھے رہتے اور فصل دیکھ دیکھ کر خوش ہوتے۔ لیکن اچانک ایک ناگہانی مصیبت نے ان کو گھیرا ۔۔۔گاؤں کے ایک آوارہ گدھے نے کھیت کی راہ دیکھ لی ۔۔۔ گدھا روزانہ کھیت میں چرنے لگا۔ مولوی صاحب نے پہلے تو چھوٹے موٹے صدقے دیئے لیکن گدھا منع نہیں ہوا۔پھر انہوں نے مختلف سورتیں پڑھ پڑھ کر پھونکنا شروع کردیا لیکن گدھا پھر بھی ٹس سے مس نہیں ہوا۔ ایک دن پریشان حال بیٹھے گدھے کو فصل اجاڑتے دیکھ رہے تھے کہ ادھر سے ایک کسان کا گزر ہوا۔ گدھے کو چرتا دیکھ کر کسان نے پوچھا ۔۔۔مولوی صاحب ۔۔۔آپ عجیب آدمی ہیں گدھا فصل تباہ کر رہا ہے اور آپ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں؟مولوی صاحب نے عرض کیا کہ جناب ہاتھ پر ہاتھ دھرے کہاں بیٹھا ہوں؟ ابھی تک ایک مرغی اور بکری کے بچے کا صدقہ دے چکا ہوں اور کل سے آدھا قرآن شریف بھی پڑھ کر پھونک چکا ہوں لیکن گدھا "ہٹتا نہیں ہے مجھے تو یہ بھی گدھا کافر لگتا ہے "جس پر کوئی شے اثر نہیں کرتی ۔.کسان کے ہاتھ میں ایک ڈنڈا تھا وہ سیدھا گدھے کے پاس گیا اور گدھے کو دوچار ڈنڈے کس کر مارے تو گدھا کسی ہرن کی طرح چوکڑیاں بھرتا ہوا بھاگ کھڑا ہوا۔کسان نے کھیت سے باہر آکر ڈنڈا مولوی صاحب کے حوالے کرتے ہوئے کہا ،قبلہ مولوی صاحب قرآن گدھوں کو بھگانے کیلئے نازل نہیں کیا گیا ۔ گدھوں کو بھگانے کیلئے اللہ تعالی نے یہ ڈنڈا بھیجا ہے۔جانتے ہیں ہم بھی ایسی ہی عجیب قوم ہیں۔ ہمارے گدھے حکمران کروڑوں نہیں بلکہ اربوں لوٹے چلے جاتے ہیں اتحاد کو پارہ پارہ کررہے ہیں ہندوستانی شہریوں کے درمیان نفرت کی آگ لگارہے ہیں ہمارے مال وجائداد پر اپنا قبضہ جمانے کی کوشش کررہے ہیں اور ہم صرف دعاؤں اور صدقات و خیرات کے بل بوتے پہ ان گدھوں سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ جب تک قوم ان لٹیروں سے نجات کیلئے ڈنڈا استعمال نہیں کرے گی یہ گدھے ملک و قوم کے تمام وسائل یونہی لوٹتے رہینگے۔

سوشیل میڈیا بھی عجیب چیز ہے ،یہاں ہر وقت سوچنے،پڑھنے اور سمجھنے کیلئے کچھ نہ کچھ چیز مل ہی جاتی ہے،تو کچھ چیزیں ایسی بھی آجاتی ہیں جو وقت کی ضرورت ہوتی ہیں،مندرجہ بلامضمون اسی بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ آج ملک کے موجودہ حالات میں مسلمان صرف دعائیں کرتے ہوئے نہ بیٹھیں بلکہ عملی طورپر کام کریں۔آج بھی بڑا حصہ خانقاہوں ومسجدوں تک محدودہوچکا ہے اور ہر چیز کو ربِ کائنات سے امید لگا کر دیکھ رہا ہے۔ملک کے موجودہ حالات میںاگر مسلمانوں کو کامیاب ہونا ہے تو وہ اپنے رب کو یادکرنے کے ساتھ ساتھ عملی میدان میں بھی اتریں۔آپ اپنے اطراف کاجائزہ لیں،کتنے لوگوں کو این آر سی اور سی اے اے کے تعلق سے معلومات ہیں؟کتنے لوگ ان قوانین سے آشنا ہیںاو رکتنے لوگوں کو معلوم نہیں ہے کہ ان قوانین سے آنے والے دنوںمیں ہندوستان کے ہر شہری کو کتنا بڑا نقصان اٹھانا پڑسکتا ہے۔اگر اس بات کوآپ جان لیں تو یقیناً عملی طو رپر کام کرنے کیلئے اتر جائینگے،کئی دانشوروں و اہل علم حضرات کو یہ تک معلوم نہیں ہے کہ این آر سی اور سی اے اے قوانین کے معنی کیا ہیںاور اس کے کیانقصانات وفائدے ہیں۔کچھ لوگ یہ سوچ رہے ہیںکہ اگر ہم نے این پی آرمیں اپنے نام درج نہیں کرائےاور تفصیلات مہیا نہیں کی تو سرکاری اہلکار صرف ہندوئوںکے اعدادوشمارات اکٹھا کرینگے اور ملک کو صدفیصد ہندوئوںکی آبادی والا شہر بتاکر یہاں ہندوراشٹر بنائینگے۔مگر یہ اُن لوگوں کی سوچ ہے جو اپنے آپ سے خوفزدہ ہیںاور یہ باتیں وہی لوگ ہی کرینگے جو مرد تو ہیں لیکن مردِمجاہد نہیں ہیں اور انہیں اپنے رب کائنات پر بھروسہ نہیں ہے۔کئی علماء نما شخصیات کہہ رہے ہیںکہ حکمتاً حقیقتوں پر پردہ ڈالاجاسکتا ہے،جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ لوگ حکمت کے نام پر بزدلی کا چولہ اوڑنے کی کوشش کررہے ہیں۔بھارت آزاد ملک ہے،اس ملک سے کسی بھی شہری کو نکالنا نہیں جاسکتا،البتہ شہریوں کو نقصان پہنچانے کیلئے انہیں ضرورحراساں کیا جاسکتا ہے ۔فی الوقت اگر مسلمانوں کو اپنے مستقبل کو محفوظ کرنا ہے تو اس ملک کے دیگر شہریوں کے ساتھ مل کر حقوق کی لڑائی لڑناہے۔
 

Muddasir Ahmed
About the Author: Muddasir Ahmed Read More Articles by Muddasir Ahmed: 269 Articles with 197631 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.