مولانا محمد منصور احمد
گزشتہ دنوں میں نے ایک معروف کالم نگار کی ایک تحریر پڑھی جس میں اُس نے
ایک غیر مسلم سائنسدان کی تعریف میں اتنے قلابے ملائے کہ تمام مسلمان اُس
کے مقابلے میں ایک حقیر بونے نظر آنے لگتے ہیں ۔ یہ سوچ اور ذہنیت صرف ایک
کالم نگار ہی کی نہیں ‘ اُس شخص کی ہو جاتی ہے جو بغیر دینی تعلیم و تربیت
کے عصری تعلیم گاہوں میں پلتا بڑھتا ہے اور وحیٔ الٰہی کی پاکیزہ تعلیمات
سے محروم رہ کر محض غیر مسلم مفکرین اور دانشوروں کے خیالات پر اپنے افکار
کی بنیاد رکھتا ہے ۔ آپ دیکھیں گے کہ ایسے لوگوں کی نظر میں صرف مادی ترقی
ہی سب کچھ ہوتی ہے اور یہ دنیا کے اسباب راحت و تعیش اور آلاتِ آسائش و
آرائش کو انسان کی ترقی اور معراج سمجھتے ہیں ۔ چنانچہ پاکستان کا ایک
مشہور لکھاری ایسا بھی ہے جو سائنسدانوں کو انبیا علیہم السلام کا ہم رتبہ
قرار دیتا ہے اور برق و بھاپ کے پجاریوں کو اللہ تعالیٰ کے پاک پیغمبروں
علیہم السلام کے برابر انسانیت کا محسن سمجھتا ہے ۔ ظاہر ہے کہ ایسے نظر یے
کے بعد انسان کا دین ایمان کیا رہ جاتا ہے ۔ اکبر الہ آبادی مرحوم نے مغربی
تعلیم کے انہی اثرات کو دیکھ کر کہا تھا :
مشرقی تو سرِ دشمن کو کچل دیتے ہیں
مغربی اُس کی فطرت کو بدل دیتے ہیں
اس صورت حال میں یہ ضروری ہے کہ قرآن و سنت کی روشنی میں واضح طور پر یہ
بتایا جائے کہ ان سائنسی ایجادات کے بارے میں اسلامی طرزِ فکر کیا ہے اور
اسلامی تعلیمات اس بارے میں ہماری کیا راہنمائی کرتی ہیں ورنہ افکار و
نظریات کے اس ٹیڑھے پتھر پر جو بھی عمارت کھڑی کی جائے گی وہ ٹیڑھی ہی رہے
گی ۔
یہ جہان جس میں انسان آباد ہے اور کروڑوں قسم کے بحری اور بری جانور بھی
یہاں بستے ہیں ۔ یہاں سورج اور چاند وغیرہ سیارات کی گردش بھی ہے اور
فلکیات کا ایک مضبوط اور محکم نظام بھی، اس میں برق و باراں کے پُرکیف و
نفع بخش سماں بھی ہیں اور عناصر کے عجیب و غریب انقلابات بھی ۔ اس وسیع و
عریض کائنات میں نباتات اور جمادات کے سینکڑوں دلفریب مظاہر بھی ہیں اور
پہاڑوں اور دریاؤں کے حیرت زدہ کر دینے والے خوبصورت مناظر بھی ۔
یہ ساری مملکت بالواسطہ اور بلا واسطہ انسان کی خدمت میں مصروف ہے اور اس
بارات کا دولہا ابنِ آدم ہی ہے ۔ بحرو بر کی تمام قوتیں انسان کے فائدے
کیلئے وقف کار ہیں اور ہر چھوٹی بڑی چیز اس کے سامنے ایسی مسخر ہے کہ وہ جب
چاہتا ہے اُن سے اپنا کام نکال لیتا ہے ۔ انسان اگر تھوڑا سا بھی انصاف سے
غور کرے تو اُس کو محسوس ہو گا کہ وہ اس کائنات کا خالق و مالک نہیں ‘ نہ
ہی یہ اُس کے بس کی بات ہے کہ وہ اپنی طاقت سے ان اشیا سے خدمت لے سکتا ۔
لہٰذا اس کے علاوہ کوئی احتمال ہی نہیں کہ وہ اللہ کی ذاتِ پاک ہی ہے جس نے
اس پوری کائنات کو انسان کا خادم بنا دیا ہے ۔
جب انسان نے اس بات کو سمجھ لیا تو لازمی طور پر اُس کو یہ تسلیم کر لینا
چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے ان سب چیزوں کو جب میرے لیے بنایا ہے تو مجھے بھی
ضرور کسی کام اور مقصد کیلئے بنایا ہو گا ۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ساری کائنات
کی قوتیں جس کی خدمت گارہوں وہ بے کار پیدا کیا گیا ہو ۔ یہی وہ سوچ ہے جس
سے ایک بھٹکا ہوا انسان راہِ راست پر آجاتا ہے اور اُس کا رشتہ خالقِ
کائنات سے جڑ جاتا ہے ۔ وہ سمجھ لیتا ہے کہ جب کل کائنات میرے لیے بنائی
گئی تو مجھے رب کائنات کی اطاعت و عبادت کیلئے پیدا کیا گیا ہے ۔ جب یہ بات
ذہن نشین ہو تی ہے تو اس کائنات کی ہر چیز ایسے خوش بخت انسان کیلئے درسِ
عبرت بن جاتی ہے اور مخلوقات کو دیکھ کر اُن میں کھو جانے اور خالقِ کائنات
کو فراموش کر دینے کے بجائے وہ سوچتا ہے :
یہ زمیں میرے لیے ہے ‘ آسماں میرے لیے
اور ہے مصروف خدمت کل جہاں میرے لیے
حرکتِ افلاک و انجم ‘ دورِ شمسی کا نظام
چل رہا ہے دیر سے یہ کارواں میرے لیے
ایک میرے دم سے ہے اس بزمِ عالم کا فروغ
وقفِ خدمت ہے یہ سب کون و مکاں میرے لیے
میری ہستی میں ہے مضمر ‘ ہستی عالم کا راز
ہے یہ سب ایجاد و شورِ کن فکاں میرے لیے
کیوں نہ ہو ‘ روزِ اول میں ہو چکی تقسیم کار
میں ہوں مالک کیلئے اور دو جہاں میرے لیے
﴿ حضرت اقدس مفتی محمد شفیع (رح)﴾
اللہ تعالیٰ نے انسان کیلئے اس کائنات میں صرف خام مواد ہی پیدا نہیں کیا
بلکہ اس کو ان سے کام لینے اور ان کے ذریعے اپنی ضرورت کی اشیا ایجاد کرنے
کا سلیقہ بھی عطا فرمایا ۔ سائنس خواہ قدیم ہو یا جدید ‘ وہ کسی چیز کی
تخلیق نہیں کرتی بلکہ اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ سلیقے کو استعمال کرتی ہے
اور یہ بتا دیتی ہے کہ ان چیزوں کا درست اور مناسب حال استعمال کیسے کرنا
ہے ؟
حضرت آدم علیہ السلام کے زمین پر اترنے کے ساتھ ہی انسان کی بنیادی ضرورتوں
سے متعلق ایجادات کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا ۔ جوں جوں نسلِ انسانی پھیلتی
گئی اور زمین کی آبادی بڑھتی گئی ‘ نئی نئی ضروریات سامنے آتی رہیں اور اُن
کے متعلق ایجادات ہوتی رہیں ۔ جب دنیا کی آبادی موجودہ دور میں اپنی
انتہائی کثرت اور وسعت کو پہنچی تو اس کی ضروریات بھی طوفان کی طرح بڑھیں ۔
نت نئی ایجادات اور مصنوعات سامنے آنے لگیں اور زندگی کا نقشہ بھی کافی حد
تک بدل گیا ۔
اس پوری صورتِ حال کو دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ سائنسی ایجادات ایک فطری
ارتقائ کا نتیجہ او ر انسانی ضروریات کی پیداوار ہیں ۔ اس میں نہ گزشتہ
زمانے کے لوگوں کی بے وقوفی یا کم علمی کی کوئی دلیل ہے ‘ نہ موجودہ سائنس
دانوں کے کمالِ عقل و دانش پر کوئی گواہ ۔ آسمان و زمین کے خالق نے جب چاہا
اپنے لامتناہی اور غیر محدود خزانوں میں سے انسانی ضروریات نازل فرمائیں ۔
اگر یہ مٹی ‘ آگ ‘ ہوا اور دیگر ایسی چیزیں بلا واسطہ اُس کی مخلوقات ہیں
تو اسی طرح وہ چیزیں جن کو انسان اپنی مصنوعات سمجھتا ہے وہ بالواسطہ اُسی
ذات پاک کی تخلیق کا شاہکار ہیں ۔
انسانی ضروریات کیلئے ایجاد کی گئیں مصنوعات ‘ وہ جدید ہوں یا قدیم ‘ یہ سب
اللہ کریم کی عظیم الشان نعمتیں ہیں جو انسان کو عطا ہوئی ہیں ۔ عقل مند کا
کام یہ ہے کہ وہ ان نعمتوں سے فائدہ اٹھائے اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے
اور اس شکر یہ کا کم سے کم درجہ یہ ہے کہ ان نعمتوں کو اللہ تعالیٰ
نافرمانی میں استعمال نہ کرے اور یہ بھی خیال رکھے کہ ان تمام نعمتوں کا
بالآخر اس کو حساب دینا ہو گا ۔
اکبر الہ آبادی کہتے ہیں :
تم شوق سے کالج میں پلو ‘ پارک میں پھولو
جائز ‘ کہ غباروں میں اڑو چرغ پہ جھولو
پر ایک سخن بندہ عاجز کی رہے یاد
اللہ کو اور اپنی حقیقت کو نہ بھولو
یورپ کے دانشوروں اور ان کے شاگردوں کو یہیں ٹھوکر لگی کہ وہ ان مصنوعات کے
پیچھے تو ہاتھ دھو کر پڑ گئے لیکن صانع کو بھول گئے ۔ انہوں نے مخلوقات سے
تو خوب استفادہ کیا لیکن خالق کی شکر گزاری کے بجائے اُس کی نافرمانی میں
جاپڑے ۔ تب یہی ترقی اُن کیلئے باعث ِ وبال بن گئی اور اصل حقیقت اُن کی
نگاہوں سے مستور ہو گئی ۔
میں نے گزشتہ سطور میں جتنی باتیں عرض کیں ‘ الحمد للہ تعالیٰ وہ سب قرآن
مجید کی مختلف آیاتِ مبارکہ سے ہی ماخوذ ہیں ۔ اُن سب آیات کو یہاں نقل
کرنا تو مشکل ہے لیکن میں حوالے کیلئے آیات نمبر لکھ دیتا ہوں تاکہ اربابِ
ذوق اس سے فائدہ اٹھا سکیں ۔
سورۃ الحج آیت ۵۶
سورۃ لقمان آیت ۰۲
سورۃ یٰس آیت ۲۷۔۱۷
سورۃ المومومنون آیت ۶۱۱۔۵۱۱
سورۃ الذاریات آیت ۶۵
سورۃ الحجر آیت ۱۲
سورۃ آلِ عمران آیت ۱۹۱
صرف اس نیت سے یہ چند سطور اکابر علمائ کرام کے علوم سے استفادہ کر کے یہاں
لکھی گئیں کہ آپ کو اندازہ ہو سکے کہ ہمارا جدید تعلیم یافتہ طبقہ کتنی
آسانی سے مغربی الحاد کا شکار ہو کر دین کے بنیادی اصولوں کے بارے میں ہی
شکوک و شبہات میں مبتلا ہو جاتا ہے اور پھر بڑی ہوشیاری سے اپنے قلم کے
ذریعے یہ زہر قوم کی رگوں میں انڈیل دیتا ہے ۔ اسی لیے بعض اکابر نے تو
یہاں تک ارشاد فرمایا ہے کہ آج کل کے دور میں ماں باپ جن بچوں کو جدید
تعلیم کیلئے عصری درس گاہوں میں بھیجیں ‘ اُن پر یہ فرض ہے کہ وہ اہل ِ حق
علما کی مجالس میں آتے جاتے رہیں تاکہ اُن کا دین و ایمان محفوظ رہے ورنہ
بسا اوقات لا مذہب اور دین دشمن مفکرین کا ایک حملہ ہی اُن کیلئے ایمان
لیوا ثابت ہوتا ہے ۔
اللہ تعالیٰ ہمیں ہر قسم کی فکری اور عملی گمراہیوں سے محفوظ فرمائے ﴿آمین﴾ |