انسانی جان اﷲ تعالی کی بہت بڑی نعمت اورامانت ہے ،یہ جان
قدرت کا بہترین عطیہ ہے اسی لیے کہا جاتا ہے ’’جان ہے تو جہان ہے، جان نہیں
تو جہان نہیں ،اس جان اور زندگی کے لئے انسان کتنے جتن کرتا ہے ، جان ہر
ایک کو عزیز اور پیاری ہوتی ہے۔جب تک عقل حواس قائم ودائم ہوں کوئی بھی شخص
مرنا نہیں چاہتا، لیکن کبھی کبھی انسان عقل ودانش سے پیدل ہوکرہوش وہواس
کھو بیٹھتا ہے ،سمجھ بوجھ ،اچھائی برائی کی تمیز سے بالکل محروم
ہوجاتاہے۔تب جان جیسی عزیز اور پیاری چیز بھی اس کے نزدیک عزیز نہیں
رہتی،وہ اپنے ہاتھ سے اپنی جان کو ہلاک کر ڈالتا ہے ،اپنا گلا گھونٹ دیتا
ہے،دریا سمندر میں چھلانگ لگا دیتا ہے ،کسی بلڈنگ سے کود جاتا ہے،ریل کی
پٹڑی پر لیٹ جاتا ہے ،زہر پی لیتا ہے،پیٹ میں چھرا گھونپ لیتا ہے ،اپنے آپ
کو گولی مار لیتا ہے،چوہے مارنے والی زہر آور گولیا ں کھا لیتا ہے۔سوال
پیدا ہو تا ہے وہ ایسا کیوں کرتا ہے؟ذہنی سکون کیلئے ؟ دنیا کی نگاہوں سے
بچنے کے لئے؟ندامت وشرمندگی سے بچنے کے لئے؟کسی مرحلہ میں ناکام ہوجانے کی
وجہ سے؟کسی معاملہ میں ذلیل و رسواہوجانے کے خوف سے؟جذبات میں آکر دنیا
والوں کی نگاہوں میں اپنے آپ کو بہادر کہلوانے کے لئے؟حالانکہ خود کشی
کرنیوالوں کے ہزاروں واقعات گواہ ہیں کہ خود کشی کرنے والے کو ان میں سے
کچھ نہیں ملتابلکہ مزید رسوائی اورذلت اس کے اور خاندان کے نام پر بدنما
داغ بن جاتی ہے ،لوگ اس کا نام برائی سے لیتے ہیں ، کہا جاتا ہے حرام موت
مرا،لوگ اس کے کفن اور جنازہ میں شرکت سے بھی کتراتے ہیں،جو شریک ہوتے ہیں
وہ بھی بے دلی اور نفرت سے جلد از جلد اس کی لاش کے بوجھ سے چھٹکارا پانا
چاہتے ہیں،اس لیے کہ اس نے خود کشی کرکے اﷲ اور اس کے رسول ﷺ کی نافرمانی
کی،شریعت اور قانون وسماج کے بھی خلاف کام کیا۔جو سب کے نزدیک برا اور قابل
سزا و گرفت جرم ہے۔
موت اور زندگی انسان کی اختیار میں نہیں،موت وزندگی کا مالک اﷲ تعالی
ہے،خود کشی کرنے والا اﷲ تعالی کی ملکیت میں دخل دیتا ہے،اگر موت وحیات
اختیاری چیز ہوتی تو انسان جب چاہتا مر جاتا ،جب چاہتا مرنے سے بچ
جاتا،لیکن مشاہدہ یہ ہے کہ بہت سے خود کشی کرنے والے موت سے بچ بھی جاتے
ہیں اور اور بہت سے موت سے بچنے والے مر بھی جاتے ہیں۔معلوم ہوا کہ زندگی
اور موت انسان کی ملکیت نہیں ،اس کا مالک اﷲ تعالی ہے۔انسان کے لئے زندگی
اﷲ تعالی کی طرف سے بہترین عطیہ اور امانت بھی ہے وہ اس سے فائدہ اٹھائے
لیکن اس میں ناجائز تصرف نہ کرے،اپنی مرضیات نہ چلائے،اپنی زندگی کو
خواہشات کا کھلواڑ ہی نہ بنائے،اس کو منشائے خداوندی کے مطابق بسر کرنے کی
کوشش کرے۔جیسا کہ اﷲ تعالی کا ارشاد ہے ’’اپنے نفسوں کو قتل نہ کرو‘‘(سورۃ
نساء)سرکار دوعالم صلی اﷲ علیہ وسلم کا ارشاد عالیشان ہے کہ’’ موت کی تمنا
مت کرو،بے شک جان نکلنے کی حالت بڑی سخت ہے ،بندے کی نیک بختی یہ ہے کہ اس
کی عمرلمبی ہو اور اﷲ پاک اسے اطاعت نصیب کرے ‘‘جب موت کی تمنا کرنا منع ہے
تو اپنے آپ کو مار ڈالنا یا مارنے کی کوشش کرنا کہاں جائز ہو گا؟ اسی لیے
خود کشی حرام موت ہے ایسی موت جو جہنم میں لے جانے والی ہے ،جہاں خود کشی
کرنے والے کو اسی تکلیف سے جہنم کی آگ میں بار بار اذیت دی جائے گی جس
تکلیف سے گزر کر اس نے موت کو گلے لگاکر خود کشی کی ہو گی جیسا کہ رسول
کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا’’جو شخص پہاڑ سے گرا اور اپنی جان کو قتل کر ڈالاوہ
دوزخ کی آگ میں گرتا ہی رہے گا اور اس میں ہمیشہ ہمیش رہے گا،جس نے زہر
پیااور اپنی جان کو قتل کر ڈالااس کا زہر اس کے ہاتھ میں ہو گااور دوزخ کی
آگ میں ہمیشہ پیتا ہی رہے گااور جس نے اپنی جان کو کسی تیز ہتھیار سے قتل
کیا اس کا ہتھیا ر اس کے ہاتھ میں ہو گا اور اس کو وہ اپنے پیٹ میں گھونپے
گااور دوزخ کی آگ میں ہمیشہ ہمیشہ رہے گا‘‘(بخاری ومسلم)ایک اور روایت میں
ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تم سے پہلےء لوگوں میں ایک شخص تھا اس کے
ہاتھ پر زخم آیا اس نے چھری لی اور اپنے ہاتھ کو کاٹ دیا اس کا خون بہنا
شروع ہو اور بہتا رہا یہاں تک کہ وہ مر گیا ،اﷲ تعالی نے فرمایا’’میرے بندے
نے اپنے نفس کے ساتھ جلدی کی ،میں نے اس پرجنت حرام کر دی‘‘(بخاری ومسلم)
خود کشی کرنے والا کتنا بڑا بد بخت آدمی ہے کہ آپ ﷺ نے ایک موقع پر خود کشی
کرنے والے کی نماز جنازہ پڑھانے سے انکار کردیا ۔اسی لیے شریعت کا حکم ہے
خود کشی کرنے والے کی نماز جنازہ میں اہم رہنما اور مقتدا شخصیات شرکت نہ
کریں تاکہ دوسروں کے لئے عبرت اور سبق ہو۔
میرے عزیزو!جب آپ کو حالات کی گردش اس موڑ پر لاکر کھڑا کر دے اور شیطان
ابلیس اس فعل بد پر اکسانے کی کوشش کرے تو اس موقع پر یہ بات ضرور یاد
رکھیے گا کہ کوئی واقعہ کتنا ہی درد ناک ہو،کتنا ہی اذیت ناک ہو ،وہ ہمیشہ
اس طرح نہیں رہتا،وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی اہمیت،ہولناکی اور کرب ختم
ہوجاتا ہے ۔خود کشی کا ارادہ کرنے والا خود سے سوال کرے ’’یہ واقعہ جو آج
مجھے اس قدر پریشان اور دکھی کئے ہوئے ہے کیا آج سے ایک دن یا ایک ہفتہ
یاایک ماہ بعد بھی اس کی اہمیت اسی قدر ہو گی؟‘‘ظاہر ہے اس کا جواب نفی میں
ملے گا ،دردناک سے درد ناک واقعہ کی تکلیف وقت کے ساتھ ساتھ کم ہو جاتی ہے
حادثوں کا کیا ہے یہ تو زندگی کے ساتھ ہیں
ایک سے بچ کر چلو گے دوسرا مل جائے گا
وقت ہر زخم کا مرہم ہے ۔زندگی جیسی قیمتی چیز کے بدلے اگر کسی کو چند دن یا
چند ماہ گزارنا پڑیں تو یہ سودا مہنگا نہیں ۔ایسے وقت میں بار بار ’’انا ﷲ
وانا الیہ رجعون ‘‘ پڑھیں اور یہ دعا پڑھیں’’اللھم اجرنی فی مصیبتی واخلف
لی خیر امنھا‘‘اے اﷲ !میری مصیبت میں اجر عطا فرما اور مجھے اس کا بدل
عنایت فرما‘‘یہ وہ ہتھیار ہے جو ہر درد کا درماں ہے ،ہر مصیبت کا علاج ہے
تیری بندہ پروری سے مرے دن گزر رہے ہیں
نہ گلہ ہے دوستوں کا نہ شکایت زمانہ
مغربی معاشرے میں ایسا ہونا کوئی حیرانگی کی بات نہیں ،جہاں مادہ ہی سب کچھ
ہے مادہ پرست قوم جب دنیا میں کسی مقصد سے ہارجاتی ہے تواسے سوائے ناکامی
کے کچھ دکھائی نہیں دیتا تو اس تو ان کے سامنے ایک ہی راستہ بچتا ہے خود کو
ختم کر کے تمام مشکلات سے نجات پائی جائے ،افسوس اور دکھ کا مقام یہ ہے کہ
مسلمان ممالک میں بھی خود کشی کا رجحان بڑھ رہا ہے عجیب سی بات ہے مسلمان
کیسے ناکامی سے ڈر سکتا ہے مسلمان کیسے مایوسی اور ٹینشن کا شکار ہو سکتا
ہے اسے تو معلوم ہے اس کا رب ہر چیز پر قادر ہے ۔
دراصل یہ دین سے بے انتہادوری کا نتیجہ ہے ۔ ہماری زندگی ، ہماری جان،
ہمارا جسم، ان میں سے کچھ بھی ہماری ذاتی ملکیت نہیں ہے سب اﷲ کی دی ہوئی
امانتیں ہیں جن کے بارے میں کل ہم سے سوال ہوگا ۔ مایوسیاں ، ناکامیاں
،سختیاں سب تمہارے برے اعمال کا نتیجہ اور آزمائشیں ہیں اگر کوئی مشکل
آجائے تو مایوس ہونے کی بجائے رب کے آگے گڑگڑاو وہ تمہاری مشکلیں آسان کر
دے گا ۔
نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام ؓ کی زندگیاں ہمارے لئے نمونہ ہیں کتنی زیادہ
مشکلات اور سختیاں ان پر آئیں لیکن وہ اﷲ کی رحمت سے مایوس نہیں ہوئے تو
انسان مشکلات سے لڑ کر جیے نہ کہ حرام کی موت کو گلے لگا کر ہمیشہ کے لئے
دوزخ کی آگ خریدے ۔
|