صبح کا وقت ہے سارے کام کاج سے فارغ لوگ جیلے کے ہوٹل پر
جمع ہیں اور بہت ہی سر گرم بحث چل رہی ہے روز کی طرح آج بھی چاچا طفیل ملسل
بحث کررہا ہے کچھ لوگ تنگ آکر اُٹھ کر چلے گئے ہیں لیکن کچھ شرارتی قسم کے
لوگ ادھر بیٹھ کر چاچے طفیل کا توا لگا رہے ہیں۔چاچا طفیل ایک فوج سے
حوالدار کے عہدے سے ریٹائر ہے۔ اس نے اپنے بچوں کو تعلیم دلوانے کیلئے بہت
محنت کی ہے، اس کے سب بچے اپنے اپنے گھروں میں بہت خوش ہیں۔چاچا طفیل ویسے
توبہت ہی اچھا انسان ہے کسی کا دِل نہیں دُکھاتا دُکھ سکھ میں سب کے کام
آتا ہے لیکن اس کی بحث کرنے والی عادت سے سب تنگ ہے اس صرف کہتا ہے جو میں
کہہ رہا ہوں وہی سچ ہے، چاچا طفیل کو ہر کام میں ٹانگ اَڑنے کی عادت ہے
کوئی بھی بات کر لیں اس کے بعد چاچا طفیل سے اس پر تبصرہ سن لیں،اسی عادت
کی وجہ سے کافی لوگ چاچا طفیل سے دور ہوگئے ہیں یہاں تک کہ اس گھر پر بھی
جب ٹی وی پر خبریں لگتی ہیں تو چاچا تبصرہ کیے بغیر نہیں رہ سکتا ہر ہر خبر
پر اپنی رائے دیتا ہے جس پر اس کے بچے کہہ اٹھتے ہیں ابا جی آپ تو چپ کریں
پلیز ہر بات میں بولنا ضروری ہے جس پر چاچا طفیل کو سخت غصہ آتا ہے اور غصہ
س آٹھ کر اپنے کمرے میں چلا جاتا ہے، اور وہ یہ سمجھتا ہے کہ اس کی اولاد
اس کے کہے میں نہیں حالانکہ اس کے بچے اس کا ہر طرح کا خیال رکھتے ہیں اصل
میں چاچا کی بیوی جب سے فوت ہوئی ہے،چاچا خود کو بہت اکیلا محسوس کرتا ہے
اور کافی چڑچڑا سا ہو گیا ہے جب بیوی زندہ تھی تو اپنا غبار اس پر نکال
لیتا تھا لیکن اب اس کی کوئی بھی نہیں سنتا اس لیئے اپنی تنہائی کو دور
کرنے کیلئے لوگوں سے بحث کرنا اس کا روزمرہ کا معمول بن چکا ہے۔ روز مرہ کی
طرح آج بھی ہوٹل پر بحث جاری ہے، سب اپنی اپنی رائے دے رہے ہیں لیکن چاچا
کے سامنے کس کی چلتی ہے۔ایک نیا چہرہ جس کو اس سے پہلے کبھی کسی نے نہیں
دیکھا سب کی باتیں سن رہا ہے اخبار پڑھ رہا ہے اور چسکیاں لے کر چائے پی
رہا ہے شکل سے اچھے گھر کا اور پڑھا لکھا کوئی 29 30سالہ جوان ہے اس کے
لباس اور اس کے اخبار پڑھنے کے اندازسے اس کی منفرد شخصیت نمایاں ہو رہی
ہے۔اب چاچا کی باتوں سے تنگ آکر جو لوگ بچے تھے وہ بھی چلے گئے ہیں اب کچھ
مذاق اُڑانے والے لوگ چاچا کا دل کھول کر مذاق اُڑارہے ہیں ان کی طنز کی
کاٹ چاچا کو واضح طور پر محسوس تو ہو رہی ہے لیکن چاچا کے پاس خاموشی کے
سوا کوئی چارہ نہیں۔ چاچا اس جوان کو شامل گفتگو کرتے ہوئے اس سے پوچھتا ہے
جناب اگر برا نہ مانے تو کچھ پوچھنا ہے آپ سے وہ اجنبی جی ضرور پوچھیں سر
چاچا طفیل آپ کو کبھی دیکھا نہیں ادھر دو تین دن سے دیکھ رہا ہوں آپ آتے
ہیں باتیں سن کر چلے جاتے ہیں کوئی بات نہیں کرتے شکل و لباس سے کسی اچھے
گھر کے لگتے ہیں اجنبی نے بتا یا کہ بزرگوآپ نے صیح پہچانا میں اس شہر میں
نیا ہی آیا ہوں میرا نام چوہدری امیر حسین ہے میر اتعلق ملتان سے ہے اور
میں ہائی سکول میں ٹیچر ہوں میری آپ کے علاقہ کے سکول میں پوسٹنگ ہوئی ہے
اس پر چاچا نے کہا بیٹا کسی چیز کی ضرورت ہو تو ضرورت بتانا اسے اپنا ہی
شہر سمجھنا۔امیر حسین جی بہت شکریہ۔یہ کہہ کر امیرحسین چلا گیا۔اگلے دن جب
امیر حسین آیا تو پھر روزمرہ کی طرح بحث چل رہی تھی امیر حسین نے جیلے سے
ایک چائے کا کہا اور اپنی اخبار پڑھنا شروع ہوگیا اتنے میں ایک ہوٹل میں
بیٹھے بندے نے امیر حسین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا جی باؤ جی آپ کیا کہیں گے
اس بار ے میں چاچا طفیل کا کہنا ہے کہ اب کی نسبت پرانا دور ہی بہتر تھا آپ
اس بارے میں کیا کہتے ہیں اس پر امیر حسین کہنے لگا جی میرا جو اپنا خیال
ہے یہ ہے کہ دور سب ہی اچھے ہیں لیکن انسان کو حالات۔ و۔واقعات کے مطابق
خود کو لازمی بدلنا چاہیئے یہ کہنا تھا کہ امیر حسین کی شامت آگئی چاچا اور
امیر حسین کے درمیاں اچھی خاصی بحث ہو گئی لگ رہا تھا جیسے ابھی دونوں میں
ہاتھا پائی ہو جائے گی لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا امیر حسین واحد آدمی تھا جس
نے اپنی باتوں سے کافی حد تک چاچا طفیل کو قائل کر لیا اب امیر حسین کے
جانے کا ٹائم تھا جاتے وقت امیر حسین نے چاچا طفیل سے معذرت کی کہ مجھ سے
جانے انجانے میں کوئی ایسی بات ہو گئی ہو جس سے آپ کا دل دُکھا ہو تو میں
معافی چاہوں گا اس پر چاچا طفیل کو بہت خوشی ہوئی اس سے پہلے کسی نے چاچا
سے اس طرح ہمدردی نہیں کی تھی چاچا نے کہا کوئی ایسی بات نہیں آج چاچا جب
گھر آیا تو کچھ بدلابدلا سا لگ رہا تھا چاچا طفیل آکر اپنے کمرے میں کچھ
کتاب پڑھنے لگا چاچا کے گھر والے پریشان تھے کہ آج چاچا سارا دِن ان کے پاس
نہیں آیا چاچا کے بیٹے کے بڑے بیے نے اپنی بیوی سے کہا جا کر دیکھو ابا
ٹھیک تو ہیں۔ چاچا کی بڑی بہو جو کہ چاچا کا بہت خیال رکھتی تھی کمرے میں
آئی اور پوچھنے لگی خیر ہے اباجی آج سارا دن آپ نہیں آئے ہمارے پاس تو
چاچاطفیل اسکے سر پر پیار کرتے بولا کچھ بیٹا آپ سب اپنی اپنی زندگی میں
مصروف ہو کوئی بھی میری بات نہیں سنتا تو میں کیا کروں تم لوگوں کے پاس آکر
میرے بیٹوں سے توتم اچھی ہو جو میراخیال رکھتی ہو جس کو میری فکر ہے وہ
نالائق بات ہی نہیں سنتے بہوکلثوم نا ابا جی ایسی کوئی بات نہیں سب آپ کی
عزت کرتے ہیں میں آپ کیلئے کھانا لگا دوں چاچاطفیل ہاں لگا دو۔اگلے دن جب
امیر حسین آیا تو چاچا طفیل وہاں پہلے سے موجود تھا امیرحسین کو دیکھتے ہی
اس کے چہرے پر رونق آگئی وہ سلام کر کے بیٹھ گیا اور روزمرہ کی طرح اخبار
پڑھنے لگا لیکن چاچا طفیل کو کہاں چین تھا اس نے پھر کوئی بات شروع کی پھر
بحث شروع ہوگئی۔اب یہ روز مرہ کی روٹین بن گئی تھی کہ چاچا اور امیرحسین کی
بحث ہوتی کچھ لوگ چاچا کا ساتھ دیتے کچھ امیر حسین کا لیکن امیر حسین کی
باتوں سے سب متاثر ہوتے جیلے کے ہوٹل پر اب ایک میلہ سا لگا رہتا امیر حسین
سکول سے چھٹی کر کے ہوٹل پر ہی آجاتا چاچا اور امیر حسین میں خوب بحث ہوتی
اور اب دونوں بہت اچھے دوست بھی بن چکے تھے اکثر اکٹھے نظر آتے آجکل چاچا
طفیل بہت خوش خوش رہتا ہر ایک سے گرمجوشی سے ملتا لوگ پرانے چاچاطفیل
کوبھول گئے تھے اب چاچانے نئے روپ میں نیا جنم لیا ہو جیسے یہ سب امیر حسین
کی وجہ سے تھا وہ چاچا کو ایسے ایسے دلائل دیتا جس سے چاچا قائل ہوجاتا اور
امیر حسین اس بات کا خیال رکھتا اس سے کوئی بدتمیزی نہ ہوجائے جس سے چاچا
کے دِل کو ٹھیس پہنچے بلکہ وہ دوسروں کو بھی سمجھاتا کہ چاچا سے شفقت سے
پیش آئیں ہوٹل پر سب امیر حسین کی عزت کرتے تھے اس لیئے اس کی بات بھی مان
لیتے اور سب نے چاچا کا مذاق اڑانا چھوڑ دیا تھا اب چاچا بھی امیر حسین کے
علاوہ کسی سے بحث نہیں کرتا تھا اور اب چاچا گھر میں بھی ہر ایک سے بحث نہ
کرتا چاچا کی اس تبدیلی پر سب بہت خوش تھے۔ایک دن جب چاطفیل جیلے کے ہوٹل
پر آیا تو سارا دن امیر حسین نہیں آیا چاچاہر ایک سے بار بار امیر حسین کا
پوچھتا یہ دن چاچا نے بہت بے چینی میں گزاراا ٓج چاچا بہت ہی گم سم سا رہا
اس کا کہیں بھی دِل نہیں لگ رہا تھا کبھی گھر جاتا تو کبھی ہوٹل پر
آجاتا۔جب مسلسل ۳ دن امیر حسین ہوٹل پر نہیں آیا تو چاچا طفیل کچھ لوگوں کے
ساتھ اس کے سکول گیا وہاں سے پتہ چلا کہ اس کا تبادلہ ہو گیا ہے یہ سن کر
چاچا گہری سوچ میں ڈوب گیا۔جیلا چاچا طفیل کیا سوچ رہے ہو چلو اب چیلیں سب
واپس آگئے۔اب چاچا طفیل گم سم سا رہنے لگا جیسے اس کی کوئی اہم چیز گم گئی
ہو اب چاچا طفیل جیلے کے ہوٹل پر آتا اخبار پڑھا چائے پیتا اور کچھ بولے
بغیر ہی چلا جاتا جو شرارتی قسم کے لوگ چاچا کا مذاق اُڑاتے تھے بہت کوشش
کرتے چاچا کوئی بات کرے لیکن چاچا نے جیسے چپ کا روزہ رکھ لیا تھا ۔اب چاچا
نے جیلے کو ہوٹل کو بھی خیر باد کہہ دیا تھا۔اب چاچا اپنے کمرے میں بند ہو
کر رہ گیا تھا کسی سے کوئی بات نہ کرتا سب گھر والے اس کی اس حالت سے
پریشان تھے۔جب کافی دنوں تک چاچا جیلے کے ہوٹل پر نہیں آیا تو چاچا طفیل کے
چند قریبی ساتھی حمید۔جیلا۔اور بشیر چاچا کے گھر پر اس کا پتہ لینے آگئے جب
چاچا کی حالت دیکھی تو بہت ہی پریشان ہوئے کہ اس کو آخر ہو کیا گیا ہے چاچا
طفیل بہت لاغر ہوچکا تھا سب لوگ کافی دیر بیٹھے رہے کوشش کرتے رہے کہ طفیل
کوئی بات کرے لیکن کبھی چپ نہ رہنے والے چاچا طفیل نے کوئی بات نہیں کی بس
جو بات پوچھی جاتی اس کا مختصر سا جواب دے دیتاسب کو چاچا کی حالت پر بہت
دُکھ ہوا۔اگلے دن کچھ لوگ جیلے کے ہوٹل پر چاچا طفیل اور امیر حسین کی
باتیں کر رہے تھے کہ شائد چاچا طفیل کو امیر حسین کے جانے کا بہت غم ہے اس
لیئے اس کی ایسی حالت ہو گئی ہے حمید نے کہا ہاں مجھے بھی کچھ ایسا ہی لگتا
ہے میں تو بچپن سے جانتا ہوں طفیلے کو یہ چپ رہنے والا بندہ ہی نہیں سمجھے
نہیں ٓتی اُسے ہوا کیا ہے، جیلے نے کہا مجھے لگتا ہے کہ طفیل نے امیر حسین
کے جانے کا غم خود کولگا لیا ہے ا میر حسین نے بھی تو اچھا نہیں کیا ہم سب
کے ساتھ کسی کو بھی نہیں بتایا کہاجارہا ہے اور ایسا غائب ہوا جیسے گدھے سر
سینگ کوئی اس طرح بھی کرتا ہے بھلا کم از کم بتا کر تو جاتا۔یہ سن کر وہاں
بیٹھے سکول کے چپڑاسی نے بتایا کہ اس کو کسی کو کچھ بتانے کا موقع ہی کہاں
ملا ہے امیر حسین صاحب کا تبادلہ نہیں ہوا بلکہ ان کو فوری جان بچا کر
بھاگنا پڑا جو سکول کے سامنے چوہدری صاحب ہیں ان کے گھر امیر حسین صاحب ان
کی بیٹی کو ٹیوشن پڑھانے جاتے تھے کہ چوہدری کی بہن امیر حسین پر عاشق
ہوگئی جب چوہدری اور اس کے لڑکوں کو پتہ چلا تو انھوں نے امیر حسین صاحب کو
جان سے مارنے کی دھمکی دی بلکہ چوہدری کے لڑکوں نے تو کافی بدتمیزی بھی کی
ہے ان کے ساتھ تو وہ بھلا کیا بتاتے کسی کو اس لیئے ان کو فوری طور پر سکول
چھوڑنا پڑا اب سنا ہے کہ چوہدری شادی کیلئے رضا مند ہو گیا ہے ہو سکتا ہے
کچھ عرصہ تک امیر حسین صاحب واپس ڈیوٹی پر آجائیں۔جب امیر حسین واپس آیا تو
سکول کے چپڑاسی شکیل نے چاچا طفیل کی بیماری کے بارے میں سب کچھ بتا دیا یہ
سن کر امیرحسین کو بہت دُکھ ہوا اور وہ خود کو دوشی ٹھہرانے لگا کہ یہ سب
اس کی وجہ سے ہوا ہے اور کہنے لگا شکر ہے کچھ ہوا نہیں طفیل چاچا کو ورنہ
میں ساری زندگی خود کو معاف نہ کر سکتا۔اگلے دن امیر حسین جیلے کے ہوٹل پر
گیا تواسے دیکھ کر سب حیران رہ گئے اس نے سب کو اپنی کہانی سنائی اور بتایا
کہ اب اسے کوئی خطرہ نہیں کیونکہ چوہدری سے اس کی دور کی رشتہ داری بھی نکل
آئی اور وہ شادی کیلئے رضامند ہو گیا ہے تین ماہ تک اس کی شادی ہے آپ سب نے
آنا ہے اور مجھے چاچاطفیل کے گھر لے چلو میں ان کا بھی گناہ گار ہوں ان کی
یہ حالت میری وجہ سے ہوئی ہے جیلا،حمید اور بشیر امیرحسین کے ساتھ گئے جب
چاچا طفیل کے کمرے کے باہر ہی تھے کہ جیلے نے اونچی آواز میں کہا طفیلے
دیکھ تو سہی تجھے کون ملنے آیا ہے یہ سن کر چاچاطفیل چونک سا گیا امیر حسین
کو دیکھتے ہی طفیل کے چہرے پر خوشی کی ایک لہر ڈور اُٹھی لیکن طفیل نے
ناراضگی والے انداز میں امیر حسین اور سب کو بیٹھنے کو کہا اس سے پہلے کہ
چاچا طفیل کوئی شکوہ شکایت کرتا امیرحسین نے اپنی ساری کہانی سنائی اور
چاچا طفیل کو گلے لگا کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا اس پر چاچا طفیل نے امیر
حسین کو حوصلہ دیتے ہوئے کہا کہ بیٹا اس میں تمہارا کوئی قصور نہیں قصور
میراہی ہے اگر میں وقت کے ساتھ خود کو بدلتا صرف اپنی نہ سناتا باقی لوگوں
کی بھی سنتا تو اس طرح تنہا نہ ہوتا تم تو میرے محسن ہو تم نے تو میری
آنکھیں کھول دی بس تم سے یہ شکوہ تھا کہ تم نے مجھے اس قابل نہیں سمجھا کہ
مجھ سے اپنا دُکھ بانٹ سکتے امیر حسین کہنے لگا مجھے اتنا موقع ہی نہیں ملا
اب میں آپ کو چھوڑ کر کہیں نہیں جاؤنگا اسی طرح دونوں میں بات ہو رہی تھی
کہ دونوں میں بحث ہو گئی لگ رہا تھا کہ ابھی دونوں ایک دوسرے سے ہاتھا پائی
پر اتر آئیں گے سب گھر والے جیلہ،حمید، اور بشیر دونوں کو دیکھ کر ہنس رہے
تھے اور کہہ رہے تھے یہ دونوں نہیں سدھر سکتے |