دنیا میں سب سے اعلیٰ کوالٹی کے بادام امریکہ میں پیدا
ہوتے ہیں۔میری ایک سکھ سے ملاقات ہوئی جو ایک بادام کے باغ کا مالک تھا ۔
اس باغ میں پانچ سو درخت تھے۔ اس باغ میں اس نے اپنی ضرورت کی ہر چیز بنا
رکھی تھی ۔ اس کے پاس کئی گاڑیاں اور ہیلی کاپٹر بھی تھے۔میں نے اس سے
پوچھا کہ اس باغ کو لگانے میں آپ کو کافی عرصہ لگا ہوگا یا آپ کو یہ باغ
اپنے باپ دادا سے ملا ہوگایا آپ نے خریدا تھا اس باغ کو۔ اس نے بتا یا کہ
اسے یہ باغ بالکل مفت میں ملا تھا۔ میں نے بڑی حیرت سے اسے دیکھا اور تجسس
سے پوچھا کہ واقعی آپ کو یہ باغ مفت میں ملا ہے؟ ۔ تو اس نے بتا یا کہ یہ
باغ ایک گورے کی ملکیت تھا ۔میں اور میر ا ایک دوست اس گورے کے پاس ملازمت
کرتے تھے۔اس نے مجھے اپنے اس دوست سے بھی ملایا اور بتا یا کہ میرا یہ دوست
جو میرے ساتھ انڈیا سے آیا تھا اب میرے پاس ملازمت کرتا ہے۔پھر اس نے مجھے
وہ واقعہ سنایا جس کی وجہ سے اس گورے نے پورا باغ سردار صاحب کو مفت میں دے
دیا۔
جس طرح ہمارے ہاں چھلیوں کودھوپ میں سُکھایا جاتا ہے بالکل اُسی طرح
باداموں کو درخت سے اتار کر ان کے اوپر سے سبز رنگ کا چھلکا اتار کر ان کو
دھوپ میں کُھلی جگہ پر ڈال کر خشک کیا جاتا ہے۔ جو کاغذی بادام ہوتے ہیں ان
میں تھوڑا سا سوراخ کر کے ان کو سُکھایا جاتا ہے۔ سردار صاحب نے بتایا کہ
بارشوں کے موسم میں ہم رات کو باہر پڑے ہوئے باداموں کو پلاسٹک سے ڈھانپ
دیتے تھے تاکہ بارش میں وہ خراب نہ ہوں۔ ایک دن موسم اچھا تھا اور بارش کا
کوئی امکان نہ تھا ۔ہم دونوں کام ختم کرکے واپس گھر آگئے۔ ہماری رہائش وہاں
سے کافی فاصلے پر تھی اور راستہ بھی دشوار گزارتھا۔ابھی ہمیں گھر پہنچے
ہوئے تھوڑی دیر ہی ہوئی تھی کہ موسم خراب ہوگیا اور بارش ہونے کے امکانا ت
بڑھ گئے۔میں نے اپنے دوست سے کہا کہ ابھی تو موسم اچھا تھالیکن یکدم خراب
ہو گیا ہے اور آج میں نے باہر پڑے ہوئے باداموں کو ڈھانپا بھی نہیں ہے۔اگر
بارش شروع ہوگی تو سارے بادام خراب ہوجائیں گے۔ اس نے مجھے کہا کہ اتنے
تھوڑے سے بادام خراب ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا اور نقصان ہوگا بھی تو
مالک کا ہوگا ہمیں اس سے کیا غرض ۔ اس نے واپس جاکر ان باداموں کو ڈھانپنے
سے انکار کردیا۔ لیکن میرا دل مطمئن نہیں ہورہا تھا اس لیئے میں واپس باغ
کی جانب نکل پڑا۔اندھیرے دشوار گزار راستے سے ہوتا ہوا میں بڑی مشکل سے باغ
میں پہنچااور میں نے ان باداموں کو ڈھانپ دیا ۔ اسی دوران بادل آگئے اور
بارش شروع ہوگئی ۔ واپسی پر میں بھیگتا ہوا گھر پہنچا اور اس کی وجہ سے
مجھے شدید بخار ہوگیا اور اگلے دن میں کام پر نہ جاسکا ۔ گورے نے میرے دوست
سے میرے بارے میں پوچھا تو اس نے سار ا واقعہ سنا دیا۔ یہ سب سُن کر وہ
میرے پاس آیا اور مجھ سے یہ سب کرنے کی وجہ پوچھی کہ اگر تھوڑے سے بادام
خراب بھی ہوجاتے تو کیا فرق پڑتا تھا۔تم نے اتنا ذیادہ تردد کیوں کیا؟۔ تو
میں نے اسے بتا یا کہ یہ سب میرے فرائض میں شامل تھا اس لئیے میرادل مطمئن
نہیں تھا کہ میں نے اپنے فرض سے کوتا ہی کی ہے۔ جب تک میں نے اپنا کام مکمل
نہیں کیا مجھے اطمینان نہیں آیا۔
وہ گورا میرے اس عمل اس اتنا متاثر ہوا کہ اس نے یہ سارا باغ مفت میں میرے
نام منتقل کر دیا اور میں اس کا مالک بن گیا جس کی آمدنی کروڑوں ڈالر میں
ہے۔کسی بھی کام میں کامیابی کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ آپ اپنی ذمہ
داری کو کس حد تک نبھاتے ہیں۔
ان خیالات کا اظہار جناب جاوید چوہدری صاحب نے اوکاڑہ الحمرا ہال میں
منعقدہ ایک سیمینار میں کیا۔ اس سیمینا ر کا عنوان تھا ـ ’’محنت یا
قسمت‘‘۔اس خوبصورت تقریب کا انعقاد صُفہ ایجوکیشنل کمپلیکس اوکاڑہ کے جناب
ظہیر اقبال صاحب اور ڈاکٹر شہیر حسن اورKips کے جناب عابد وزیر خان نے کیا
تھا۔ مس عائشہ اشرف اس تقریب کی کوارڈینیٹر تھیں۔تقریب میں کمپیرنگ کے
فرائض پروفیسر ریا ض خاں صاحب نے سرانجام دئیے۔جناب بلال احمد اعوان جن کا
تعلق فائدہ فاؤنڈیشن سے ہے انہوں نے بھی اس سیمنار سے خطاب کیا اور کاروبار
میں کامیابی کے بہت سے راز بتائے۔
جاوید چوہدری صاحب نے اپنی گفتگو میں کامیاب کاروبار میں محنت اور قسمت کی
اہمیت پر زور دیا۔ قسمت کا تعلق ہمارے اس دنیا میں آنے اور زندگی گزارنے سے
ہے۔ ہم خوش قسمت ہیں کہ اﷲ نے ہمیں اس دنیا میں بھیجا اور اس دور میں بھیجا
جب ہمارے پاس تما م قسم کی سہولیات موجود ہیں ۔لیکن کاروبار میں کامیابی کا
انحصار قسمت سے ذیادہ محنت پر ہے۔ اپنے موقف پر ڈٹے رہنے والے لوگ کامیاب
ہوہی جاتے ہیں۔اپنے مقصد کا تعین ،ایک مؤثر ٹیم،اپنی تمام تر قوتوں کا
استعمال ،سچ بولنا،اپنے ماتحتوں کی ضروریا ت کا خیال رکھنااور اس طرح کا
کاروبار کرنا جس کی اس علاقے میں طلب ہو تو پھر آپ کو کامیابی سے کوئی نہیں
روک سکتا۔
اس تقریب میں علاقہ بھر کے تعلیمی اداروں او ر کاروباری حضرات نے شرکت کی
اور صُفہ ایجوکیشنل کمپلیکس کی خدمات کو سراہا گیاجنہوں نے اوکاڑہ کی عوام
کو یہ موقع فراہم کیا کہ وہ جاوید چوہدری صاحب کے خیالات سے مستفید ہوسکیں۔
|