ایک خوبصورت ادبی پلیٹ فارم ۔کشمیر رائٹرز فورم

تیرہ برس کی عمر میں جب میری پہلی تحریر ایک اخبارکے بچوں کے ایڈیشن میں شائع ہوئی تو میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا اور پھرتو بس تواتر کے ساتھ بچوں کے اخبارات و رسائل میں میری تحریریں شائع ہونے لگیں ،وقت کے ساتھ ساتھ بچوں کے لیے لکھنے کا رجحان کم ہوا تو ایڈیٹر کی ڈاک سے لے کر ریڈیو پاکستان اور بی بی سی اردو سروس کی نشریات تک میرے خطوط اورتبصرے شامل ہونے لگے،اس وقت میرا لکھنے کا جنون زوروں پر تھا لیکن اس وقت ایک تشنگی کا احساس بھی ساتھ ساتھ چلنے لگا ،ایک ایسے پلیٹ فارم کی کمی کا احساس کہ جو ایک نو آموز رائٹر کی صلاحیتوں کو بھی نکھارے اور اس کو ادبی دنیا میں آگے بڑھنے کے مواقع بھی فراہم کرے،میرا رجحان اب آرٹیکل اورکالم لکھنے کی جانب ہو رہا تھا لیکن اس کے لیے مجھے کوئی مناسب پلیٹ فارم اورمناسب مواقع نہیں مل رہے تھے ،اس دور میں کچھ ادبی تنظیموں سے وابستگی ہوئی لیکن وہ ادبی تنظیمیں کاغذی تنظیمیں ثابت ہوئیں اور کاغذی گھوڑے کی طرح چند قدم چل کر ہی زمین بوس ہو گئیں،ایسا بھی محسوس ہوتا تھا ہمارے جیسے اور بھی نو آموز رائٹرز تھے کہ جن میں شاید ہم سے بھی زیادہ صلاحیتیں تھیں لیکن مواقع نہ ملنے کی وجہ سے وہ گمنامی میں چلے گئے،انھیں احساسات کے ساتھ میں کچھ دلبرداشتہ سا ہونے لگا اور پھر جب الیکٹرانک میڈیا کے انقلاب کے بعد بہت سے رسائل آہستہ آہستہ بند ہونے لگے تو میرا بھی لکھنا لکھانا بہت کم ہو گیا اور پھر ایک ایسا وقت بھی آیا کہ میرا اندر کا رائٹر زندگی کے جھیل جھمیلوں میں کہیں گم سا ہو گیا اور طویل عرصے تک ایک جمود طاری رہا ،لیکن جب سوشل میڈیا کا دور آیا تو کبھی کبھی کچھ ویب سائیٹس پر چھوٹی موٹی تحریریں شیئر کرنے لگا ،پھر کچھ ادبی گروپس میں شمولیت ہوئی تو وہاں سے ہی بہت سے ادبی لوگ میری فرینڈ لسٹ میں شامل ہوئے،جن میں محترم جناب رشید احمد نعیم صا حب بھی شامل تھے،ایک دن کشمیر رائیٹرز فورم پاکستان کے حوالہ سے ان کی ایک پوسٹ دیکھی تو لگا کہ شاید یہی وہ پلیٹ فارم ہے کہ جس کی کمی میں بہت عرصے سے محسوس کررہا تھا،میرے اندر کے رائٹر نے پوری طرح سے انگڑائی لی ،رابطہ ہوا اورمیں کشمیر رائیٹرز فورم پاستان میں کے کارواں میں شامل ہو گیا اور تب سے میرے آرٹیکل اور کالم تواتر کے ساتھ مختلف اخبارات میں شائع ہونے لگے ،جس دن میں تحریر بھیجتا ہوں ،اس سے اگلے دن اخبارات میں لگ جاتی ہے،اگر دیر سے بھیجنے کی وجہ سے کوئی تحریر رہ بھی جائے تو معمولی سی یاد دہانی پر بعد میں لگا دی جاتی ہے ،کشمیر رائٹرز فورم پاکستان میں شمولیت سے ایک تو میرا کالم لکھنے کاپرانا شوق بھی پورا ہوا ہے تو اس سے بڑھ کر خوشی اس بات کی ہے کہ میں ایک ایسی تنظیم کے ساتھ وابستہ ہوا ہوں کہ جو واقعی کام کر رہی ہے اور نو آموز رائٹرز کو بھر پور حوصلہ افزائی اور مواقع فراہم کر رہی ہے،جس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ ابھی حال ہی میں ایک بالکل نئے رائٹر کی پہلی تحریر ہی پندرہ بیس اخبارات میں لگوائی گئی اور اس کی خوشی کا تصور میں اپنی اس خوشی کے ساتھ موازنے کے ساتھ کر سکتا ہوں کہ جو مجھے اپنی پہلی تحریر ایک اخبار میں شائع ہونے پر ہوئی تھی،کشمیر رائٹرز فورم پاکستان نے نہ صرف میرا لکھنے کا پرانا جنون بحال کر دیا ہے بلکہ میرے جیسے کئی پرانے رائٹرز کو ادبی دنیا میں متحرک کر دیا ہے اور ساتھ ساتھ یہ ایک جذبہ بھی ہمارے دلوں میں پیدا کیا ہے کہ ہم نے بھی رشید احمد نعیم صاحب کے ساتھ مل کر نو آموز رائٹرز کو وہ سرپرستی اور راہنمائی مہیا کرنی ہے کہ جو ہمیں اپنے ابتدائی دور میں اس طرح کا پلیٹ فارم نہ ہونے کی وجہ سے میسر نہیں آسکی تھی۔۔۔ہمارا ایک معاشرتی المیہ ہے کہ جب بھی کوئی انقلابی قسم کا کام کرتا ہے تو اس کے چاہنے والوں اور خیر خواہوں کے ساتھ ساتھ اس کے حاسدین اور ناقدین بھی پیدا ہو نے لگتے ہیں اور یقینی طور پر کشمیر رائٹرز فورم پاکستان کے ساتھ بھی یار لوگ کئی مرتبہ اسی طرح کا برتاؤ کرتے نظر آتے ہیں اور عجیب و غریب قسم کی نکتہ چینیاں سامنے آتی ہیں اور ․․․نہ کھیڈاں گے نہ کھیڈن دیاں گے․․․ والی پالیسی شرع ہو جاتی ہے لیکن مجھے یقین ہے کہ کشمیر رائٹرز فورم پاکستان کا یہ کارواں کسی بھی قسم کے تنقیدی طوفان سے گھبرائے گا نہیں اور اپنا سفر اسی رفتار سے جاری رکھے گا ،پرانے اور نئے رائٹرزز پر مشتمل پھولوں کا یہ گلدستہ ہمیشہ مہکتا رہے گا،انشاء اﷲ۔۔۔

Abid Mehmood Abid
About the Author: Abid Mehmood Abid Read More Articles by Abid Mehmood Abid: 3 Articles with 3896 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.