آج اس کوچہ میں سنتے ہیں قیامت آئی

تیری زلف پر میں اک شعر لکھ بیٹھا۔۔۔۔۔ عرصہ دراز سے یہ بات بڑی شدت سے محسوس ہو رہی ہے کہ ہمارے معاشرے میں شعراء گرمیوں میں شررارتی مچھروں کی طرح جنم لے رہے ہیں اور یہ شاعری نام کی متعدی بیماری دیکھتے ہی دیکھتے ان کو بھی لگ گئی ہے جن کا ایک دور میں اردو سے کوئی سرو کار بھی نہیں رہا ۔ جیسے ہمارے سندھ کے لاشاری بھائی ۔ گزشتہ 7 سالوں میں میں نے اپنے ایسے ہم مکتب ساتھیوں میں شاعری کے فنکارے دیکھے کہ بعض کو تو پہلے شعر کے بعد ہی فوت ہو جانا چاہیئے تھا۔ (اللہ لمبی زندگی دے سب کو ) ۔ ایسی دکھی شاعری لکھتے تھے کہ بعض سامعین تو جزبات پر قابونہ رکھ پانے کے باعث زار و قطار ہنسی ٹھٹھہ کرتے ۔ اور بعض غضبناک ہو کر گونگا سٹاپ لگاتے اور چلے جاتے ۔ (مجھ پر بھی کئی بار گونگا سٹاپ لگا ہے) ۔ مجھے پہلے تین چار سال میں تو احساس بھی نہیں ہوا کہ میرے دامن میں بیٹھا ہی مارِ آستین ہے ۔
یہ کئی ٹوٹے عاشق ہی ہیں جنہوں نے ایسے فنکار شعراء کو داد دے دے کر پروان چڑھایا ہے جنکو چند سال بعد شائد خود اپنی پر معارف شاعری کی ڈائری پڑھ کر دوسروں کی نظروں سے (کم از کم اپنی محترمہ بیگم سے ) چھپانے کی جگہیں ڈھونڈنی پڑیں (اگر زد آتش نہ کر دی ہوئی تو) ۔
آج جو میں نے واٹس ایپ پر حلقہ احباب کے سٹیٹس پر نظر کی تو ہر دوسرے کو خربوزے کا رنگ پکڑتےمحسوس کیا ۔ ایسا ہی فیس بک پر سخن ور محو محفل مشاعرہ نظر آئے ۔ یہ بات مجھ پر بجلی کی طرح گری ۔ اور سوچا کہ چلیں ان کو بتاتے ہیں کہ کلام لکھنے کا فن ہماری طبیعت میں بھی ودیعت کیا گیا ہے ۔ گو ہم نے خود ہی اس بھوت کوایک عرصہ سے پا بہ زنجیر رکھا ہے ۔ اور زبان پر قفل خود ہی لگایا ہوا ہے ۔ پس زبان کی رسم عقدہ کشائی منائی گئی ۔ اور مزاح کی نیت سے اپنا شاہکار شعر ی کلام میں نے قلم کی روشنائی سے ورق کی سلاخوں کے پیچھے نظر بند کیا۔ کلام نظر قارئین ہے :
تیری زلف پر میں اک شعر لکھ بیٹھا میری زلف نہ بچی میرا بال نہ بچا
اس پروقار شعر کو جنم لئے ابھی چند لمحات بیتے تھے کہ طبیعت کے تموج نے اچھا برا (جیسا بھی ہو) سامع کی تلاش شروع کر دی ۔ اور آخر کار یہ سعادت میرے ایک ہم جلیس کو نصیب ہوئی ۔ اور یہ گرم گرم شعر میں نے اپنے ہی دوست کو (اللہ میری مغفرت فرمائے اور سامع پر رحم) سنا ڈالا۔ پھر جو میرا انجام ہوا ۔
کچھ نہ پوچھو روبرو جا کر کسی کے کیا ہوا
اگر زیادہ ہی تجسس ہے کہ آگے کیا ہوا تو نیم حکیم ، معاون خاص شرجیل شہزاد سے درخواست کر کے دیکھ لیں۔ ضرور وہ آپ کو میرا کلام قہقہوں کی برسات میں سنائے گا۔ اور الوداع کرتے ہوئے اسکی بتیسی باہر ہوگی ۔ شائد غلطی میری ہی تھی (میں مان جاتا ہوں نہ ) ۔کاش مجھ پر بجلی گرنے سے پہلے لوڈ شیڈنگ ہوچکی ہوتی ۔
شاعر بہت حساس ہوتے ہیں ۔ تب سے میں نے توبۃ النصوح کی ہوئی ہے اور وہ دن ہے اور آج ۔ میں نے کبھی دوبارہ اس کوچہ میں قدم نہیں رکھا ۔اور اب کے رکھوں گا بھی نہیں ۔
تاکس نہ گوید بعد ازیں
آج اس کوچہ میں سنتے ہیں قیامت آئی
(ہاں اگر معاون خصوصی مجھ سے معافی مانگ لیں تو میں اپنی غزل پوری کر سکتا ہوں )

ZAFRULLAH KHAN
About the Author: ZAFRULLAH KHAN Read More Articles by ZAFRULLAH KHAN: 7 Articles with 43964 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.