زیبا ناز
کہا جاتا ہے کہ جھوٹ کے کوئی پاؤں نہیں ہوتے۔ یہ درست ہے کے جھوٹ کے پاؤں
نہیں ہوتے لیکن جھوٹ کی دوڈ بہت تیز ہوتی ہے اس کی وجہ یہ ہے کے جھوٹ سراسر
شیطان کا ہتھیار ہے اور شیطان اپنے ہتھیار کو ہر وقت ''تیز''رکھتا ہے۔ جھوٹ
ایک ایسا بیج ہے جسے اگر بو دیا جائے تو بہت سی معاشرتی ناہمواریاں اور
برائیاں جنم لیتی ہیں جیسے کے فراڈ، دھوکا دہی، دوسروں کی حق تلفی، غیبت،
چاپلوسی اور ایسے جتنے بھی الفاظ اور ان کا زہر جو ہماری زندگیوں کو متاثر
کرتا ہے سب جھوٹ کے ہی مرہون منت ہے، جھوٹ بولنے والے لوگوں کا کوئی خاص
طبقہ نہیں ہوتا، کوئی خاص عمر نہیں ہوتی اور نا ہی کوئی کسی خاص انسان سے
بولا جاتا ہے بلکہ جھوٹ ایک ایسی عادت ہے جو ہم سب میں کسی نہ کسی طرح
موجود ہوتی ہے ہم سب آپ اور میں ہمارے رشتے دار محلے دار کسی نہ کسی طرح اس
برائی میں مبتلا ہیں۔ ہم بہت عام حالات میں بڑے ہی عام انداز میں جھوٹ بول
جاتے ہیں اور ہمیں اپنی کم علمی میں اس بات کا اندازہ بھی نہیں ہو پاتا۔
بہت سارے لوگوں کو میرے اس جملے سے اختلاف ہو سکتا ہے لیکن میری یہ بحث زرا
آپکی توجہ کی محتاج ہے روزانہ ہم اپنے گھروں سکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں
میں بہت آسانی سے چھوٹے چھوٹے جھوٹ بول جاتے ہیں جو ہماری نظر میں بلکل ہی
بے ضرر ہوتے ہیں لیکن ان چھوٹے سے جھوٹوں کے بڑے بڑے نقصانات ہوتے ہیں۔کسی
کی زندگی تباہ ہو جاتی ہے کسی کا گھر اجڑ جاتا ہے کسی کی جاب چلی جاتی ہے
یا پھر کوئی اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ جھوٹ اور جھوٹے انسان کو
بہت برا مانا جاتا ہے۔ایک مسلمان کی حیثیت سے ہماری یہ زمہ داری بنتی ہے کے
ہم جھوٹ سے گریز کریں اسلام ایک سچا مذہب ہے اور ہم اس مذہب کے پیروکار تو
پھر جھوٹ بولنے سے گریز کرنا ہماری اخلاقی زمہ داری ہونے کے ساتھ ساتھ
مزہبی بھی اسلام میں قرآن اور سنت کی تعلیمات کی اہمیت سے انکار نہیں کیا
جاسکتا۔ قرآن اور حدیث کی روشنی میں بھی جھوٹ نا بولنے کا حکم بہت واضح دیا
گیا ہے۔
بلکہ ایک حدیث مبارکہ میں تو یہاں تک کہا گیا ہے کہ مومن کبھی جھوٹا نہیں
ہوسکتا۔ اس حوالہ سے قرآن کریم میں ارشاد ربانی ہے کہ
سچ کو جھوٹ کے ساتھ گڈ مڈ نہ کرو اور جان بوجھ کر حق بات کو نہ چھپاو۔
اسی طرح ایک اور مقام پرفرمایا گیا ہے کہ
بڑی خرابی ہوگی ایسے شخص کے لئے جو جھوٹا ہو نافرمان ہو۔
قرآن کریم میں ایک اور مقام پر ارشاد ربانی ہے
بیشک اﷲ ایسے شخص کو ہدایت نہیں دیا کرتا جو جھوٹا (اور) ناشکرا ہو
اس آیت کریمہ سے ہم یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جھوٹ کتنی بڑی برائی ہے اور
اس کے انسانی زندگی پہ کتنے برے اثرات ہو سکتے ہیں کہ اللّہ تعالٰی جو اپنے
بندوں کو معاف کرنے کے لیے ہر وقت تیار رہتے ہیں اس ایک گناہ کی وجہ سے
اپنے بندے کو بے یار و مددگار چھوڑ دیتے ہیں ایک اور جگہ ارشاد ربانی ہے:
اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمہاے پاس کوئی سی خبر لائے تو اس کی تحقیق
کیا کرو کہیں کسی قوم پر بے خبری سے نہ جا پڑو پھر اپنے کیے پر پشیمان ہونے
لگو۔
اس فرمان الٰہی میں انسانوں کے لیے بہت واضح ہدایت ہے کہ کسی قوم کو کسی
فاسق کی کہی بات پہ تکلیف نہیں دینی چاہئیے بلکہ ہر بات کی تصدیق بہت ضروری
ہے تصدیق کے بغیر کسی کو نقصان پہنچانا سختی سے منع ہے۔ اللّہ کے حبیب نے
بھی جھوٹ کو ایک برا عمل قرار دیا ہے نبی پاک صلی اللّہ علیہ وسلم فرماتے
ہیں
ابوہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول کریمؐ نے فرمایا کہ منافق کی تین پہچانیں
ہیں: جب بولے تو جھوٹ بولے اور جب وعدہ کرے تو خلاف کرے جب امین بنایا جائے
تو خیانت کرے۔ (صحیح بخاری)
مطلب جھوٹا انسان منافق کی فہرست میں ڈال دیا جاتا ہے ایک اور حدیث ہے:
عبدالرحمن بن ابی بکرہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ؐنے تین
بار فرمایا کہ میں تم لوگوں کو سب سے بڑا گناہ نہ بتاوں؟ لوگوں نے جواب:
دیا ہاں یا رسول اﷲ! آپ ؐنے فرمایا: اﷲ کے ساتھ کسی کو شریک بنانا والدین
کی نافرمانی کرنا اور آپ ؐ تکیہ لگائے بیٹھے ہوئے تھے فرمایا کہ سن لو جھوٹ
بولنا اور بار بار اس کو دہراتے رہے یہاں تک کہ ہم نے کہا: کاش! آپؐ خاموش
ہو جاتے۔ (صحیح بخاری)
اسلام میں سچ اور جھوٹ کو اچھائی اور برائی، حق و باطل سے تعبیر کیا گیا ہے
حضرت عبداﷲؓ کہتے ہیں کہ نبی کریم ؐنے فرمایا کہ سچائی نیکی کی طرف اور
نیکی ہدایت کی طرف رہنمائی کرتی ہے اور آدمی سچ بولتا رہتا ہے، یہاں تک کہ
وہ صدیق ہوجاتا ہے اور جھوٹ بدکاری کی طرف اور بدکاری دوزخ کی طرف لے جاتی
ہے اور آدمی جھوٹ بولتا رہتا ہے، یہاں تک کہ وہ اﷲ تعالیٰ کے نزدیک کاذبین
میں لکھا جاتا ہے۔ (صحیح بخآری)
اگر ہم گہرائی سے مشاہدہ کریں تو سال میں ایک ایسا دن آتا ہے جسے اپریل فول
کا نام دیا جاتا ہے پہلے یہ تہوار غیر اسلامی معاشروں میں بڑے فخر سے منایا
جاتا تھا لیکن آج فیشن کے طور پہ اسلامی معاشروں میں بھی اس کا انتظار بہت
شدت سے کیا جاتا ہے۔ یہ جھوٹ بولنے کا عالمی دن ہوتا ہے جس میں کوئی بھی
کسی کے بھی ساتھ کسی بھی حد تک جا کے مزاق کر سکتا ہے یہاں تک کے اگر کسی
کی موت کی بھی جھوٹی خبر پھیلا دی جائے تو اسے اپریل فول کہہ کے مزاق میں
اڑا دیا جاتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کے بہت سے لوگوں کی اموات صرف اور صرف اس
ایک غیر اسلامی تہوار کی وجہ سے ہوئی ہیں۔جھوٹ بہت سی برائیوں کی جڑ ہے جو
شخص ایک بار جھوٹا ثابت ہو جائے اس شخص پہ کوئی بھی زندگی بھر اعتبار نہیں
کرتا۔ ایسے انسان کی۔ سے کو کوئی اہمیت نہیں دی جاتی ہے ایسے انسان کو فاسق
اور شر پھیلانے والا کہا جاتا ہے اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم نا صرف
اپنی جھوٹ کی عادت سے گریز کریں بلکہ اپنی آنے والی نسلوں کو بھی اس سے
محفوظ کرنے کی کوشش کریں۔کیونکہ جھوٹ بولنے کے نقصانات زنا سے بھی زیادہ
ہوتے ہیں سو اپنے معاشرے کو اس غلاضت سے بچانا ہماری ذمہ داری ہے
|