غیبت۔۔۔ اخلاقیات کا جنازہ

تحریر:درنجف،بھلوال
غیبت یعنی بد گوئی۔ پیٹھ پیچھے برائی کرنا۔ ہم کسی محفل میں یا غمی خوشی کے موقع پر ایکدوسرے سے مل بیٹھتے ہیں تو ہم اکثر بداخلاقی کا مظاہرہ کر جاتے ہیں کسی سے ہماری ان بن ہو جائے اس کی پیٹھ پیچھے برائی کرنا تو ہم پر لازم ہے ہم نے کبھی اس کی اچھائیوں کو یاد نہیں کرنا بلکہ اس کے عیبوں پر نظر رکھنی ہے۔ اس کی کمزوریوں کو نشانہ بنانا اپنا اولین فرض سمجھتے ہیں۔ اس کریہہ فعل سے بہت سارے فسادات جنم لیتے ہیں۔ تعلقات میں دراڑیں پڑنے کا خدشہ ہوتا ہے۔بدگمانیوں کا خدشہ ہوتاہے۔ بدگوئی کرنے سے وقتی طور پر غصہ نکل جاتا ہے۔ جس کی غیبت کی جا رہی ہے سننے والا یا تو اس کے کان بھرے گا یا اس سے حد درجہ بدگمان ہو جائے گا۔ غیبت کرنے والا تو مجرم ہے ہی لیکن سننے والا بھی مجرم قرار دیا گیا ہے۔ وجہ یہ بھی ہو سکتی کہ جب سننے والا نا ہو گا تو غیبت کرنے والا بھی نہیں ہو گا۔ بہر نوع اﷲ تعالی ہمیں اس شر سے محفوظ فرمائے۔ سرکار دو عالم حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے شب معراج کے موقع پر ایسی قوم دیکھی، جن کے ناخن تانبے کے تھے اور وہ اپنے سینے اور چہروں کو نوچ رہے تھے۔ سرکار دو عالم حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے وجہ دریافت کی تو جبرائیل نے فرمایا کہ یہ قوم بد گوئی کیا کرتی تھی جس کی وجہ سے اس حال کو پہنچے۔ کیا تانبے کے ناخنوں سے آپ اپنا چہرہ نوچ سکتے ہیں؟ نہیں؟ تو غیبت کرنا چھوڑ دیجیئے۔ اسی طرح ایک اور جگہ فرمان مصطفے ہے کہ! جس نے اپنے بھائی کی غیبت کی گویا اس نے مردار کھایا۔

شب معراج کے موقع پر جب آپ عرش پر تشریف لے گئے تو ساتھ جنت اور دوزخ کو بھی دیکھا اور وہاں غیبت کرنے والے عذاب میں مبتلا پائے گئے۔ وہ مردار گوشت کھا رہے تھے۔ حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے پوچھا تو بتایا گیا۔
ہٰوُلَاءِ الَّذِیْنَ یَاکُلُوْنَ لُحُوْمَ النَّاسِ.
’’یہ وہ لوگ ہیں جو لوگوں کا گوشت کھایا کرتے تھے یعنی چغل خور تھے‘‘۔
بدکاری سے بھی مکروہ فعل غیبت ہے جس کی معافی نہیں جب تک کہ اسے معاف نا کیا جائے خدا معاف نہیں فرماتا۔غیبت ایسا گناہ ہے جو غیبت کرنے والے کی نیکیاں کھا جاتا ہے جو شخص غیبت کرتا ہے روز قیامت اسے جہنم کی آگ کھانی ہو گی۔ ہر مسلمان غیبت کی تباہ کاریوں سے واقف ہے مگر جاننے کے باوجود یہ گناہ کرنے پر مصر ہے۔ بدگوئی کرنا کسی کی عزت و آبرو پر حملہ کرنے کے برابر ہے اسے پیٹھ پیچھے کمتر حقیر ثابت کرنا اﷲ تعالی کی ناراضگی کا موجب ہے۔ اسی لئیے اس فعل کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ غیبت کرنے والا صرف اپنے لئیے جہنم کے دروازے کھولتا ہے۔ غیبت کی چار قسمیں ہیں۔ غیبت کرنا کفر ہے۔ غیبت کرنا منافقت ہے۔ غیبت کرنا معصیت ہے۔غیبت کرنا جائز ہے۔

پہلی قسم۔
غیبت کرنا کفر ہے۔
کوئی شخص اگر کسی دوسرے کی غیبت کرتا ہے اور اسے منع کیا جاتا ہے تو اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے کہتا ہے کہ میں نے غیبت نہیں کی میں نے تو سچ بولا ہے۔ یہاں غور کیجئیے کہ اس شخص نے اﷲ تعالی کی حرام کردہ شے کو حلال قرار دیا اور وہ کافر ہے الغرض کہ غیبت کرنا کفر ہے۔

دوسری قسم۔
غیبت کرنا منافقت ہے۔
غیبت کرنے کو منافقت اس لئیے کہا کہا گیا ہے کہ جس شخص کی غیبت کی جا رہی ہو وہ فطرتا نیک و پارسا ہے جبکہ غیبت کرنے والا اس بات سے واقف بھی ہے تو وہ منافق ہے لہذا غیبت کرنا منافقت ہوئی۔

تیسری قسم۔
غیبت کرنا معصیت ہے۔جانتے بوجھتے ہوئے کہ غیبت کرنا معصیت ہے مگر پھر بھی وہ دوسرے کی غیبت کر رہا ہے اور نام لے کہ غیبت کر رہا تو اس صورت میں غیبت کرنا معصیت ہے اور وہ شخص گنہگار ہے۔

چوتھی قسم۔
غیبت کرنا جائز ہے۔یہاں غیبت کرنے کو جائز قرار دیا گیا ہے بلکہ ثواب کا باعث بھی ہے مگر اس بات پر غور کیجئیے گا کہ فسق و فجور کا مرتکب شخص کے افعال کا تذکرہ کرنا اس کے برے کاموں کا تذکرہ کرنا جائز ہے تاکہ لوگ اس سے بچیں۔ حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا فاجر کے برے افعال کا تذکرہ کرو کہ لوگ اس سے دوری اختیار کریں۔غیبت کرنا حرام ہے۔ غیبت سننے والا اگر اس غیبت کرنے والے کے قول کو رد کر دے اور اسے اس گناہ سے باز رہنے کو کہے اور وہ باز نہ آئے تو اس پر لازم ہے کہ وہ اس محفل کو چھوڑ دے۔ کیونکہ جس طرح غیبت کرنے والا جوابدہ ہو گا غیبت سننے والا بھی قیامت کے دن جوابدہ ہو گا۔ غیبت کا عفریت ہمارے معاشرے پر مسلط ہے اور ہر ایک اس کی گرفت میں ہے۔ ہم غیبت کرتے ہیں اور کہتے ہیں فلاں نے یہ کیا اب بات کروں تو غیبت ہو جائے گی تو جناب آپ نے غیبت کردی۔ جتنا ممکن ہو اس گناہ سے بچنا چاہیے اور اخلاقیات کا جنازہ نکالنے سے باز رہنا چاہیے۔
 

ALLAH DITTA (AD)
About the Author: ALLAH DITTA (AD) Read More Articles by ALLAH DITTA (AD): 15 Articles with 19804 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.