یہ نئے زمانے کا دور ہے یہاں جذبات کا کیا کام؟
روبوٹ کبھی نفرت و الفت نہیں کرتے.
سائنس کے اس ترقی یافتہ دور نے انسانوں کو جتنی جسمانی سہولتیں دیں اس سے
کئی زیادہ خراج نت نئی ذہنی, جسمانی, روحانی اور اخلاقی بیماریوں کی صورت
میّں ان سے لے رہہی ہے.
عدم برداشت بھی ان میں سےایک اخلاقی بیماری ہے. افرا تفری اور مشینی انداز
نے انسان کو سب آسائشیّں دے کر اس سے سکون اور اطمینان چھین لیا ہے. بچہ ہو
یا بڑا. جوان ہو یا بوڑھا جسے دیکھو عجیب بے چینی میں مبتلا ہے. کسی کے پاس
تحمل سے کسی کی بات سننے کا وقت نہیں. سن بھی لیں تو بیزاری اور اکتاہٹ سے
جواب دینا کہ آئندہ اگلے بندے کی مخاطب کرنے کی جرأت ہی نہ ہو. سڑکوں پہ
نکلو تو ہر ایک جلدی میں,کوئی ٹریفک سگنل توڑ رہا ہے کوئی اوور ٹیک کر کے
آگے نکلنے کی کوشش کر رہا ہے,اور کوئی تو اتنا بے صبرا ہوتا ہے کہ بند
پھاٹک کو دیکھ کر بھی اپنی سائیکل یا موٹر سائیکل لے کر منہ اٹھائے ریلو
لائن لراس کرنے کے چکر میں جان تک سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے.
یہ سب لوگ اگر برداشت کا مادہ رکھتے ہوئے ٹریفک قوانین کا پاس رکھ کر سفر
کریں تو حادثات سے بھی بچیں اور ذہنی اذیت سے بھی. سائنس کی ترقی نے ہر نسل
اور ہر طبقے کے اندر عجیب بے چینی سی بھر دی ہے نفسا نفسی نے قوت برداشت
اور تحمل کو ایسے غائب کیا جیسے گدھے کر سر سے سینگ. وقت کی کمی, کام کی
زیادتی, اور ذہنی الجھنوں نے سب لوگوں کو ذہنی الجھنوں میں ڈال رکھا ہے.
اور اسی وجہ سے مورثی بیماریوں کی طرح ہم اپنی آئندہ آنے والی نسل کو بے
صبرا پن اور عدم برداشت جیسے اوصاف منتقل کر رہے ہیں..
ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بلا شبہ روحانی اور اخلاقی اوصاف کا مرقع
تھے. اور ان کی زندگی ہمارے لئے عملی نمونہ ہے. انہوں نے کفار کے مظالم.
طعنے, اور ہر ہر برائی کے بدلے جس صبر, برداشت اور تحمل کا مظاہرہ کیا,تب
بھی جب کفار ان پر غالب تھے اور تب بھی جب فتح مکہ کے بعد اللہ نے ان کو
کافروں پر غالب فرمایا, چاہتے تو ہر ظلم کا جواب دے سکتے تھے مگر ب کو معاف
فرما کر رہتی دنیا تک یہ مثال قائم کی کہ برداشت تو یہ ہی ہے کہ طاقت کے
باوجود بدلہ نہ لینا.
اس سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ اس برداشت کو اپنے مزاج کا حصہ بنائیں.آپ نے
لوگوں سے اکثر سنا ہوگا. "ویسے تو ہم بہت متحمل مزاج ہیں,ہم میں بہت برداشت
ہے مگر ہم سے *فلاں* بات برداشت نہیں ہوتی. کسی سے اونچی آواز. کسی سے جھوٹ
اور کسی کا پیمانہ برداشت اونچی آواز سے چھلک پڑتا ہے...
لیکن یہاں ہمیں یہ ہی تو سیکھنا ہے کہ جس چیز سے آپ کی برداشت کا خول چٹخ
جائے وہ ہی جگہ ہے جہاں آپ کو برداشت کرنا ہے. غصہ نہیں کرنا.اور اگر آپ اس
مقام پر برداشت کر رہے ہیں تو ہی آپ اہل برداشت ہیں ورنہ نہیں...
قرآن پاک میں سورہ والعصر میں اللہ پاک نے واضح فرما دیا ہے *"عصر کے وقت
کی قسم انسان خسارےمیں ہیں سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور صالح عمل
کرتے رہے اور آپس میں حق بات کی تلقین اور صبر کی تاکید کرتے رہے* {العصر}
یقینا صبر کی تاکید وہی کرتے ہیں جو خود صبر کرنے والے ہوتے ہیں *صبر* ,جو
برداشت سے بھی بہت آگے کا درجہ ہے. یقینا آج کل کے دور میں یہ وصف ناپید
نہیں تو کم یاب ضرور ہے.
صبر اور برداشت میں تھوڑا فرق ہے.برداشت کرنے میں ہم چپ کر جاتے ہیں کسی کو
جواب نہیں دیتے سہ جاتے ہیں مگر دل کے اندر کہیں چبھن ضرور رکھتے ہیں.
زیادتی کرنے والے کے بارے میں تلخی ضرور ہوتی ہے جو ہم کو بے چین رکھتی
ہے,زیادتی کرنے والے سے نہ سہی اپنے حمایتیوں سے سہی ہم شکوہ کر جاتے
ہیں......... مگر صبر میں ہمارا من شانت ہوجاتا ہے,جب صبر آجاتا ہے تو دل
میں پھانس رہتی ہی نہیں,ایک بےنیازی سی وجود کا احاطہ کر لیتی ہے. ہم اللہ
کے لئے معاملہ یکسر بھول جاتے ہیں یوں, گویا وہ ہوا ہی نہیں....پھر۔۔۔ پھر
ہم شکوہ بھی نہیں کرتے.اور تقدیر کے آگے سر خم کر دیتے ہیں...فیصلہ کرنے
والے کے فیصلے کو تسلیم کر لیتے ہیں....
اور.... ہمارے رب کو ہم سے صبر ہی درکار ہے.. اور اس نے واضح کر دیا ہے کہ
ہر وہ شخص *خسارے* میں ہے جو صابر نہیں.
اور ہم ایسے لوگ ہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ ہم برداشت اور بردباری سے دور
ہوتے جا رہے ہیں تو *صبر*؟؟ اُس کا مقام تو بہت بلند ہے بہت آگے ہے. اور رب
کائنات کو مقصود و مطلوب ہے اور شافع کونین کی پوری زندگی عفو درگزر,
بردباری, تحمل,برداشت اور صبر کا عملی نمونہ بھی ہے...
مگر افسوس ہم نے کچھ سبق نہیں لیا ان کی زندگی سے.
بقول شاعر!
*تیرے حسن خلق کی اک رمق میری زندگی میں نہ مل سکی*
*میں اسی میں خوش ہوں کہ شہر کے دروبام کو تو سجا دیا۔
|