یادِ رفتگاں ......فاطمہ ثریا بجیا ایک شفیق اور سحر انگیز شخصیت

زندگی اور موت ایک ایسی حقیقت کا نام ہے کہ جس سے انکار عقلِ انسانی سے ماوراہے۔ اولالذکر ایک گراں قدر تحفہ ہے جو بس ایک بار ہی ملتا ہے جو کوئی اس تحفے کی قدرومنزلت جانتا ہے وہ اس کی عزت و تحسین کرتا ہے اور اسے اس طرح بسر کرتا ہے کہ آنے والے زمانے اس کی مثال دیتے ہیں اور جو اس کی قدر نہیں کرتا وہ بھی اسے جھیلتا تو ضرور ہے لیکن اس تحفے کے کھوئے جانے پر مٹی کے ساتھ بس مٹی ہوجاتا ہے اور اسے ہوا کے جھونکے کی طرح فراموش کردیا جاتا ہے۔ زندگی کا تسلسل درحقیقت انہی ظاہر اور پوشیدہ رازوں کا مجموعہ ہے جن سے انسان اس دنیا میں اپنے مختصر قیام کے دوران نبردآزما رہتا ہے۔ صاحبِ مقابلہ اسے صرف جھیلتے نہیں بلکہ اس کی تلخیوں میں ڈوب کر گوہر ِ نایا ب تلاش کرکے اس دنیا میں اپنا نام ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رقم کرا جاتے ہیں جب کہ ثانی الذکر اس حقیقت کا نام ہے جسے ہر کسی کو چکھنا ہے (کل نفس ذائقۃالموت)۔

یوں تو اس کائنات کا نظام ناجانے کب سے جاری و ساری ہے اور نامعلوم کب تک چلتا ہی رہے گا۔تاہم انسان جواس نظام کا حصہ ہے، ہمیشہ اپنی جبلی خاصیتوں کو وا کر نے کی جستجو میں سرگرم و بے چین رہا، اپنی اسی متحرک اور متجسس جبلیت کے بدولت کئی واقعات و حادثات کا شکار بھی ہوتا رہا اور اپنی عظمت کا اعتراف بھی کراتا رہا، نیز تاریخ کا مطالعہ کرنے سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ ابتدائے آفرینش ہی سے انسان اپنی فن کاری کے ذریعے ایک دوسر ے کو محظوظ کرنے کے طریقے ڈھونڈتارہا ہے۔ زمانہ قبل از تاریخ اور پتھر کے دور کا انسان بھی رات کو جب آگ جلا کر اس کے اردگرد بیٹھتا تودن بھر شکار کی غرض سے کی جانے والی کوششوں کو ایسی حرکا ت و سکنات کے ذریعے پیش کرتا کہ دوسرے اس سے لطف اندوز ہوتے، یہ تفننِ طبع کا ذریعہ تو تھا ہی،ساتھ ہی ساتھ ایک خاص صنفِ ادب کی طرف پہلا قدم بھی تھا اور پھر جب انسان متمدن دنیا کا حصہ بنا تو اس نے دوسروں کی زندگی میں خوشیاں بھرنے کے لیے اسٹیج پر ویسی ہی حرکات و سکنات کا مظاہرہ کرنا شروع کیا جو عہدِ قدیم کا انسان نہ جانتے ہوئے بھی کیا کرتا تھا لیکن اب چونکہ انسان مہذب ہو چکا تھا، اس نے پڑھنا اور لکھنا سیکھ لیا تھا اس لیے اس نے اسے ایک خاص صنف یعنی ’ڈرامے‘کا نام دے دیا۔ چنانچہ مختلف ادوار میں مختلف زبانوں میں ڈرامے لکھے گئے یہاں تک کہ اردو ادب میں بھی ڈرامہ متعارف ہوا لیکن ابتدا میں اچھے ڈرامے اس لیے نہ لکھے جاسکے کہ اس فن کو متعارف کرانے والوں کا مقصد محض سرمائے کا حصول تھا تاہم رفتہ رفتہ مغربی ڈرامے کے زیرِ اثر اردو ڈرامہ نے نا صرف ترقی کی بلکہ آج دنیا کے تمام زبانوں میں لکھے جانے والے ڈراموں کی صف میں برابر کھڑا ہے۔

بیسویں اور اکیسویں صدی کے چند بڑے ڈراموں نگاروں میں ایک نام فاطمہ ثریا بجیا کا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ میں اپنی زندگی میں ان سے کبھی نہیں ملالیکن ان کی تحریریں اس قدر قد آور اور متاثر کن لگیں کہ کبھی یہ احساس ہی نہیں ہوا کہ میں ان سے نہیں ملا لیکن اب جب کہ وہ اس دارِ فانی سے کوچ کر گئیں تو احساس ہو ا کہ کا ش ایک بار تو کراچی جاکر ان سے مل لیا ہوتا اور ان سے ادب آداب کی بات کر لی ہوتی۔ میں نے یہا ں ادب کے ساتھ آداب کا لفظ بطور مہمل نہیں لگایا بلکہ مدعا ان کے ایک خاص ثقافت سے تعلق کو ظاہر کرنا ہے جہاں اردو ادب کی تو ہر کوئی بات کرتا ہی ہے لیکن آداب بھی سکھائے جاتے ہیں اور ملحوظِ خاطر رکھے جاتے ہیں۔
فاطمہ ثریا بجیا یکم ستمبر ۰۳۹۱؁ء میں ہندوستان کے شہر حیدرآباد میں پیدا ہوئیں اور اپنے دس بہن بھائیوں میں سب سے بڑی تھیں، دیگر بہن بھائیوں میں انور مقصود ایک ادیب کے طور پر جانی پہچانی شخصیت ہیں جب کہ زبیدہ آپا ٹیلی وژن پروگراموں میں ٹوٹکے بتانے اور مزے مزے کے کھانے سکھانے اور بنانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتیں۔بجیا کا خاندان ہندوستان کے معروف خاندانوں میں شمار ہوتاتھا۔ ان کے نانا مزاج یار جنگ اپنے زمانے کے معروف شعرا میں شمار ہوتے تھے جب کہ دادا قاضی مقصود حسین بھی نامی گرامی شخصیت تھے۔ ان کے والدقمر مقصود حمیدی علی گڑھ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل تھے جن کی شادی افسر خاتون سے انجام پائی تھی۔

تقسیم ِ ہند کے وقت بجیا ۷۱ سال کی تھیں، تاہم ان کے خاندان نے حیدرآباد ہی میں قیا م کا فیصلہ کیا تا وقت کہ ستمبر ۸۴۹۱؁ء میں جب حیدرآباد دکن کو بھارتی فوج نے حملہ کرکے زبردستی بھارت کا حصہ بنادیا تو بجیا کا خاندان بھی ہجرت پر مجبور ہوا۔ان کے والد اپنے ساتھ کتابوں کا بیش بہا خزانہ بھی لائے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ بے معنی نہ ہو گا کہ بجیا نے کسی درسگاہ سے باقاعدہ تعلیم حاصل نہیں کی تھی لیکن وہ تعلیم و تہذیب کی ایک درس گا ہ تھیں۔ ان کے اپنے بیان کے مطابق ان کے ادبی سفر کا آغاز ریڈیو سے ہوا اور ٹیلی وژن پر اختتام پذیر ہوا۔بجیا نے ۶۶۹۱؁ء میں اپنا فنی اور تخلیقی سفر پاکستان ریڈیو سے شروع کیا اور ٹیلی وژن کی آمد کے ساتھ ہی وہ اس سے منسلک ہو گیئں اور آخر دم تک اس تعلق کو قائم رکھا۔ وہ سب سے پہلے آغاناصر کے ڈرامے میں رونما ہوئیں۔ اس کا ذکرکرتے ہوئے زاہدہ حنا اپنے کالم ’نرم گرم‘ میں بحوا لہ آغا ناصر لکھتی ہیں کہ’بجیا کا ٹیلی وژن سے پہلا تعلق لکھنے والی کی حیثیت سے نہیں بلکہ ایک اداکارہ کی حیثیت سے قائم ہوا‘اور اس کے بعد وہ اسی سلسلے سے ہر دو طرح سے وابستہ ہو گیئں یعنی اپنی ادا کاری کے جو ہر دکھانے کے ساتھ ساتھ ڈرامے لکھنے بھی لگیں۔ انہوں نے اسٹیج ڈراموں میں بھی کام کیا اور پھر اپنی تمام تر توجہ ڈرامہ نویسی کی طرف مرکوز کردی۔ ان کا پہلا لکھا ہوا ڈرامہ ’مہمان‘ تھا۔بجیا کے ڈراموں کا تجزیاتی جائزہ لینے سے یہ بات اظہر من الشمس ہو جاتی ہے کہ ان کی تحریریں اس معاشرت کا آئینہ ہیں جہاں انہوں نے زندگی کے شب و روز گزارے اور اپنے ارد گرد کے ماحول کو اپنی تحریروں میں سمونے کی بھرپور کوشش کی۔ان کے بہت سے ڈراموں میں مثلاََ: عروشہ، افشاں، شمع اورتصویروغیرہ میں بڑے خاندانوں کے مسائل کو نہایت عمدگی سے پیش کیاگیا ہے۔ ان کا خاص کارنامہ جو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا اور جس کا ثمر بعداز موت بھی ملتا رہے گا وہ، ’خواتین کے میلا‘، نامی پروگرام ہے۔

بجیا اپنی نجی زندگی میں نہایت ہی شفیق، نرم دل اور دردِ دل رکھنے والی خاتون تھیں۔ میرے نزیک یہ شاید ان کو ودیعیت ہو ا تھا کیونکہ والدین کے انتقال کے بعدیہ بجیا ہی تھیں جنہوں نے اپنے بہن بھائیوں کی ایک ماں کی طرح پرورش کی۔ ان کے چھوٹے بھائی اس پر مہر ثبت کر چکے۔ وہ کہتے ہیں کہ ہمیں ہمارے ماں باپ کے نہ ہونے کا کبھی احساس نہ ہوا لیکن ان کے انتقال پر ایسا لگا جیسے ہماری ماں ہم سے جدا ہو گئی ہے۔ٹیلی وژن کے معروف اداکار قاضی واجد نے انہیں کچھ یو ں خراجِ تحسین پیش کیا، ’انہوں نے کبھی زندگی میں تھکن کا احساس نہیں ہو نے دیا‘ اور بقول ظہیر خان ’وہ تہذیب،کلچر اور ثقافت کا ایک گھنا درخت تھیں، تہذیب و ثقافت سب انہی سے سیکھا‘۔

بجیا کے ڈراموں کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہ فنی اعتبار سے بھی نہایت مضبوط ڈرامے ہیں جہاں آغاز سے لے کرنقطہ ئ عروج اور انجام تک ناظر ڈرامے میں مکمل طور پر مگن رہتا ہے۔ ان کے کردار معاشرے کے چلتے پھرتے کردار ہیں اور جب وہ ڈرامے میں تصادم کی صورت پیدا کرتی ہیں تو اسے نقطہئ عروج تک لے جاتی ہیں جس سے ناظرین کی دلچسپی اور بھی بڑھ جاتی ہے۔پس مختصراََ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ بجیا کے ڈرامے معاشرے کی جیتی جاگتی تصویریں ہیں۔

بجیاکو اپنی قوم کی بہو بیٹیوں سے بھی بے حد لگاؤ تھا اسی لیے انہوں نے آرٹ اور کرافٹ کا سہارا لے کر ناجانے کتنی بچیوں کو کھیل ہی کھیل میں نہ صرف یہ کہ گڑیائیں بنانا سکھا دیں بلکہ معاشرے میں زندہ رہنے کے لیے جن بنیادی چیزوں کا علم ہو نا چاہیے وہ بھی سکھا دیا۔ اس کی غالباََ وجہ یہ رہی ہوگی کہ چونکہ ان کی اپنی عائلی زندگی ناشگواری کی بدولت اختتام پذیر ہوئی اس لیے وہ چاہتی ہوں کہ ان کے ارد گرد پل بڑھ کر جوان ہونے والی بیٹیاں اس کرخت اور تلخ تجربے سے نہ گزریں اور اس قابل ہوں کہ اپنی دیکھ بھال کر سکیں۔ یہی نہیں ان کی قوم و ملت سے محبت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ انہوں نے ۵۶۹۱؁ء کی جنگ کے دوران مقبول ہونے والے ملی نغموں اور ترانوں کو ’جنگ ترنگ‘ کے نام سے مرتب کیا۔چنانچہ ان کی ملی اور علمی وادبی خدمات کے اعتراف میں انہیں کئی قومی اور بین الاقوامی تمغوں سے نوازا گیا جن میں تمغہ حسنِ کارکردگی(۷۹۹۱)، ہلالِ امتیاز(۲۱۹۱) اور جاپان کا اعلیٰ سول ایوارڈ بھی شامل ہے۔ان ایوارڈز کے علاوہ انہوں نے سندھ کے وزیرِ اعلیٰ کی مشیر برائے تعلیم کی خدمات بھی سرانجام دیں۔

فاطمہ ثریا بجیا ایک عرصے سے علیل تھیں لیکن بڑی باہمت خاتون تھیں۔ بیماری کا نہایت بہادری سے مقابلہ کیا لیکن اس حقیقت سے کوئی مفر اور مکر نہیں کہ جب اجل آتی ہے تو پھر کوئی اس کی تدبیر نہیں کر سکتا ہر ایک کو اس کا ذائقہ چکھنا ہے کیونکہ ہمیں وہیں لوٹ کر جانا ہے جہاں سے ہمارا ورود ہوا ہے۔یہ انسانی زندگی کا ایک ایسا موڑ ہے جہاں پہنچ کر انسان بے بس اور مجبور ہو جاتا ہے نیز انسان تقدیر کے مقابلے میں رنج و الم کی تصویر بن جاتا ہے اور آنسو بہانا اس کے فطری ردِ عمل کے طور پر سامنے آتا ہے۔بالآخرایک طویل علالت کے بعد ۵۸ سال کی عمر پاکربجیا شہرِ قائد میں ۰۱ فروری ۶۱۰۲؁ء کو اس جہانِ فانی سے کوچ کر گئیں (اناللہ وانا الیہ راجعون)۔
سب کہاں کچھ لالہ وگل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں
 

Afzal Razvi
About the Author: Afzal Razvi Read More Articles by Afzal Razvi: 118 Articles with 198689 views Educationist-Works in the Department for Education South AUSTRALIA and lives in Adelaide.
Author of Dar Barg e Lala o Gul (a research work on Allama
.. View More