ہندوستان میں تقریباً ایک ماہ سے CAA، NPR اور NRC کے
خلاف احتجاجات ہورہے ہیں۔ ہندوستانی قوانین کے مطابق ہر شخص کو یہ حق حاصل
ہے کہ حکومت کے کسی فیصلہ کے خلاف پرامن طریقہ پر احتجاج کرے، مگر بھارتیہ
جنتا پارٹی کی مرکزی حکومت اور بعض ریاستی حکومتیں ہندو مسلم ایکتا سے چل
رہی اس تحریک کو کچلنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑ رہی ہیں، مظاہروں کو
روکنے کے لئے جگہ جگہ دفعہ ۱۴۴ لگارکھی ہے، حالانکہ قوانین کی دھجیاں اڑاکر
یوپی کی انتظامیہ نے بعض جگہوں پر گزشتہ دنوں بھارتیہ جنتا پارٹی کے نیتاؤں
کی سرپرستی میں CAA کی حمایت میں مظاہرہ کرنے کی اجازت دی۔ ہندوستان جیسے
سیکولر ملک میں انتظامیہ کی دوغلی پالیسی قابل مذمت ہے۔ ہندوستان کی میڈیا
بھی حکومت کے اشارہ پر سچی خبر منظر عام پر نہیں لاتی ہے، بعض ٹی وی چینل
مکمل طور پر حکومت کے غلام بن گئے ہیں، صرف حکومت کی بات بولتے ہیں اور
حقائق چھپاکر اپنی مرضی کے موافق یا مخالف چھوٹی بات کو بڑی اور بڑی بات کو
چھوٹی پیش کرنے کے عادی بن گئے ہیں حالانکہ ہندوستانی اور عالمی قوانین کے
پیش نظر میڈیا کو حقائق پر مبنی خبریں نشر کرنی چاہئے۔ انتظامیہ وقتاً
فوقتاً انٹرنیٹ بند کرکے عام آدمی کو اپنی آواز دوسروں تک پہنچانے سے روک
دیتی ہے حالانکہ سپریم کورٹ نے بھی تسلیم کیا ہے کہ موجودہ دور میں انٹرنیٹ
انسان کی ضروری اشیاء میں سے ایک ہے۔
اترپردیش کی حکومت نے عام لوگوں کی آواز کو دبانے کے لئے جہاں سرکاری
افسران کے عہدوں کا ناجائز استعمال کیا ہے وہیں پولیس کے ذریعہ بھی عام
لوگوں پر ایسے مظالم ڈھائے ہیں کہ اس کی نظیر اترپردیش میں عنقریب ملنا
بظاہر مشکل ہے۔ صرف اترپردیش میں تقریباً ۲۰ لوگ جاں بحق ہوئے اور سیکڑوں
لوگ زخمی ہوئے۔ پرامن مظاہروں میں شرکت کرنے والے ہزاروں افراد کو گرفتار
کرکے انہیں جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے بند کرکے ان پر طرح طرح کی دفعات
لگادی گئی ہیں اور ابھی تک انہیں ضمانت پر رہا نہیں کیا گیا ہے۔ گرفتار شدہ
افراد میں بعض نابالغ بچے بھی ہیں۔ ہر سیکولر انسان CAA قانون کو ملکی
دستور کے مخالف مان رہا ہے اسی لئے بھارتیہ جنتا پارٹی کے نیتاؤں کی قیادت
میں CAA کی حمایت میں مظاہروں میں جم غفیر نظر نہیں آتا ہے، اس کے برعکس
ملک کے چپہ چپہ پر لاکھوں کی تعداد میں ہندو اور مسلمانوں نے جمع ہوکر CAA،
NPR اور NRC کے خلاف مظاہروں میں شرکت کی ہے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ
وطالبات اور شاہین باغ (دہلی) میں عوام الناس کی جانب سے ایک ماہ سے زیادہ
چل رہے پرامن احتجاج نے سابقہ ریکارڈوں کو توڑ دیا ہے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ
کے اسٹوڈینس اور شاہین باغ کی خواتین سے موجودہ حکومت کو عبرت حاصل کرنی
چاہئے کہ انہوں نے سخت سردی کے موسم میں بھی اپنے احتجاج کو جاری رکھا ہے۔
اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ان طلبہ وطالبات اور خواتین کی مدد فرمائے۔ آمین۔
پرامن مظاہروں کو طاقت اور گولی کے ذریعہ روکنا ایک ظلم ہے جو کسی بھی حال
میں برداشت نہیں کیا جاسکتا ہے۔ تمام مذاہب حتی کہ ہندو مذہب میں بھی ظلم
کرنے سے روکا گیا ہے۔ دہلی کورٹ کے حالیہ فیصلہ میں بھی یہی کہا گیا ہے کہ
ہندوستان جیسے سیکولر ملک میں پرامن طریقہ پر مظاہرہ کرنے کا ہر شخص کو حق
حاصل ہے اور اسی کا نام جمہوریت ہے۔ دنیاوی قوانین بھی اس طرح بنائے گئے
ہیں کہ ظلم پر روک لگائی جاسکے، لیکن ہر دور میں کچھ لوگ اپنے مذہب کی
تعلیمات اور عالمی وملکی قوانین کی دھجیاں اڑاکر کمزوروں پر ظلم کرکے اپنے
مذموم مقاصد کے حصول کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ عقل کا تقاضا بھی یہی ہے کہ
ظلم کو حرام قرار دے کر سب کے ساتھ عدل وانصاف کیا جائے اور ظالموں کو سخت
سے سخت سزا دی جائے ورنہ غریبوں کو دو وقت کا کھانا ملنا بھی دشوار ہوجائے
گا۔
آج ہی سوشل میڈیا اور بعض اردو اخباروں کے ذریعہ معلوم ہوا کہ اندریش کومار
کی مسلم راشٹریہ منچ کے پلیٹ فارم سے چند علماء حضرات کو جمع کرکے ـCAA کی
حمایت میں دہلی میں ایک پروگرام منعقد کیا جارہا ہے۔ اگر واقعی یہ خبر صحیح
ہے تو جو افراد بھی اس پروگرام کا حصہ بنے جارہے ہیں وہ قوم کے غدار کہلانے
کے مستحق ہیں۔ انہیں کم از کم یہ ضرور معلوم ہونا چاہئے کہ قرآن وحدیث کی
واضح تعلیمات کی روشنی میں پوری امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ ظلم حرام ہے، اور
سات بڑے ہلاک کرنے والے گناہوں میں سے اکثر کا تعلق ظلم ہی سے ہے۔ ظالم
قیامت کے دن ذلت آمیز اندھیروں میں ہو گا اور ظالموں کو جہنم کی دہکتی آگ
میں ڈالا جائے گا۔ چنانچہ قیامت کے دن ظالموں سے مظلوموں کے حقوق ادا
کروائے جائیں گے یہاں تک کہ سینگ والی بکری سے بغیر سینگ والی بکری کو بدلہ
دلوایا جائے گا اگر اُس نے بغیر سینگ والی بکری کو دنیا میں مارا ہوگا۔
غرضیکہ شریعت اسلامیہ نے نہ صرف ظلم کی حرمت ونحوست کو بار بار ذکر کیا ہے
اور اس کے برے انجام سے متنبہ کیا ہے، بلکہ مظلوم کی مدد کرنے کی تعلیم
وترغیب بھی دی ہے، اور مظلوم کی بددعا سے بھی سختی کے ساتھ بچنے کو کہا گیا
ہے کیونکہ مظلوم کی بددعا اﷲ کے دربار میں رد نہیں کی جاتی۔ مال ومنصب کے
ملنے پر انسان کمزوروں پر ظلم کرنے لگتا ہے ، حالانکہ اسے سوچنا چاہئے کہ
ساری کائنات کو پیدا کرکے پوری دنیا کے نظام کو تن تنہا چلانے والے نے خود
اپنی ذات سے ظلم کرنے کی نفی کی ہے، چنانچہ اﷲ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:اﷲ
ذرّہ برابر بھی کسی پر ظلم نہیں کرتا۔ (سورۃ النساء ۴۰) نیز نبی اکرمﷺ حدیث
قدسی میں فرماتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: اے میرے بندو! میں نے
ظلم کو اپنے اوپر بھی حرام کیا ہے اور تم پر بھی حرام کیا ہے۔ لہٰذا تم ایک
دوسرے پر ظلم نہ کرو۔ (صحیح مسلم ۔ باب تحریم الظلم)
ظلم کی مختلف شکلیں ہیں، ظلم کی ایک قسم کا تعلق حقوق العباد سے ہے۔ ظلم کی
اِس قسم پر خصوصی توجہ درکار ہے کیونکہ اﷲ تعالیٰ نے حقوق العباد کے متعلق
اپنا اصول وضابطہ بیان کردیا ہے کہ جب تک بندہ سے معاملہ صاف نہیں کیا جائے
گا وہ معاف نہیں کرے گا۔ لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ کسی بھی انسان پر
کسی بھی حال میں ظلم نہ کرے، بلکہ اپنی حیثیت کے مطابق دوسروں کی مدد کرے،
ظالم کو ظلم کرنے سے حکمت کے ساتھ روکے اور مظلوم کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑا
ہو۔ جیسا کہ حضور کرمﷺ نے ارشاد فرمایا : اپنے بھائی کی مدد کرو، خواہ وہ
ظالم ہو یا مظلوم۔ صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اﷲ! ہم مظلوم کی تو مدد
کرسکتے ہیں، لیکن ظالم ہونے کی صورت میں اس کی مدد کس طرح ہوگی؟ حضور کرمﷺ
نے فرمایا: (ظالم کی مدد کی صورت یہ ہے کہ) اس کا ہاتھ پکڑ لو۔ یعنی اسے
ظلم کرنے سے روک دو۔(بخاری ۔ باب اعن اخاک ظالماً او مظلوماً)
انسانوں پر ظلم کرنے کی تمام ہی شکلوں سے ہر شخص کو بچنا چاہئے کیونکہ حضور
اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: میری امت کا مفلس وہ شخص ہے جو قیامت کے دن بہت سی
نماز، روزہ، زکاۃ (اور دوسری مقبول عبادتیں) لے کر آئے گا مگر حال یہ ہوگا
کہ اس نے کسی کو گالی دی ہوگی، کسی پر تہمت لگائی ہوگی، کسی کا مال کھایا
ہوگا، کسی کا خون بہایا ہوگا یا کسی کو مارا پیٹا ہوگا تو اس کی نیکیوں میں
سے ایک حق والے کو (اس کے حق کے بقدر) نیکیاں دی جائیں گی، ایسے ہی دوسرے
حق والے کو اس کی نیکیوں میں سے (اس کے حق کے بقدر) نیکیاں دی جائیں گی۔
پھر اگر دوسروں کے حقوق چکائے جانے سے پہلے اس کی ساری نیکیاں ختم ہوجائیں
گی تو (ان حقوق کے بقدر) حقداروں اور مظلوموں کے گناہ (جو انہوں نے دنیا
میں کئے ہوں گے) ان سے لے کر اس شخص پر ڈال دئے جائیں گے ، اور پھر اس شخص
کو دوزخ میں پھینک دیا جائے گا۔ (مسلم ۔ باب تحریم الظلم)
مظلوم صبر کرکے اﷲ تعالیٰ کی طرف رجوع کرے اور اپنی استطاعت کے مطابق ظالم
کو ظلم سے روکے۔ اور دوسروں سے مدد حاصل کرکے اپنے ملک کے قانون کے تحت
کاروائی کرے۔ ہمیں مظلوم کی حتی الامکان مدد کرکے اﷲ تعالیٰ سے دعائیں کرنی
چاہئیں۔ اور اگر ہم ظالم کو ظلم کرنے سے روک سکتے ہیں تو ملکی قوانین کو
سامنے رکھ کر ضرور یہ ذمہ داری انجام دینی چاہئے۔ یہ بات اچھی طرح ذہن میں
رکھنی چاہئے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اﷲ تعالیٰ ظالم کو مہلت دیتے
ہیں۔ پھر جب اچانک اس کو پکڑتے ہیں تو اس کو بالکل نہیں چھوڑتے۔ پھر آپﷺ نے
یہ آیت تلاوت فرمائی: ترجمہ’’ اسی طرح تیرے رب کی پکڑ ہے جب وہ شہروں کو
پکڑتے ہیں جبکہ وہ ظلم کا ارتکاب کرتے ہیں۔ یقینا اس کی پکڑ بڑی دردناک
ہے۔(بخاری ومسلم)
آخر میں دعا کرتا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ ہمارے ملک کے حالات کو بہتر فرمائے اور
جن افراد نے اس نئے قانون کے خلاف آواز بلند کرکے اپنی جان کا نظرانہ پیش
کیا ہے انہیں اﷲ تعالیٰ جنت الفردوس میں بلند مقام عطا فرمائے۔ اور ہم سب
کو مل جل کر اس ظلم کے خلاف کھڑا ہونے والا بنائے۔ آمین |