شام ِ آگہی بنام میرے شریک سفر ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی

ہماری ویب رائیٹرز کلب کے زیر اہتمام 17جنوری2020ء فاران کلب، کراچی میں ”شامِ آگہی بنام ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی“ کا اہتمام کیا گیا۔ ڈاکٹر صمدانی کی شریک سفر کےخیالات۔

شام ِ آگہی بنام میرے شریک سفر ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی
شہناز رئیس
صدرِ گرامی، مہمانانِ محترم، معزز خواتین وحضرات!
السلام علیکم!
ہماری ویب رائیٹرز کلب کی جانب سے آج جس شخصیت کے ساتھ شامِ آگہی کا اہتمام کیا گیا ہے اس شخصیت سے میراتعلق قائم ہوئے 45برس ہوچکے ہیں، ہم20 دسمبر1975ء کو رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے،الحمد اللہ تعلق قائم ہے، ہم نے نہ صرف اپنی زندگی خوش و خرم طریقے سے گزاری بلکہ اپنے دو بیٹوں اور ایک بیٹی کو بھی اپنے نقش قدم پر رواں دواں کیا، الحمد اللہ تینوں اعلیٰ تعلیم یافتہ اپنی اپنی زندگی کے سفر پر خوش اور ہم مطمئن ہیں۔ اس کامیابی کا سہرا ایک جانب اگرماں کی حیثیت سے مجھے جاتا ہے تو دوسری جانب میرے شوہر ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی کی سوجھ بوجھ، عقل و دانش اور بہتر حکمت عملی کا بڑا دخل ہے۔وہ ایک جانب از خود پڑھنے لکھنے میں لگے رہے تو دوسری جانب اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت سے کبھی غافل نہ رہے، انہیں پڑھا لکھا کر اپنے پیروں پر کھڑا کردیا، بڑا بیٹاعدیل سعودی عرب میں، بیٹی جرمنی میں اور چھوٹا بیٹا ڈاکٹر نبیل اور بہو ڈاکٹر ثمرا، پوتے ارسل نبیل کے ساتھ ہماری زندگی خوش و خرم گزررہی ہے۔

خواتین وحضرات!
مَیں نے جب ڈاکٹر صمدانی صاحب کی زندگی میں قدم رکھا تو انہیں کالج میں استاد کی حیثیت سے ملازمت کے ساتھ ساتھ پڑھنے، لکھنے اور چھپنے میں مشغول پایا۔ میں خود بھی اسکول ٹیچر تھی اور یہ بھی درس و تدریس سے وابستہ تھے اس لیے مجھے ان کا پڑھنا، لکھنا غیر معمولی نہیں لگا بلکہ اچھا ہی لگا، طویل عرصہ گزرگیا، لیکن ان کی اس عادت میں کمی تو کیا آتی اضافہ ہی ہوگیا۔کتاب سے انہیں جنون کی حد تک محبت ہے، لکھنے کے دھتی ایسے کہ اگر دو تین دن گرجائیں اور کچھ نہ لکھ سکیں تو ان کی طبیعت میں عجیب بے چینی اور اضطِرابی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔ عام زندگی میں یہ شروع ہی سے کم گو، نرم مزاج، کم خوراک، سبک رفتار،دھیمے لہجہ رکھتے ہیں لیکن لکھنے میں تیز گام ہیں، کبھی کبھی تو ایک ہی نشست میں کالم لکھ کر پوسٹ بھی کردیتے ہیں۔ ان کے مزاج میں اعتدال ہے، کہا کرتے ہیں کہ ہمیں اپنی حیثیت کے مطابق زندگی کے معاملات پر عمل کرنا چاہیے، بچوں کی پڑھائی پر کبھی کمپرومائز نہیں کیا، مجھے یاد ہے کہ ہمارے گھر کار تو کیا سائیکل بھی نہیں تھی لیکن جب ہماری بیٹی اور بڑا بیٹا اسکول جانے کے قابل ہوئے، تو انہوں نے بچوں کو اسکول پہنچانے اور لانے کی غرض سے موٹر سائیکل خریدی اور از خود بچوں کو اسکول، یہاں تک کہ کالج اور کوچنگ سینٹر خود لے جایا کرتے، جب تک بچے پڑھا کرتے یہ کوچنگ سینٹر کے باہر موٹر سائیکل پر بیٹھے رہتے لکھنے پڑھنے کے ساتھ ساتھ پی ایچ ڈی کرنے کی لگن تھی، لیکن حالات ساز گار نہیں مل رہے تھے، ریٹائرمنٹ میں چند سال باقی تھے، ایک دن خوشی خوشی بتا یا کہ میرا داخلہ ہمدرد یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی میں ہوگیا ہے، میں سمجھی کہ مزاق کر رہے ہیں، معلوم ہوا کہ انہوں نے باقاعدہ پڑھنا اور لکھنا شروع کردیا، رات رات بھر کمپیوٹر کھولے کام کیا کرتے، دو سال میں تھیسیس تو مکمل ہوگیا، ڈگری بھی مل گئی،اس محنت نے ان کی عزت و توقیر میں تو اضافہ کیا ہی ساتھ ہی انہیں کمر کی تکلیف کامستقل تحفہ بھی دیا۔ ریٹائر ہوگئے، ڈاکٹریٹ بھی ہوگئی، دونوں بیٹے سعودی عرب ملازمت کی غرض سے چلے گئے، انہیں بھی سرگودھا یونیورسٹی سے بلاوا آگیا، مجھے چھوڑ چھاڑسرگودھا یونیورسٹی میں پروفیسر ہوکر چلے گئے۔ کچھ عرصہ بعد بچوں نے زبردستی سرگودھا سے واپس بلویا، وہ بھی اس لیے کہ سعودی عرب کا ویزا بچوں نے بھیج دیا تھا۔

کیا لکھا، کیسا لکھا اس موضوع پر کئی احباب بات کرچکے اور کچھ ابھی کریں گے۔ میں ان کے ساتھ کئی پروگراموں میں جاتی رہی ہوں، مجھے نہیں معلوم تھا کہ آج مجھے بھی روسٹرم پر آنا پڑجائے گا، لیکن کچھ کچھ اندازہ تھا کہ جس نوعیت کا پروگرام ہے اس میں ڈاکٹر صمدانی کی نجی زندگی کی کچھ باتیں میں بہ حیثیت ان کے شریک حیات بہتر بیان کرسکتی ہوں جو میں نے بیان کیں۔باتیں تو بہت سی ہیں لیکن اختصار ہی مناسب معلوم ہوتا ہے۔ بہر حال منتظمین کا بہت شکریہ کہ انہوں نے ڈاکٹر صمدانی کو یہ اعزاز دیا اور مجھے بھی کچھ کہنے کی دعوت دی۔ بہت شکریہ
17جنوری2020 ء شہناز رئیس


 

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1271909 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More