پروفیسر ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی کی کالم نگاری

ہماری ویب رائیٹرز کلب کے زیر اہتمام 17جنوری2020ء فاران کلب، کراچی میں ”شامِ آگہی بنام ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی“ کا اہتمام کیا گیا جس میں آسٹریلیا میں مقیم ہماری ویب پر لکھنے والے لکھاری افضل رضوی نے ڈاکٹر صمدانی کی کالم نگاری پر حسب ذیل خصوصی تحریر ارسال کی، جسے محمد ارشد قریشی صاحب نے تقریب میں پڑھ کر سنایا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پروفیسر ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی کی کالم نگاری
افضل رضوی۔آسٹریلیا
صدرِ محفل، مہمانانِ گرامی قدر اور معزز خواتین وحضرات، السلام علیکم!
پروفیسر ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی صاحب سے میرا تعلق قائم ہوئے کچھ بہت طویل عرصہ نہیں ہوا لیکن ان کی محبت،شفقت، خلوص اور نرم گوئی نے گویا اپنا گرویدہ بنالیا ہے۔میری خواہش تھی کہ میں بنفسِ نفیس صمدانی صاحب کی”رشحاتِ قلم“ پر آپ خواتین وحضرات کے حضور اپنے ناقص لفظوں کو گوش گزار کرتا لیکن فاصلے کی دوری آڑے آئی اور میں اس پر شکوہ تقریب میں حاضری سے قاصر ہوں۔ بہر حال اپنا ایک تحقیقی مضمون حاضر کررہاہوں۔ امیدِ قوی ہے کہ پسند آئے گا۔
خواتین وحضرات!
پروفیسرڈاکٹر رئیس احمد صمدانی ایک ہمہ جہت شخصیت ہیں، انہوں نے سوانح نگاری اور خاکہ نگاری کے ساتھ ساتھ دوسری اصنافِ ادب میں بھی اپنے قلم کے جو ہر دکھائے ہیں؛ جن میں شعر وسخن، رپور تاژ، تبصرے اور کالم نگاری خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔
بیسویں صدی میں کالم نگاری نے عروج حاصل کیا، لیکن عصر حاضر میں بھی کالم نگاری کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے۔ کالم موجودہ اردو صحافت کا ایک اہم جزو تصور کیا جاتا ہے۔ کسی بھی اخبار کے لیے اس سے صرف نظر ممکن نہیں ہے۔ کالم میں اہم مسائل کا حل، پیچیدہ معاملات کی توضیح اور تازہ ترین خبروں پر نہایت منفرد زاویے سے روشنی ڈالی جاتی ہے، لیکن اس تحریر میں اسلوب کی دلکشی اور زبان کی سلاست کو بڑا عمل دخل ہوتا ہے۔ کالم کی تحریر عام تحریروں سے قدرے منفرد ہوتی ہے۔ اس کے اسلوب میں مزاح کی چاشنی اور زبان کی شوخی ہو تو اس تحریر کی تاثیر مزید کامیابی کی ضمانت تصور کی جاتی ہے۔
آرٹیکل اور کالم میں صرف اتنا فرق ہے کہ آرٹیکل ایک غیر افسانوی تحریر ہوتی ہے جس میں ذاتی رائے کو دخل کم ہوتا ہے جبکہ کالم میں آپ ذاتی رائے کو شامل کر سکتے ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ اکثر اوقات پورے کا پورا ”مضمون“ ہی ذاتی رائے پرمبنی ہو تا ہے۔
کالم نگاری کا ادب اور صحافت سے بہت گہرا تعلق ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ کالم نگاری بیک وقت صحافت و ادب بھی ہے اور شاعری بھی، کالم نگاری داستاں گوئی بھی ہے اورچونکہ کالم نگاری کا تعلق براہِ راست معاشرے سے جڑتا ہے اور ادب معاشرے کا عکس ہوتا ہے، صحافت اسی عکس کا پرتو بن کر افرادِمعاشرہ کی تعلیم وتربیت میں اہم کرادار کرتی ہے۔
اب جہاں تک اردو میں کالم نگاری کی ابتداء کا سوال ہے تو اس کا باضابطہ آغاز منشی سجاد حسین کے اخبار’’اودھ پنچ‘‘سے ہوتا نظر آتا ہے۔ اودھ پنچ کی اشاعت چھتیس برس تک جاری رہی تا وقتکہ حکومتِ وقت نے اسے بند کرادیا لیکن اس کے بند ہو جانے پر اسی سال مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنا ہفت روزہ ’الہلال‘ جاری کیا۔ مولانا نے آغاز میں ہی ’الہلال‘ میں ’افکار و حوادث‘ کے عنوان سے ایک فکاہیہ کالم شروع کیا، جسے وہ خود ہی لکھا کرتے تھے۔مولانا ظفر علی خان کے اخبار ”زمیندار‘‘اور ”ستارہ صبح‘‘محمد علی جوہر کے ”ہمدرد“، عبدالمجید سالک کے ”انقلاب‘‘،چراغ حسن حسرت کے ”شیرازہ‘‘،مہاشہ کرشن کے ”پرتاپ‘‘،مہاشہ خوشحال چند کے ”ملاپ‘‘لالہ لاجپت رائے کے ”بندے ماترم“ اور سناتن دھرم سبھا کے’’ویر بھارت“ وغیرہ میں فکاہیہ کالم لکھے جاتے تھے۔
مولانا ظفر علی خاں اپنے فرضی قلمی نام ’نقاش‘، ’ابوزید‘،’سروجی‘،’حارث‘ اور ’ابن ہمام‘ سے لکھتے رہے،۔چراغ حسن حسرت اخبار ’نئی دنیا‘ میں کولمبس کے نام سے ’افکار و حوادث‘ جیسا کالم لکھا کرتے تھے۔ کلکتہ کے ’نئی دنیا‘ کے بعد حسرت نے مسلم اور ہندو ملکیت کے کئی اردو اخبارات میں ملازمت کی۔ ان اخبارات میں ’کولمبس‘، ’کوچہ گرد‘ اور ’سندباد جہازی‘ کے قلمی ناموں سے اپنا کالم لکھا۔ بیسویں صدی کے ظرافتی صحافت اور ادب کے افق پر ایک روشن نام خواجہ حسن نظامی کا ہے۔ ان کے مزاحیہ کالموں میں ’کم اِن مائی ڈیئر‘،’جھینگر کا جنازہ‘وغیرہ بہت مقبول ہوئے۔اسی سلسلے کا ایک تابندہ نام حاجی لق لق کا ہے نیزشوکت تھانوی بیک وقت افسانے، ڈرامے، خاکے، شاعری اور کالم نگاری میں طبع آزمائی کرتے رہے، لیکن کالم نگاری ان کی وجہ ئ شہرت بنی اور وہ1930 ء سے 1980 ء تک کم و بیش پچاس برسوں تک اپنے قلم کے تیر و نشتر چلاتے رہے۔ شوکت تھانوی، مرزا فرحت اللہ بیگ، احمد شاہ بخاری پطرس اور رشید احمد صدیقی طنز ومزاح کے میدان میں بجائے خود حوالہ ہیں۔
بیسویں صدی میں سعادت حسن منٹو نے بھی کالم نگاری کے فن کو جلا بخشی جب کہ اگلی صدی سے دورِ موجود میں اس صنف ادب و صحافت کا بہت بڑا نام مشفق خواجہ کا ہے۔ انہیں زبان اور اسلوب دونوں پرعبور تھا۔ ان کی کالم نگاری ستر کی دہائی میں روز نامہ ”جسارت“ سے شروع ہوئی اور ان کا کالم ’سخن در سخن‘ جو وہ ’خامہ بگوش‘ کے قلمی نام سے لکھا کرتے تھے بہت مقبول ہوا۔دورِ جدید کے اہم کالم نگاروں میں انتظار حسین، احمد ندیم قاسمی،میرزا ادیب،جمیل الدین عالی،انور سدید،حفیظ الرحمن،منو بھائی، عطاء الحق قاسمی، اختر امان، انجم اعظمی، انجم رومانی، محسن بھوپالی،مجتبیٰ حسین، نصرت جاوید، سلیم صافی، حامد میر اور پروفیسر ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔
پروفیسر ڈاکٹر صمدانی جس تواتر کے ساتھ لکھ رہے ہیں، اسے دیکھ کر تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ کالم لکھنے کی مشین ہیں۔ ان کے کالم محض کسی ایک موضوع کے گرد طواف نہیں کرتے کیونکہ وہ خود کسی ایک مقام پر منجمد شخصیت نہیں ہیں؛ چنانچہ ان کی ہمہ جہت شخصیت کا عکس ان کی تحریروں میں جھلکتا نظر آتا ہے۔یہاں ان کے صرف ان کالموں کا تجزیہ کیا جائے گا جو انہوں نے ”رشحاتِ قلم“ کے نام سے شائع کیے ہیں۔ ان کے کالموں کے اس مجموعے پر بہت سے نامور ادیبوں اور صحافیوں نے اپنی آراء کا اظہار کیا ہے۔ آگے بڑھنے سے پہلے یہ زیادہ مناسب ہے کہ ان ادیبوں اور صحافیوں کے نقط ئ نظر سے قارئین کو متعارف کرادیا جائے۔
ڈاکٹر عشرت معین سیما نے”ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی کی کالم نگاری“ کے عنوان میں لکھا ہے:
ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی کے چیدہ چیدہ کام پر مبنی یہ زیرِ نظر کتا ب اردو صحافت کی میں ایک اچھا اضافہ ہے۔۔۔ اس مجموعے کو انہوں نے بہت ماہرانہ انداز میں خصوصی دنوں، شخصیتوں، حالات و واقعات اور عالمی و معاشرتی موضوعات میں تقسیم کیا ہے۔۔۔ آپ نے اپنے قلم کے ذریعے قارئین اور نئے لکھنے والوں کوبارآور کروایا ہے کہ ایک جمہوری معاشرے میں میڈیا کا کیا کردار ہونا چاہئے؟ اسے صحافت کو کس طریقے سے معاشرے میں پروان چڑھانا چاہیے اور ایک صحافی کی اپنے کام، ادارے اور معاشرے و عوام کے ساتھ کس طرح مثبت رشتہ ہونا چاہئے اور کس طرح اُسے غیر جانب دارانہ طریقے سے اپنی ذمہ داری نبھانی چاہئے اور اس ضمن میں اگر اسے کسی طرح کے مسائل کا سامنا ہو تو اُس سے کیسے نبرد آزما ہونا چاہئے۔اس سلسلے میں اُن کے مخصوص کالموں سے راہ نمائی لی جاسکتی ہے
لندن سے صحافی، ادیب، کالم نگارثمینہ رشید ڈاکٹر صمدانی کی کالم نگاری پر اظہارِ خیال کرتی ہوئی کہتی ہیں:
آپ کے کالمز ابتداء سے ہی قاری کو پوری طرح متوجہ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور جیسے جیسے وہ آپ کے کالم کو پڑھتے جاتے ہیں آپ کے اندازِ تحریر کا سحر اس طرح جکڑ تا ہے کہ قاری کے پاس اس کو مکمل پڑھے بنا کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ آپ کے کالمز ملکی اور عالمی سیاست پہ آپ کی گری نظر کا مکمل عکاس ہوتے ہیں۔ جب آپ حالاتِ حاضرہ، سماجی اور معاشرتی مسائل کو احاطہئ قلم میں لاتے ہیں تو قاری کو، بقول شاعر ایسا ہی محسوس ہوتا ہے جیسے’میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے‘۔ آپ کا قلم جب شخصیات کو موضوع ِ تحریر بناتا ہے تو اپنے اوجِ کمال پہ نظر آتا ہے۔
روزنامہ جنگ کے مضمون نگار،کالم نگار، ادیب اور صحافی، ڈاکٹر شاہ محمد تبریزی نے ڈاکٹر صمدانی صاحب کے کالموں پر کچھ ان الفاظ میں تبصرہ کیا ہے:
انہوں نے جس موضوع پر قلم اٹھایا ہے، اسے انتہائی معلوماتی اور قابل مطالعہ بنایا ہے اور قارئین کو اس کی حلاوت و شیرینی سے مکمل طور پر سیراب کیا ہے، کسی پہلو کو نہ تو مصلحتاً پوشیدہ رکھا ہے اور نہ ہی کسی پہلو سے تشنہ کام لوٹایا ہے۔ یہ ان کی تحریر کی فنی خصوصیت ہے کہ بلا لگی لپٹی رکھے، بے لاگ تبصرہ اور مجاہدانہ تجزیہ پیش کرتے ہیں۔ شخصیات ان کا پسندیدہ موضوع رہی ہیں، جیسا کہ انہوں نے شہید قوم حکیم محمد سعید دہلوی پر بھر پورکالم تحریر فرمایا ہے، اسی طرح میڈیا کی آزادی پر ان کا کالم عوامی امنگوں کا ترجمان ہے۔ ان کے کالموں کی ایک اور اہم خصوصیت یہ ہے کہ انہوں نے اپنے کالموں کو عوامی جذبات کا ترجمان بنایا ہے، یہی وجہ ہے کہ ملکی معاملات ہوں یا عالمی مسائل، قومی معاملہ ہو یا علاقائی،انہوں نے سطحی‘ سطح اختیار کرنے کے بجائے عوامی سطح کو اختیار کیا ہے، جسے کالم کی روح کہا جاتا ہے۔۔۔ڈاکٹر صمدانی کی کالم نگاری کئی خصوصیات کا مرقع ہے، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے بہت کم عرصہ میں خود کو ایک کامیاب، سلجھا ہوا ور غیر جانب دار کالم نگار کے طور پر منوایا ہے اور ان کی تحریر کی جامعیت کو دیکھتے ہوئے ملک کے بڑے بڑے اخبار ات و جرائد ان کے کالم کی اشاعت کو اعزاز کا باعث سمجھتے ہیں۔
ہماری ویب رائٹرز کلب کے جنرل سیکریٹری عطا محمد تبسم جو خود بھی ایک منجھے ہوئے صحافی، ادیب اور کالم نگار ہیں، صمدانی صاحب کی نثری خصائص پر لب کشائی کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
سوانح نگاری، خاکہ نویسی، کالم نویسی اور رپورتاژ ان کے خاص موضوعات ہیں، پیشہ ورانہ سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ ادب اور ادیبوں، قلم اور اہل قلم، علم اور اہل علم سے ان کا گہرا رشتہ ہے۔ ان کے کالموں کے موضوع میں بھارت، امریکہ، پاکستانی سیاست،کرکٹ، سب کچھ شامل ہے، گڈ گورننس سے بیڈ گورننس تک،کلکرنی کا منہ کالا۔ بھارت کا اصل چہرہ ،نواز اوباما ملات۔ کیا کھویا کیا پایا؟،نون لیگ کا اندرونی خلفشار،بھارت کا ’گوربا چوف‘نریندر مودی جیسے موضوعات سے اندازہ کیاجاسکتا ہے کہ وہ عوامی دلچسپی اور اہم معاملات پر اپنے قلم سے وہ کچھ بیان کرتے ہیں جو وہ صحیح سمجھتے ہیں۔
اسلام آباد سے وقائع نگار، ادیب، صحافی، مضمون نگار اور تبصرہ نویس میر افسر امان نے صمدانی صاحب کو قریب سے دیکھا ہے۔ اسلام آباد منتقل ہونے سے پہلے وہ کراچی میں رہائش پذیر تھے۔ اس بنیاد پر کہا جاسکتا ہے کہ انہیں صمدانی صاحب کی شخصیت و فن کو قریب سے جانچنے کا موقع ملا ہو گا۔اس لیے ان کا لکھا ہوا تبصرہ اس حوالے سے زیادہ اہمیت اختیار کر جاتا ہے۔ خود مجھے میر صاحب کے مضامین پڑھنے کا موقع ملا ہے جس سے میں نے یہ اندازہ لگایا ہے کہ وہ سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوت کہنے میں ذراہ برابر بھی لیت ولعل سے کا م نہیں لیتے۔ انہوں نے ”ڈاکٹر ایک منفرد تخلیق کار“ کے عنوان سے ”رشحاتِ قلم“ پر جو اظہاریہ لکھا ہے وہ قابل غور ہی نہیں قابلِ توجہ بھی ہے۔
ڈاکٹررئیس صمدانی کو میں نے ایک کم گو اور عظیم شخص پایا۔ یقینا! عظیم شخص کے قلم سے لکھے گئے مضامین و کالموں کامجموعہ ”رشحاتِ قلم“ کے مضامین وکالم بھی ویسے ہی ہیں۔وہ حالات اور واقعات کو قلمبند کرنے کا ہنر رکھتے ہیں۔ان کی تحریر میں زبان کی صحت اس لیے بھی ملتی ہے کہ وہ اہل زبان ہیں۔شعری و ادبی ذوق خاندانی ہے۔ وہ حالات حاضرہ، روزمرہ کے سیاسی، سماجی اور معاشرتی مسائل کا تجزیہ ہلکے پھلکے انداز اور مہذب طریقے سے کرتے ہیں۔
کراچی کے صحافی حلقوں میں جانی پہچانی شخصیت محمد اعظم عظیم اعظم کے نزدیک پروفیسر ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی بہت ہی قابلِ احترام اور صاحبِ احترام ہستی ہیں۔ ان کے ساتھ گزارے لمحات اس بات کا احساس دلاتے ہیں کہ یہ لمحے بہت گراں قدر ہیں۔ وہ لکھتے
ہیں:
اس میں کوئی شک اور دورائے نہیں کہ ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی صاحب اپنے نام اور کام کے لحاظ سے بھی ایک عظیم شخصیت کے حامل انسان ہیں، اپنے سینئر کا احترام کرتے ہیں اور اپنے جونیئرز سے شفقت سے پیش آتے ہیں خاص طور پر ان سے ملاقات کے بعد یہ احساس پیدا ہوتا ہے کہ ایک صاحبِ احترام شخصیت کے ساتھ حسین لمحات گزارے ہیں۔۔۔ مجھے قوی امید ہے کہ قبلہ حضرت ڈاکٹر رئیس احمدصمدانی صاحب کی یہ کتاب ”رشحاتِ قلم“ جو روزنامہ جناح میں ڈاکٹر صاحب کے شائع ہونے والے کالمز پر مشتمل ہے اس کا مطالعہ کرنے والے مجھ سمیت بہت سے صحافت کے طالب علموں کے لیے مشعل راہ ثابت ہوگی۔
”گنجینہئ ادب ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی“ کے عنوان سے کراچی سے تعلق رکھنے والے معروف بلاگر، کالم نویس، صحافی اور شاعر محمد ارشد قریشی کے نزدیک صمدانی صاحب ہر لحاظ سے گنجینہئ ادب ہیں بلکہ وہ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ انہوں نے لکھنے کے فن میں ان سے زانوئے تلمذ طے کیا ہے۔وہ لکھتے ہیں:
صمدانی صاحب نے ہر موضوع پر اپنے قلم کے جوہر دکھائے ہیں۔ حالات حاضرہ، سیاست، معیشت اور معاشرے پر ان کی تحریروں کا مطالعہ کیا جائے تو وہ سب منصفانہ نظر آتی ہیں۔ سیاست پر ان کے تحریر کردہ کالمز کو پڑھنے سے کھبی یہ محسوس نہیں ہوتا کہ ان کا کسی سیاسی جماعت کی جانب جھکاؤ ہے بلکہ ان کی تحریروں میں واضح حب الوطنی اور پاکستانیت جھلکتی ہے۔ کسی بھی طالب علم کے لیے یہ بڑے اعزاز کی بات ہے کہ اس کے اساتذہ اس کی تعریف کریں۔
مندرجہ بالاحوالاجات کے بعد اب ذیل میں ”رشحاتِ قلم“ پر صمدانی صاحب کی اپنی رائے بھی ملاحظہ کیجیے۔
زیر نظر مجموعے میں میرے صرف وہ کالم ہیں جو اردو اخبار روزنامہ ’جناح‘ میں یکم اکتوبر 2015ئتا 5مارچ2016ء کے درمیان شائع ہوئے۔ان کالموں میں زیادہ تر وہ کالم ہیں جن کا موضوع عالمی و پاکستان کی سیاست، معاشرت، معاشرے کے مسائل و مشکلات، کرنٹ ایشوز ہیں۔۔۔سیاسی موضوعات میں میری بھر پور کوشش ہوتی ہے کہ میں غیر جانب دار رہتے ہوئے تجزیہ پیش کروں۔ یہی وجہ ہے کہ میرے کولموں میں میرا جھکاؤ کسی ایک سیاسی جماعت کی جانب نہیں ہوتا، میری ذاتی رائے میں کالم نگار اور تجزیہ نگار کو غیر جانب ہونا چاہیے۔میرے لکھنے اور چھپنے کا دورانیہ چار دہائیوں کے سمندر کو عبور کر چکا ہے گویا پانچویں دیہائی ہے قلم و قرطاس سے عشق کی۔
پروفیسر ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی کی ”رشحاتِ قلم“ میں کل بتیس کالم ہیں جو انہوں نے اردو اخبار روزنامہ ’جناح‘ میں یکم اکتوبر 2015ء تا 5مارچ2016ء کے درمیان لکھے۔انہوں نے ان کالموں کو آٹھ مختلف موضوعات ___عالمی وملکی سیاست وحالاتِ حاضرہ، شخصیات، عالمی دن، علم وادب و نفاذِ اردو، دہشت گردی، میڈیا کی آزادی، منشیات ایک لعنت، کتاب اور کتاب میلہ ___کے تحت جمع کر دیا ہے۔یہ تقسیم کالم نگار کے ذہن کی بھی عکاس ہے کہ جب وہ لکھتے ہیں تو ان کے سامنے ایک مقصد ہوتا ہے اوروہ معاشرے میں مثبت تبدیلی کے خواہاں نظر آتے ہیں۔ ان کے کالم محض کالم برائے کالم نہیں بلکہ معاشرے میں وقوع پذیر ہونے والی تبدیلیاں اور حالات کا مرقع ہوتے ہیں۔
عالمی و ملکی سیاست و حالاتِ حاضرہ :
”رشحاتِ قلم“ میں مصنف نے سب سے پہلے عالمی و ملکی سیاست و حالاتِ حاضرہ کو موضوع بناتے ہوئے اس پر چودہ کالم لکھے ہیں۔
”رشحاتِ قلم“کا پہلا کالم انہوں نے 9دسمبر 2015ء کو بعنوان”اقدار‘ اور اقتدار کی سیاست“رقم کیا جس میں پاکستان کی تاریخ کے حوالے سے پاکستانی سیاست اور اقدار کا ایک تجزیہ پیش کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے وہ لکھتے
ہیں،”پاکستان کی سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ قائد اعظم محمد علی جناح اور لیاقت علی خان کے بعد ہمارے ملک کے سیاست دانوں نے کبھی بھی اقدار کی سیاست نہیں کی اس کے برعکس ہر ایک نے اقتدار کے حصول کی سیاست کی اور اسے اپنی زندگی کا حاصل بنا یا“۔
پھروہ اقدارپر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں کہ،
آخر یہ اقدار ہیں کیا اور کیا یہ اقدار لمحہ موجود میں ہمارے سیاستدانوں کی زندگی کا حصہ ہیں؟ وہ لکھتے ہیں۔اقدار ہیں کیا؟ خاص طور پر مسلمانوں کی اقدار کیا ہیں۔ ہماری اقدار شرافت، دیانت، صداقت،بزرگی، اصالت، نجابت،سچائی، راست بازی، امانت داری، خدمت اور قرآن و سنت کے مطابق زندگی کے معاملات پر عمل کرنا اور دوسروں کو بھی اس پر عمل کرنے کی ترغیب دینا ہیں۔
ان اقدارکا جو ایک مسلمان پاکستانی سیاستدان کی زندگی کا عکس ہوناچاہییں، ان کے بقول وہ اقدار ناپید ہیں۔
دوسرا کالم جسے صمدانی صاحب نے اپنی اس تصنیف کا حصہ بنایا ہے، اس کا عنوان اطہر نفیس کے ایک شعر کا مصرع ہے ”یہ دھوپ تو ہر رخ پریشان کرے گی“، جس کا انہیں علم نہ تھا کہ یہ پہلا مصرعہ ہے یا دوسرا۔ ان کی یہ مشکل ان کے ایک شاعر دوست نے یہ بتا کر حل کر دی کہ یہ شعر کا دوسرا مصرع ہے اور پہلا مصرع یہ ہے، کیوں ڈھونڈ رہے ہو کسی دیوار کا سایہ۔اس کالم میں مصنف نے عمران خان کی حد سے بڑی ہوئی خودی سری کو ہدفِ تنقید بناکر انہیں تحمل مزاجی اختیارکرنے کا مشورہ دیا۔یہ کالم8نومبر 2015ء کو شائع ہوا۔انہوں نے لکھاکہ،
عمران خان اپنے دوسری اہلیہ ریحام خان سے قطع تعلق کرنے کے بعد کل 3نومبر کو پشاور میں پہلی بار میڈیا کے سامنے تشریف فرما ہوئے۔ان کے دائیں بائیں ان کے قریبی ساتھی اور ہمدرد بیٹھے تھے۔ یکا یک کسی صحافی کے ایک سوال پر ان کا چہرہ بگڑ گیا، ماتھے پر بل پڑگئے، آگ بگولہ ہوکر اس صحافی پر خوب برسے۔ بعد میں انکشاف ہوا کہ اس غریب، نہ تجربہ کار اور نادان صحافی نے ان سے جو سوال کیا وہ کچھ مناسب نہ تھا، یہ سوال عمران کی حالیہ طلاق کی خبر سے متعلق تھا۔ جسے سنتے ہی عمران ماضی قریب میں چلے گئے اور ان کا بلڈ پریشرایک دم شوٹ کرگیااور وہ اس صحافی پر بری طرح برہم ہوئے۔
24 /نومبر 2015ء کو انہوں نے اچھی اور بری حکمرانی پر ایک کالم لکھا جس میں انہوں نے اس وقت کے حکمرانوں کو نوک قلم پر رکھتے ہوئے تنقید کے نشتر سے یہہ باور کرانے کی کوشش کی کہ اچھی حکمرانی کے خود نمونہ بننا پڑتا ہے، غیر ملکی دوروں پر رقوم برباد کرنے کے بجائے وطنِ عزیز میں زیادہ وقت رہ کر اپنے ہم وطنوں کی بپتا سننی پڑتی ہے۔اس کالم میں انہوں نے ایک وزیرِ موصوف کا نام لے کر ان کی اچھی بات کو من وعن شاملِ کالم کیا اور دوسری طرف افواجِ پاکستان کی ستائش بھی کی۔ان کا ایک اور کالم جو21 /اکتوبر 2015کو شائع ہوا اس میں انہوں نے بھارتی صحافی، کالم نگار اور سیاستدان سدھندرا کلکرنی کے پختہ اردوں کو خراجِ تحسین پیش کیا اور دنیا کوبھارت کا اصل چہرہ دکھایا۔اس کالم کا عنوان تھا،”کلکرنی کا منہ کالا۔بھارت کا اصل چہرہ“۔
پاکستان کی تاریخ اور عدالتی تاریخ کا ایک معروف نام افتخارمحمد چوہدری ہے جس نے اپنے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ہونے کا بھرپور فائدہ اٹھایا اور کئی سال تک جمہوری حکومتوں کی موجودگی میں حکمرانی کی۔ صمدانی صاحب نے ایک کالم ان کے بار بھی لکھا لیکن یہ تب لکھا جب وہ ریٹائرڈ ہوچکے تھے وگرنہ کیا معلوم انہیں بھی توہینِ عدالت کا نوٹس مل جاتا۔ ”پرجوش معانقہ کیا گل کھلائے گا“ میں انہوں نے بھارتی صدرمودی کے دورہ پاکستان اور اس وقت کے وزیراعظم سے ان کی اچانک لیکن انتہائی مختصر ملاقات کو موضوع بنایا۔وہ لکھتے ہیں:
دونوں کے درمیان نہ تو باقاعدہ ملاقات ہوئی، نہ پریس کانفرنس کی گئی اور نہ ہی مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا۔ بہ ظاہر ایسا محسوس ہوا کہ جیسے چلتے چلتے راستے میں اپنا گاؤں آیا، سوچا کہ چلو اپنے پرانے جاننے والوں سے ملاقات کر تے جائیں اور ان کے ساتھ ایک کب چائے پی لی جائے تاکہ سفر کی تھکن بھی اتر جائے، اگلے پر احسان بھی ہوجائے گا،نام بھی ہوگا،چرجہ بھی۔
ملکی معاشی حالات اور سیاستدانوں کی سوچ کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے اپنے کالم ”ایک فیصد میں پانچ کروڑ۔سودا برا نہیں“ میں لکھا کہ ”ایسا وزیر و خزانہ قسمت سے ملتا ہے جو ہر دم اس فکر میں رہتا ہو کس طرح غریبوں کو غریب اور امیروں کو امیر بنانے کی اسکیمیں متعارف کرائی جائیں؟ قرض کس طرح حاصل کیا جائے؟ اور پھر قرضوں کی ادائیگی کس طرح کی جائے“۔یقیناً سچ لکھا لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ جو کل غلط وہ آج بھی غلط ہے اوریہ گزشتہ ستر سال سے ہو رہا ہے اور نا جانے کب تک ہوتا رہے گا۔
کالموں کے اس مجموعے میں انہوں نے ایک کالم ایسا بھی شامل کیا ہے جو ایک ایسے موضوع پر رقم کیا گیا ہے جو فی الواقعی ایک تاریخی اور رفاع عامہ کا کام ہے کہ حکومت خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والوں کے لیے مفت علاج کی سہولتیں فراہم کرے گی۔ ڈاکٹر صمدانی لکھتے ہیں۔
وفاقی حکومت کی جانب سے ملک کے غریب عوام کے لیے نیشنل ہیلتھ انشورنس پروگرام کا اعلان کیاجس کے تحت خط افلاس سے نیچے کی زندگی گزانے والے افراد جن کی تعداد 32لاکھ خاندان بتائی گئی ہے کو مفت میڈیکل کی سہولیات حکومت وقت کی جانب سے مہیا کی جائیں گی۔ بظاہر دیکھا جائے تو یہ ایک مستحسن اقدام ہے۔ شکر ہے حکومت کو غریبوں پر ٹیکس لگا کر اپنی آمدنی میں اضافہ کرنے یا ٹیکس خسارہ پورا کرنے کے علاوہ بھی کچھ خیال آیا۔ وزیر اعظم میاں نواز شریف صاحب نے فرمایا کہ یومیہ 200روپے آمدن والے افراد کو قومی صحت کارڈ جاری کیا جائے گا، ہر خاندان کو سالانہ 3لاکھ روپے تک علاج معالجہ کی سہولت حاصل ہوگی،علاج کی رقم تجاوز کرنے پر بیت المال مزید3لاکھ روپے دے گا۔
سعودی عرب اور ایران کے مابین2015-16 میں تعلقات انتہائی کشیدہ ہوگئے تھے جب سعودی حکومت نے کچھ افراد کو دہشت گرد قرار دے کر انہیں سرِ عام موت کی سزا دی تھی۔ ایسے میں ڈاکٹر صمدانی حالات کا باریک بینی سے مطالعہ کرتے رہے اور پھر ان کے قلم نے 15 / جنوری 2016 کو”سعودی ایران تنازع اور پاکستان کی حکمت ِعملی“ کے عنوان سے فہم وفراست سے لبریز کالم لکھا جس سے ایک ا قتباس یہاں درج کیا جارہا ہے۔ اس اقتباس سے میری بات کی تصدیق ہو سکے گی کہ صمدانی صاحب کوئی بھی کالم لکھنے سے پہلے اس کے تمام پہلوؤں پر نظر دوڑاتے ہیں، اس کے مثبت اور منفی اثرات کا تجزیہ کرتے ہیں اور پھر اسے احاطہ ئ تحریر میں لاکر اخبار کی زینت بناتے ہیں۔
پاکستان دنیا کی ایک اہم اسلامی مملکت ہے۔ دنیائے اسلام کی دو اہم ریاستوں سعودی عرب اور ایران کے مابین ہونے والی کشیدگی اور سفارتی بحران میں پاکستان کی حکمت عملی کیا ہونی چاہیے اس کے حوالے سے مختلف آرا، تجاویز، مشورے منظر عام پر آرہے ہیں۔ سعودی عرب سے پاکستان کی قربت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔اگر یہ کہا جائے کہ سعودی سرزمین سے پاکستان کے تعلقات سات سمندروں سے بھی بڑھ کر ہیں تو غلط نہ ہوگا۔ سعودی عرب پاکستانی مسلمانوں کا روحانی مرکز و منبع ہے۔درحقیقت پاکستانی مسلمانوں کا جسم پاکستان میں ضرور ہے لیکن یہاں کے ایک ایک مسلمان کی روح تو مکہ اور مدینہ میں ہے۔ پاکستانی عوام کسی بھی اعتبار سے، کسی بھی مرحلے پر سعودی عرب پر اٹھنے والی انگلی کو بھی برداشت نہیں کرسکتے۔دوسری جانب ایران پاکستان کا اہم اسلامی پڑوسی ملک ہی نہیں بلکہ دونوں ملکوں کے عوام کے درمیان خصوصی عقائد کا رشتہ نازک صورت حال لیے ہوئے ہے۔فقہی و مسلکی اختلاف ضرور پایا جاتا ہے لیکن دونوں ممالک کے مسلمانوں کی بنیاد ایک ہی ہے۔ پاکستان دونوں کے لیے اہم ہے اور دونوں پاکستان کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔
ایک سے روح کا رشتہ ہے تو دوسرے سے جسمانی تعلق ہے۔
اسی سلسلے میں انہوں نے ایک اور کالم 20/جنوری کو لکھا جس میں وزیر اعظم اور سپہ سالار پاکستان کے مصا لحتی مشن کی ستائش کی اور اسے خوش آئیند قراردیا۔انہوں نے لکھا:
صدشکر کہ پاکستان کے وزیر اعظم میاں نواز شریف، سپہ سالا ر راحیل شریف اپنے وفد کے ہمراہ دوست اسلامی ملک سعودی عرب اور ایران کے درمیان پیدا ہوجانے والے بحران کے حل کے لیے ثالثی کردار ادا کرنے سعودی عرب تشریف لے گئے۔ جس دن سے دونوں اسلامی ممالک کے درمیان کشیدگی اور سفارتی بحران پیدا ہوا تھا پاکستان کے عوام کی سوچ کا دھارا یہی تھا کہ پاکستان کے لیے دونوں ہی اسلامی ممالک اہم ہیں، ان دونوں کے درمیان کشیدگی کے اثرات پورے عالم اسلام پر ہوں گے۔
ان کی عالمی حالات پرگہری نظر ہے اور بین الاقوامی سطح پرہونے والی تبدیلیوں کے ساتھ ساتھ وہ ملکی صورتِ حال سے بھی بہرہ مند نظر آتے ہیں؛ چنانچہ اسی سال جب پاکستان کے سپہ سالار کی ریٹائرمنٹ کی بحث چلی اور سپہ سالار نے ایکسٹینشن نہ لینے کا اعلان کرکے سب کو حیران کر دیا تو ڈاکٹر صمدانی نے لکھا؛
سپہ سالار پاکستان جنرل راحیل شریف کی ریٹائرمنٹ کے حوالے سے گردش میں رہنے والی تمام خبروں نے دم توڑ دیا جب سپہ سالان نے یہ اعلان کیا کہ وہ مدت ملازمت میں توسیع نہیں لیں گے۔جنرل صاحب نے یہ فیصلہ کر کے یہ ثابت کردیا کہ وہ ایک سچے سپاہی ہیں۔ انہیں قومی مفاد عزیز ہے اپنی ذات نہیں۔ جنرل صاحب نے جب سے یہ فیصلہ کیا کہ وہ پاکستان سے دہشت گردی کو جڑ سے ختم کرکے دم لیں گے، ان کے اس عزم کا ساتھ پاکستا ن کے ہر طبقہ فکر نے کھلے دل اور بے خوف و خطر ہوکر دیا۔ دہشت گردوں کا قلہ قما کرنے کے لیے جو اقدامات سپہ سالار نے کیے اور جس طرح ان اقدامات پر عملی طور پر عمل عوام الناس کو نظر آیا، پاکستانی عوام کے دلوں میں سپہ سالار کی قدر و قیمت میں اضافہ ہوتا گیا اور انہوں نے محسوس کیا کہ جنرل راحیل شریف حقیقت میں پاکستان کے سچے ہمدرد، مخلص اور ملک کی بہتری کے لیے کچھ کرنے کا پختہ عظم رکھتے ہیں۔
پاکستان انٹر نیشنل ائیر لائنز جب سے قائم ہوئی ہے تب سے خبروں میں رہتی ہے۔ حکومتوں کے بدلنے سے اس کی محکمانہ کارکردگی ہمیشہ متاثر ہوتی ہے۔ ایک حکومت آتی ہے تو اس کی نج کاری کی بات کرتی ہے تو اپوزیشن اس کی مخالفت کرکے اس کے ایل کاروں کی ہمدردیاں سمیٹتی نظر آتی ہے اور یہ سلسلہ ایک مدت سے چل رہا ہے اور معلوم نہیں کب تک چلتا رہے گا۔ ڈاکٹر صمدانی نے اپنے ایک کالم میں اسے بھی اپنا موضوع بناتے ہوئے لکھا کہ”پی آئی اے: چلے نہ چلے نقصان ہی نقصان“۔انہیں اس بات کا بھی دکھ ہے کہ جب کبھی بھی ہمارے ملک میں احتساب کا نام لیا جاتا ہے تو اس کا صاف مطلب دوسروں کا احتساب ہوتا ہے کیونکہ ”احتساب: دوسروں کا حلال اپنا حرام“ ہوتا ہے۔
ڈاکٹر صمدانی کا ایک کالم جس کے لیے وہ بجا طورپرداد وتحسین کے مستحق ٹھہرتے ہیں وہ ہے ”بنتِ حوا کے تحفظ کا بل 2015“ اس کالم میں انہوں نے پنجاب اسمبلی سے منظور ہونے والے ایک بل کاتفصیل سے تذکرہ کیا ہے، وہ لکھتے ہیں:
پنجاب اسمبلی نے ’خواتین کے تحفظ کا بل 2015‘ منظور کر کے خواتین پر تشدد، بد کلامی، مارپیٹ، معاشی استحصال، جذباتی اور نفسیاتی تشددنیز سائبر کرائمزجیسے گھناؤنے کرائم کی روک تھام کی عملی کوشش شروع کردی۔ بل میں خواتین کے تحفظ کے لیے شیلٹر ہوم، شکایات کے ازالے کے لیے ٹال فری نمبر قائم کیا جائے گا، جب کہ تحقیقات کے لیے ڈسٹرکٹ پروٹیکشن کمیٹی قائم کی جائے گی، پروٹیکشن آفیسر شکایت ملنے کے بعد متعلقہ شخص کو مطلع کرنے کا پابند ہوگا، بل کے تحت پروٹیکشن آفیسر سے مزاحمت کرنے پر چھ ماہ تک کی سزا اور پانچ لاکھ روپے جرمانہ جب کہ شکایت یا اطلاع کرنے پر تین ماہ کی سزا اور پچاس ہزارسے ایک لاکھ روپے تک جرمانہ کیا جا سکے گا، غلط شکایت کی صورت میں خاتون کو تین ماہ قید اور پچاس ہزار روپے جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جا سکیں گی، متاثرہ خاتون کو گھر سے بیدخل نہیں کیا جاسکے گا، اخراجات بھی مرد اٹھائے گا، نان نفقہ ادا کرنے سے انکار پر عدالت تشدد کے مرتکب مرد کی تنخواہ سے کٹوتی کر کے ادا کرسکے گی،بل میں یہ بھی درج ہے کہ خواتین پر تشدد کرنے والے مرد کو دو دن کے لیے گھرنکالا کر دیا جائے گا، تشدد کرنے والے مرد وں کو جی پی ایس ٹریکرسسٹم کی تنصیب کو عدالت کے حکم سے مشروط کیا گیا ہے، جی پی ایس ٹریکر سسٹم والے کڑے (شناختی کڑے) کو بازو سے اتارنے پر ایک سال قید اور پچاس ہزار سے دو لاکھ روپے تک جرمانے کی سزا ہوسکتی ہے،۔۔۔
اس کالم کو پڑھ کر مجھے یوں محسوس ہوا جیسے آسٹریلوی قوانین اب پاکستان میں بھی نافذالعمل ہوں گے کیونکہ اسی طرح کا قانونی تحفظ آسٹریلیا میں خواتین کو حاصل ہے جس کا بعض اوقات ناجائز استعمال بھی دیکھنے میں آیا۔ ایسے قوانین سے فیمانسٹ سوسائٹی جنم لیتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں شاونزم ہے اور مرد خواتین کو ان کا وہ جائز حق نہیں دیتے جس کی وہ مستحق ہیں اور جو حق انہیں اسلام نے دیا ہے۔
”رشحاتِ قلم“ کا اگلا موضوع جس کے تحت صمدانی صاحب نے پانچ کالم جمع کیے ہیں، وہ”شخصیات“ کاہے۔ ان شخصیات میں اولالذکردو پر میں نے کبھی نہیں لکھا لیکن ثانی الذکر تین پر میرے مضامین مختلف اخبارات میں شائع ہو چکے ہیں۔
کالموں کے اس مجموعے میں ڈاکٹر صمدانی صاحب نے سب سے پہلے جس شخصیت پر قلم اٹھایاہے وہ حکیم محمد سعید شہید کی ہے۔ان کی شخصیت اور کام ایک الگ نشست کا متقاضی ہے کہ یہی وہ شخصیت ہیں جن پر صمدانی صاحب نے تحقیقی مقالہ لکھ کر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔
شخصیات کے تحت انہوں نے دوسرا کالم علامہ محمد اقبالؒ کے فرزندِ ارجمند جسٹس جاوید اقبال مرحوم کی شخصیت پر لکھا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں جاوید اقبال نے ”زندہ رود“ لکھ کر علامہ اقبال ؒ سے عقیدت رکھنے والوں پر ایک بڑا احسان کیا اور نہ صرف احسان کیا بلکہ ملتِ اسلامیہ کے نابغہئ روز گار، شاعر ِ مشرق، حکیم الامت اور مفکرِ پاکستان حضرت علامہ اقبالؒ کی شخصیت کو ان کے چاہنے والوں کے لیے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے تاریخ کے اوراق میں محفوظ کردیا۔وہ ”فرزندِ اقبال:دانش کی علامت“ میں لکھتے ہیں۔
جسٹس ڈاکٹر جاوید اقبال کے لیے تو اتنا ہی کافی ہے کہ وہ علامہ اقبال کے بیٹے تھے لیکن وہ از خود بے بہا خوبیوں، صلاحیتوں کے مالک تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی میں کسی لمحہ، کسی موقع پر اس بات کا فائدہ نہیں اٹھایا کہ وہ ایک عظیم شخصیت کے فرزند ہیں۔ انہوں نے قانون و انصاف کی بالا دستی اور علم و فضل میں جو مقام حاصل کیا اپنے زورِ بازو پرکیا۔5اکتوبرکو ان کی 91ویں سالگرہ تھی، وہ اسپتال میں زیر علاج تھے، خواہش رہی ہوگی کہ وہ اپنے گھر جاکر اپنے اہل خانہ کے ہمراہ اپنی سالگرہ منائیں گے لیکن قدرت کو تو کچھ اور ہی منظور تھا۔ انسان سوچتا کچھ ہے، منصوبے کچھ بناتا ہے ہوتا وہ ہے جو مالک ِکائینات نے اس کے لیے لکھ دیا ہوتا ہے۔ قدرت نے یہ دن اور تاریخ ان کی سالگرہ کے بجائے ان کی دنیاوی زندگی کااختتامی دن تھا۔
جمیل الدین عالی آسمانِ علم وادب پر کئی دہائیوں تک روشنی بکھیرنے کے بعد 23نومبر 2015ء کو اس جہانِ فانی سے جہانِ ابد کو سدھار گئے۔ان کے انتقالِ پرملال پر ڈاکٹر صمدانی نے 25نومبر2015ء کو ایک بعنوان”عالی ؔجی بھی رخصت ہوئے“ تحریر کیا۔ اس کالم سے اقتباس ملاحظہ کیجیے۔
وُہ ہجر کی رات کا ستارہ وہ ہم نفس ہم سخن ہمارا
سدا رہے اس کانام سُنا ہے کل رات مرگیا وہ
انتہائی دکھ اور افسوس اردو ادب کا مینار مَلک العرش کے پاس پہنچ گیا۔ اللہ تعالیٰ جمیل الدین عالی ؔ کی مغفرت فرمائے انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے آمین۔ عظیم شاعر، نثر نگار، وطن کی محبت کے نغموں کا خالق، کالم نگار آج ہم سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے رخصت ہوگیا۔ عالیؔ جی اپنے خوبصورت کلام اور اپنی تحریروں میں ہمارے ساتھ ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ وہ بعض ایسے حسین نغموں کے خالق ہیں جیسے ’اے وطن کے سجیلے جوانوں‘، ’جیوے جیوے پاکستان‘ اور میرا پیغام ہے پاکستان‘ ان نغموں کو معروف گلوکاروں میڈم نورجہاں، شہناز بیگم اور نصرت فتح علی نے گایا۔ وطن سے محبت کے یہ نغمے عالیؔ جی کو تا ابد زندہ رکھیں گے۔
اس سلسلے کی تیسری شخصیت انتظار حسین ہیں جن کا انتقالِ پرملال2 فروری کو ہوا اور صمدانی صاحب نے 6فروری 2016ء کے اپنے کالم ”انتظار حسین بھی رخصت ہوئے“ میں لکھا۔
زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا
ہمیں سوگئے داستاں کہتے کہتے
پاک و ہند کے صفِ اول کے ادیب، علامتی اور استعاراتی اسلوب کے افسانہ نگار، شاعر، کالم نگار، تنقید نگار، کہا نی نویس، ڈرامہ نگار انتظار حسین لاہور میں 2فروری 2016کو 93برس کی عمر میں انتقال کر گئے انا للہ و انالیہ راجعو ن۔ انتظار حسین 7دسمبر 1923ء کو ہندوستان کے ضلع میرٹھ، بلند شہر میں پیدا ہوئے۔ قیام پاکستان کے وقت جب کہ ان کی عمر 22 سال تھی پاکستان ہجرت کی اور لاہور کو اپنا مسکن بنا یا۔
صمدانی صاحب کا خاص اسلوب جو خاکہ نگاری میں نظر آتا ہے اس کی ایک واضح جھلک اس کالم میں بھی قاری کی توجہ اپنی طرف مبذول کراتی ہے۔ انہیں انہیں کسی بھی شخصیت کے خد وخال سلیقے، قرینے اور ادبی طریق سے بیان کرنے کا ملکہ حاصل ہے چنانچہ انتظارحسین کی شخصیت کا خاکہ اس مختصر سے کالم میں بھی بیان کرنے کی قدرت رکھنے کا واضح ثبوت اور مثال ہے۔
وہ نستعلیقی قسم کے انسان تھے۔ چھوٹا قد، صاف ستھرا گول چہرہ، سفیدکھلتا ہوا رنگ، چہرہ پر خوش نما مسکراہٹ، دھیمی اور مدھر آواز، اونچی ناک، باریک ہونٹ،آنکھوں میں سوجھ بو جھ کی چمک، کشادہ پیشانی، صاف ستھری شخصیت اور صاف ستھرا لباس، داڑھی مونچھ سے آزاد کلین شیو۔ سر پر مختصر بال جن میں چاندی نمایاں، سنجیدہ طرز گفتگو، معلومات کا خزانہ،ہر موضوع پر تفصیلی اور حوالائی گفتگو، دل میں اتر جانے والی مسکراہٹ، المختصر صورت شکل، وضع قطع،چہرے مہرے سب سے شرافت، تحمل، وضع داری اور معصومیت کا خوشگوار اظہار۔
فاطمہ ثریا بجیا کا دس فروری کو انتقال ہوا اور میں نے ان کے انتقال پر”فاطمہ ثریا بجیا۔سب کی بجیا“ کے عنوان سے ایک تعزیتی مضمون لکھا جسے میں نے آسٹریلیا میں منعقدہ تعزیتی اجلاس میں پیش بھی کیا اور ”پہچان انٹرنیشنل“ میلبورن نے اسے بجیا کی ایک نایاب تصویر کے ساتھ شائع کیا۔ اسی تناظر میں ”بجیا بھی چل بسیں“ ڈاکٹر صمدانی کا کالم 16فروری 2016ء کو زینتِ اشاعت بنا۔انہوں نے ان کی پیدائش اور تعلیم کے متعلق تحریر کیا ہے۔
بجیا کے آبا ء کا وطن ہندوستان کا تاریخی شہر بدایوں ہے، یہاں ہندوستان کے بادشاہ شمس الدین التمش گورنر رہے، یہ حضرت نظام الدین اولیا ؒ کا شہر ہے، حضرت امیر خسرو ؒ بھی اسی شہر کے فرزند ارجمند تھے۔بجیا کے آباؤ اجداد اسی شہر کے باسی رہے۔ بجیا جن کا پورا نام فاطمہ ثریا بجیا تھا یکم ستمبر 1930ء کو حیدرآباد دکن کے ضلع رئچور میں پیدا ہوئیں۔یہ ضلع کر ناٹک میں واقع ہے۔ ان کا خاندان علمی و ادبی ذوق کا حامل تھا انہیں علم و ادب سے محبت ورثے میں ملی۔ فاطمہ کے والد قمر مقصود حمیدی علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے انگریزی میں گریجویٹ تھے۔ بجیا کی تعلیم گھر پر ہوئی انہوں نے باقاعدہ کسی مدرسہ، اسکول میں تعلیم حاصل نہیں کی۔ ان کے گھر کے علمی اور ادبی ماحول کا بجیا نے اس قدر اثر قبول کیا کہ انہیں اردو کے علاوہ انگریزی، عربی، فارسی اور ہندی زبان پرمہارت حاصل ہوگئی۔بجیا نے جس گھر میں آنکھ کھولی اس گھر میں ایک قیمتی و نایاب لائبریری موجود تھی جس میں کتابوں کی تعدا تیس سے چالیس ہزار بتائی جاتی ہے۔۔
وہ بجیا کے دیگر بہن بھائیوں کے بارے رقم طراز ہیں۔
بجیا کے تمام ہی بھائی بہن اپنے اپنے طور پر، اپنے اپنے پیشے میں معروف ہیں، ان کی بہن سارہ نقوی بی بی سی میں نیوز کاسٹر رہیں، زہرہ نگاہ معروف شاعرہ ہیں، احمد مقصود سی ایس پی آفیسر کی حیثیت سے معروف ہوئے، انور مقصود سے کون واقف نہیں، زبیدہ طارق کھانا پکانے کی ماہر ہیں، شہرت کی بلندیوں پر ہیں۔ اس طرح فاطمہ ثریا بجیا کے تمام بہن بھائی اپنی اپنی جگہ پہچان رکھتے ہیں اور ہر سطح پر فنونِ لطیفہ، ادب اور ثقافت سے گہرا تعلق رہا ہے ان کی والدہ محترمہ پاشی صاحبہ بھی ادب کے حوالے سے کمال کی خاتون تھیں۔ بقول پروفیسر سحر انصاری ’ان کے تہذیبی اور ادبی ذوق اور ہنر مندی کی وارث صرف ثریا بجیا نظر آتی ہیں‘۔
کالموں کے اس مجموعے”رشحاتِ قلم“ میں تیسرے نمبر پر صمدانی صاحب نے ان کالموں کو اکھٹا کیا ہے جو انہوں نے ”عالمی دن“ کی مناسبت سے لکھے۔ یہ تعداد کے لحاظ سے تین ہیں۔
”ویلنٹائن ڈے ہماری روایت نہیں“ میں صمدانی صاحب نے اس تاثر کو رد کرنے کی سعی کی ہے کہ اس دن کو منانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ موصوف نے فکری حوالے سے اپنے لکھے گئے اس کالم میں نسلِ نو کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ ایسے ایام منانا قطعی طور پر ہمارے معاشرے اور ہماری اقدار کے خلاف ہے۔ وہ لکھتے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں طرح طرح کے رسم و رواج عام ہوچکے ہیں۔ بعض بعض کا تعلق کسی بھی طور اسلامی اقدار سے نہیں پھر ہم ان غیر اسلامی طور طریقوں پر، روایات پر عمل پیرا ہیں۔ بعض رسموں میں ہم نے غیر اسلامی طریقوں کی آمیزش کر لی ہے۔ ان میں سے ایک 14فروری کوہر سال منائی جانے والا تہوار ویلنٹائن ڈے بھی ہے۔ اس تہوار کا اہتمام کرنا اہل مغرب کی روایت ہے، خاص طور پر عیسائی مذہب کے لوگ اس دن ویلنٹائن ڈے کے نام سے خوشیاں مناتے ہیں، نوجوان لڑکے اور لڑکیاں محبت کے پیغامات کا تبادلہ کرتے ہیں۔ اس تہوار کا مسلمانوں سے یا اسلامی روایات سے دور دور کا بھی واسطہ اور تعلق نہیں لیکن ہمارے نوجوان اس غیر اسلامی تہوار میں شامل ہوکر بلاوجہ گناہ کے مرتکب ہورہے ہیں۔
اسی سلسلے کے ایک اور کالم میں جوصمدانی صاحب نے ضعیف العمر افراد کے عالمی دن کے حوالے سے رقم کیا ہے، اس میں انہوں نے دنیا کی کل آبادی اور اس میں ساٹھ سال کی عمر کے افراد کی تعداد تک مہیا کی ہے؛ جو اس بات کا بین ثبوت ہے کہ مصنف کالم لکھنے سے پہلے موضوع کی مناسبت سے اس کا حوالہ جاتی مواد اکھٹا کرتے ہیں اور پھر اپنا کالم ترتیب دیتے ہیں۔ اس عالمی دن کے حوالے سے ان کا کہنا قابلِ توجہ ہے کہ۔
مغربی دنیا عمر رسیدہ لوگوں کو old personsکہتی ہے۔ا س کے معنی تو ضعیف العمر لوگ ہی ہیں جب کہ اسلامی دنیا انہیں ’بزرگ شہریوں‘کے نام سے پکارتی ہے۔ مغربی ممالک میں ضعیف العمر لوگوں کے لیے زندگی گزارنے کا ایک الگ طریقہ کار ہے۔ وہ ان کی سہولتوں، آسائشوں کے لیے بے شمار طریقے اختیار کرتے ہیں لیکن ”اولڈ ہاوسیس“ (Old Houses)کا تصور مغربی دنیا کے لیے مخصوص ہے۔ ان اولڈ ہاوسیس میں ضعیف العمر خواتین ومرد اپنی عمر کا آخری حصہ اپنے بچوں سے الگ رہ کر گزارتے ہیں۔اسلام نے رشتوں کو احترام دیا، انہیں عزت دی، ان کی وقعت اور بلندی و مرتبے میں اضافہ کیا۔ اسلامی معاشرہ میں گھر کا بزرگ جیسے جیسے عمر کے بلند حصہ پر پہنچتا ہے اس کی عزت واحترام میں اضافہ ہی ہوتا ہے۔ بد قسمتی سے اب ہمارے ملک میں بھی ایدھی ہوم اور دیگرلاورثوں کے ادارے مغرب کے اولڈ ہاؤسیز کی تصویر پیش کرتے ہیں۔ان اداروں میں لاورثوں کے علاوہ ایسے ضعیف العمر افراد بھی موجود ہوتے ہیں جنہیں ان کی اولاد نے سہارا دینے سے انکار کردیا ہوتا ہے۔ لیکن ایسے افراد تعداد کے اعتبار سے بہت کم ہیں۔ ہمارے معاشرہ میں ابھی صورت حال بہت بہتر اور بزرگوں کی عزت و احترام پایا جاتا ہے۔
عالمی دن کے حوالے سے لکھا جانے والا تیسرا کالم ”معذوروں کا عالمی دن“ کے عنوان سے رقم کیا گیا ہے، جس میں صمدانی صاحب نے بڑی جانفشانی سے معذور افراد کی آواز بن کر ان کی ترجمانی کی ہے اور حکمرانوں اور قوم کی توجہ اس اہم ایشو کی طرف مبذول کرائی ہے۔وہ لکھتے ہیں:
ایک سروے کے مطا بق دنیا کی کل آبادی کا 15فیصد یا ایک بلین افراد جن میں مرد، عورتیں اور بچے شامل ہیں کسی نہ کسی طور معذوری میں مبتلا ہیں۔ آرگنائیزیشن برائے اکنامک کوآپریشن و ڈیولپمنٹ (OECD)کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ترقی پزیر ممالک جہاں تعلیم عام نہیں وہاں معذوروں افراد تعدادا میں زیادہ ہیں۔ان میں خواتین کی تعداد زیادہ بتا ئی جاتی ہے۔ ترقی پزیر ممالک میں معذوروں کی تعداد 80 فیصد بتائی گئی ہے۔ یونیسف(UNICEF)کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایسے بچے جو کسی اعتبار سے معذور ہیں اور شاہراہوں پر زندگی گزارتے ہیں تعدادکے اعتبار سے 30فیصد ہیں۔ معذورافراد کو جائز اور مناسب سہولیات فراہم کرنے کے لیے دنیا کے 45ممالک میں قانون سازی کی گئی۔
انہوں نے اس مسئلے کو مزید اجاگر کرتے ہوئے لکھا ہے:
پاکستان میں معذور افراد کو مختلف سرکاری محکموں میں ملازمت کے مواقع فراہم کرنے کا حق معذوراں کو ۱۸۹۱ء میں جاری ہونے والا ایک آرڈیننس دیتا ہے یہ آرڈیننس Disabled Persons (Employment
and Rehabilitation) Ordinance 1981 ہے۔ اس وقت کی حکومت یہ آرڈیننس تو جاری کردیا لیکن سرکاری محکموں میں اس قانون کاا طلاق آج تک نہیں ہوا۔ پاکستان میں معذور افراد کل آبادی کا 2.49فیصد ہیں۔ پاکستان کے مختلف صوبوں میں معذور افراد کی تعدادجو (PWD's statistics in Pakistan)نے اپنے سروے میں بیان کی ہے اس کے مطابق صوبہ پنجاب میں 2.5فیصدیعنی 2816795ہے،صوبہ سندھ میں 3.05فیصدیعنی 1432148ہے،صوبہ خیبر پختونخواہ میں 2.1فیصدیعنی 566265ہے،صوبہ بلوچستان میں 2.33فیصدیعنی210391ہے،اسلام آباد میں 1.20فیصدیعنی 16352ہے،کل معذورین تعداد کے اعتبار سے 5035951ہیں۔ نادرا نے90 ہزار کے قریب معذور افراد کو کارڈ بھی جاری کردیے ہیں۔ حکومت پر لازم ہے کہ مختلف محکموں میں جو4049 اسامیاں خالی ہیں معذور افراد ان میں ملازمت فراہم کرے۔ تاکہ معاشرے کے اس اہم طبقے کو اس کا جائز حق مل سکے۔2002 ء میں حکومت کی جانب سے National Policy for Persons with Disabilitiesبھی جاری کی جاچکی ہے۔
ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی کی زندگی کا ایک بڑا حصہ اردو زبان و ادب کی خدمت میں گزرا ہے اور انہیں اردو زبان کے نفاذ کے لیے جس پلیٹ فارم پر بھی موقع میسر آتاہے وہ اس کے لیے آواز بلند کرتے رہتے ہیں۔اسی مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے انہوں اردو کی معروف ویب سائیٹ ”ہماری ویب“ کی صدارت بھی قبول کررکھی ہے۔صمدانی صاحب نے اپنے کالموں کے مجموعے”رشحاتِ قلم“ میں بھی دو کالم علم وادب ونفاذ ِ اردو کے عنوان کے تحت درج کیے ہیں۔ اول الذکر ”ادب کا نوبل انعام“ میں علم وادب کا تذکرہ کیا گیا ہے اور 2015ء کے نوبل انعام یافتہ کے بارے معلومات فراہم کی ہیں اور ثانی الذکر”اردو کے نفاذ کا فیصلہ۔آنا کافی کیوں؟ میں انہوں نے اپنے کالم کے اختتام پر لکھا ہے۔
قومی زبان اور اس کے نفاذ کی تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے اردو کو سب سے پہلے 25فروری 1948ء کو پاکستان کی قومی زبان قرار دیا تھا۔اس موقع پر پاکستان کے اولین وزیر اعظم خان لیاقت علی خان نے کہا تھا کہ صرف اردو ہی مغربی اور مشرقی پاکستان کو یکجا و متحد رکھ سکتی ہے۔ لیاقت علی خان کی یہ فکر سچ ثابت ہوئی۔ اگراس وقت اردو زبان کو قومی و سرکاری زبان کے طور پر رائج کردیا جاتا تو ہو سکتا ہے کہ پاکستان دو لخت نہ ہوتا۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے بھی قانون ساز اسمبلی کی قرار داد کے حق میں ہی بات کی تھی۔
”رشحاتِ قلم“کا اگلاموضوع ”دہشت گردی“ ہے اور اس کے تحت بھی صمدانی صاحب نے دو کالم تحریر کیے ہیں۔پہلے کا عنوان ”خوشبوؤں کا شہر۔لہو لہان“ ہے جب کہ دوسرے کا عنوان”پھولوں کے جنازوں کا دن۔سولہ دسمبر“ ہے۔اولالذکر میں انہوں نے 14/نومبر2015کو ہونے والے دہشت گردی کے واقع کو بیان کیا ہے اور ثانی الذکر میں انہوں نے آرمی پبلک اسکول پر دہشت گردوں کی بربریت پر قلم اٹھایا ہے۔اپنے اس کالم کا اختتام کرتے ہوئے صمدانی صاحب لکھتے ہیں۔
دہشت گردی کا نشانہ تو بے شمار پاکستانی بن چکے ہیں لیکن آرمی پبلک اسکول کے معصوم بچوں نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرکے ملک کے عوام میں دہشتگردی سے نمٹنے کاشعور بیدارکیا، ملک کی سیاسی قوت کو باہمی اختلافات کو بھلا کر باہم مل کر دہشت گردی جیسے ناسور کو پاکستان سے نکال باہر کرنے کا حوصلہ عطا کیا ہے۔ فوجی قوت جو دہشت گردی سے پہلے ہی نبرد آزما تھی اس میں نیا جوش و ولولہ پیدا ہوا ہے۔آپریشن ضرب عضب اور کراچی آپریشن سے اب امید ہوچلی ہے کہ ملک کی سیاسی قوت اسی طرح متحد اور متفق رہی تو پاکستان کے بے شمار مسائل خاص طو رپردہشت گردی کی لعنت سے پاکستانی قوم چھٹکارا پالے گی۔آرمی پبلک اسکول کے معصوم اور بے گناہ بچو اب تم اس دنیا میں نہیں رہے۔ تم تو شہادت کا مرتبہ پا چکے ہواور شہیدوں کے لیے جنت کی نوید ہے۔ تمہیں جنت مبارک ہو،جنت کے پھولو تمہیں سلام۔
اسی سانحے کو موضوع بناتے ہوئے میں نے ایک نظم لکھی تو جس کے چند اشعار پیش ہیں:
لہو بہانا مذہب ٹھہرا
خودکش حملہ جنت ٹھہرا
جان گنوانا ایماں ٹھہرا
بھتہ لینا فرماں ٹھہرا
تم کیا جانو مذہب کیا ہے؟
تم کیا جانو مذہب کیا ہے؟
تقاضائے انصاف تو یہ ہے
تم بھی سوے مقتل جاؤ
تم ہو اور ہو تیغِ تیز
چڑھو تم بھی نوکِ نیز
سر تمہارا کاٹا جائے
بہتے لہو سے پوچھا جائے
ظالم اور مظلوم ہے کون؟
شاہد اور مشہود ہے کون؟
تم کیا جا نو مذہب کیا ہے؟
تم کیا جا نو مذہب کیا ہے
میڈیا کی آزادی کے حوالے سے بھی ایک کالم ”رشحاتِ قلم“ کا حصہ ہے۔اس موضوع پر اپنے اکلوتے کالم ”الیکٹرونک میڈیا اور شتر بے مہار آزادی“ میں انہوں نے انتہائی دیانتداری سے سماج میں پھیلائی جانے والی عریانی وفحاشی پر سخت الفاظ میں اظہارِ خیال کیا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ معاملہ واقعی ایسے ہی سخت الفاظ سے بیان کیے جانے کا متقاضی ہے۔ وہ لکھتے ہیں۔
الیکٹرانک میڈیاپاکستان میں آزاد کیا ہو ا، فہاشی، عریانیت، بے حیائی کا کھلے عام دور دورہ ہوگیا۔ جس چینل کا جی چاہتا ہے ڈراموں، اشتہاروں کے نام سے فحش،عریاں اور بے حیا قسم کے سین شامل کرکے کھلے عام دکھاتا ہے۔ ا س پر شرم و ندامت بھی محسوس نہیں کرتے۔ نہیں معلوم اس عریانیت اور فحاشی سے کونسی خدمت وہ کرنا چاہتے ہیں۔ برقی میڈیا کی
ا س بے مہار آزادی نے گھر گھر داخل ہوکر ہماری عزت و آبرو اور ہماری مشرقی روایات کا جنازہ نکال دیا ہے۔
”رشحاتِ قلم“ کا اگلا موضوع ہے ”منشیات ایک لعنت“۔ اس حصے میں صمدانی صاحب نے دو کالم ترتیب دیے ہیں؛پہلے میں انہوں نے پارلیمنٹ ہاؤس میں منشیات کے استعمال پر ارقام کیا ہے اور دوسرے میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے شیشہ کیفے کی بندش کے حکم پر اظہارِ خیال کیا ہے۔
کالموں کے اس مجموعے کے آخر میں ”کتاب اور کتاب میلہ“ کے حوالے سے بھی دو کالم ہی شامل کیے گئے ہیں۔پہلے کالم میں انہوں نے کتاب میلے کو، کتاب کلچر کے فروغ کا ذریعہ قرار دیا ہے جب کہ دوسرے کالم میں دنیائے اردو ادب کے معروف خاکہ نگار شاہد احمد دہلوی پر لکھی گئی ایک کتاب پر اپنا اظہاریہ شامل کیا ہے۔
آپ سب کی سماعتوں کا بے حد شکریہ! دیارِ غیر سے آپ کا ہم وطن۔۔۔۔۔۔۔۔۔افضل رضوی۔



 

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 852 Articles with 1278109 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More