شام کے ساۓ گہرے ہوتے چلے جا رہے تھے نیلا آسمان آہستہ
آہستہ مٹیالے رنگ میں بدلا اور تاریکی چھانے لگی ۔وہ چھت کی آخری سیڑھی پر
بیٹھی دیوار سے ٹیک لگاۓ اس آخری پرندے کو دیکھےگئی جو دور کسی درخت کی
کھوہ میں گم ہوا تھا جہاں شاید اس کا خاندان اسکے انتظار میں ہوگا۔کتنے خوش
قسمت ہوتے ہیں ناں جن کا انتظار کیا جاۓ ۔اس کے لب دھیمے سے وا ہوۓ۔
اور انتظار کرنے والوں کی قسمت؟
اندر کوئی زور سے چلایا تھا۔ وہ ڈر کےاردگرد دیکھنے لگی کہ اندر کا شور
کوئی سن تو نہیں رہا لیکن آج کے تیز رفتار دور میں کسے فرصت اندر تک جھانک
کے دل کا احوال جاننے کی بس جو سامنے دکھتا ہے ہم اسے ہی حق مان لیتے ہیں ۔
اس کا نام تو کچھ اور تھا لیکن موٹی کالی آنکھوں کی نسبت دادی نے نیناں کہہ
کر بلانا شروع کیا تو پھر وہ سب کے لئے ہمیشہ نیناں ہی رہی اصل نام کہیں گم
ہو گیا تھا۔ بالکل اسی طرح جیسے ہادی گم ہوا کہ کوئی اب اس کا ذکر بھی نہیں
کرتا تھا ۔ کہانی سادہ سی تھی کہ دادی کےذیور چرا کر نیناں نے ہی اسے دیئے
تھے تا کہ وہ دنیا کی ایک نامی گرامی یونیورسٹی میں پڑھنے کے لئے جا سکے یہ
ذیور دادی نے اس کے جہیز کے لئے ہی تو رکھے تھے اس لئے اپنی اس چوری پہ
شرمندگی بھی نہ تھی ۔ وہ ہمارے خواب پورے کرنے گیا ہے یہاں خوابوں کی تعبیر
قربانی مانگتی ہے اور میں ہر قربانی کے لئے تیار ہوں۔
پھر قربانیوں کا نیا دور شروع ہوا۔ اپنے سکون کو قربان کرکے مشقت کرتے
ہاتھوں نے نئی جوان ہوتی امنگوں کا گلا خود گھونٹ دیا اسے انتظار کرنا تھا
اس وقت کا جب ہادی لوٹتا پڑھائی تو کب کی ختم ہوچکی تھی اب روزگار کے بنا
کس منہ سے یہاں کا رخ کرتا پھر نیناں کے خواب بھی تو تھے اسکے تمام سپنوں
کی تعبیر اور خوشیاں لوٹاتی مسکراہٹ کے ساتھ اسے واپس آنا تھا۔ پھر یہ
انتظار طویل ہوتا گیا اور آدھے سے ذیادہ بالوں میں چاندی اتر آئی جسے وہ
اہتمام سے مہندی لگا کر چھپایا کرتی اور جس صبح آئینہ دیکھتے آنکھوں کے گرد
نمودار ہوتی جھری دیکهی آنکھوں نے اپنا ضبط کھو دیا تھا۔ اب اس کی خواہشات
اندر ہی اندر سر پٹختی تھیں آخر انہیں وہ باہر کا راستہ دکھاۓ بھی تو کیسے۔
وہ محبت میں راستہ بدلنے کی قائل نہیں تھی لیکن اپنے اندر اٹھتے طوفان کا
کہاں رخ موڑے ۔ ہر راستہ ہی ہادی کی گلی تک جاتا تھا۔
ڈاکٹر مہمند کو پیغام بھیجو میرا بلڈ چیک کر جاۓ جس دن انڈا کھا لوں تیز ہو
جاتا ہے۔ دادی چھت پر چلی آئی اور اسے یوں گم سم خلا میں نظریں جماۓ دیکھ
کر ان کا دل کٹ گیا۔ نکاح میں نہ ہوتی تو آج باقی بچیوں کی طرح اپنے گھر
بار کی کر دیتی۔وہ یہ بات صرف سوچ ہی سکتیں تھیں۔ہادی کے خوابوں نے ان سب
کو تپتے صحرا میں لا کھڑا کیا تھا۔
تو انڈا کھانے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ وہ جھلا کے بولی اور دھپ دھپ سیڑھیاں
اترتے چلی گئی۔ اسے اعتراض انڈے پر نہیں بلکہ آنکھوں سے باتیں کرتے ڈاکٹر
مہمند پر تھا ۔ان کی نظروں کے پیغام وہ اچھے سے جانتی تھی لیکن ان کو وصول
کرنے کی قیمت وہ نہیں چکا پاۓ گی یہ بات بھی اسے معلوم تھی۔ وہ نا چاہتے
ہوۓ بھی کال ملانے لگی۔ اب اسے خود کو بولتی آنکھوں والے مسیحا کا سامنا
کرنے کے لئے تیار کرنا تھا۔
بلڈ پریشر تو ذیادہ تیز نہیں تھا لیکن دادی کو اپنی بیماریاں ڈسکس کرنے کے
لئے ایک سامع چاہیے تھا اور ڈاکٹر مہمند جو کہ ان کا کرایا دار بھی تھااور
بے حد فرصت سے ان کا سامع بن سکتا تھا۔ رات کے نو بج گئے ایسے میں نیناں دو
مرتبہ چاۓ بسکٹ کی ٹرے لے کر اندر گئی اور ادھر ادھر دیکھے بغیر خاموشی سے
تپائی پر دھرے الٹے قدموں باہر آئی تھی۔
ساڑھے نو کا وقت تھا وہ باہر برآمدے میں پلر سے ٹیک لگاۓ اس کے گرد لپٹی
عشق پیچاں کی بیل کا پتہ پتہ توڑ رہی تھی تب دو بھاری بوٹ اس کے قریب آ کر
رکے۔ اس نے ذرا گردن اوپر اٹھائی اور بولتی آنکھوں کوخود پر مرکوز پایا جو
اسے کہہ رہی تھیں کہ وہ ان پر ا عتبار کر سکتی ہے۔ اس سے مذید نہ دیکھا
گیااور نظریں سامنے گیٹ کی رخ پھیر لیں ۔ اسے یاد آگیا کہ وہ تو انتظار کی
مسافر ہے اس کی منزل کا رستہ طویل سہی لیکن امید کا ایک سرا جس کی رسی کتنی
بوسیدہ ہو چکی تھی وہ جان نہ پائی۔
ڈاکٹر مہمند کب کے درمیانی دروازے کے راستے اپنے پورشن کی جانب بڑھ چکے تھے
اور وہ لا متناہی سوچوں کے بھنورمیں گھومتی چلی گئی۔
موسم اچانک بدلنے لگا اور اب کی برسات لگتا تھا اپنے ساتھ بہت کچھ بہا کر
لے جانے والی تھی۔ وہ جب سے نہا کر آئی تھی تولیہ سر پہ لپیٹے پریشان نظر آ
رہی تھی تب ہی درمیانی دروازے کے پار ہونے والی کھٹ پٹ کی جانب دھیان چلا
گیا اور بے اختیار قدم اس سمت اٹھ گئے ۔
وہ اس کمرے کے بالکل وسط میں کھڑی تھی جسے کلینک کی شکل دی گئی تھی ۔ اچانک
اسے یاد آیا کہ تولیا اس کے سر پہ ہی لپٹا ہے لیکن اب واپس جانے کی ہمت نہ
کر پائی ۔اس نے شیشے کی کھڑکی پر ٹپکتی بارش کی بوندوں کو دیکھتے شخص پر
نظریں جمائیں۔
میں آپ پر کتنا اعتبار کر سکتی ہوں؟ گھبرائی ہوئی آواز سن کر ڈاکٹر مہمند
نے پیچھے مڑ کر دیکھا سفید قمیض اور سرخ شلوار میں ملبوس دوپٹے سے بےنیاز
وہ مجسم حقیقت ان کے سامنے کھڑی تھی جو چند لمحے قبل خیالوں میں اٹھکیلیاں
کرتی پائی گئی تھی۔
آپ کتنا اعتبار کرنا چاہتی ہیں ؟ ڈاکٹر مہمند نے گیند اس کے کورٹ میں
لوٹادیا
جتنا ایک مریض کو اپنے معالج پر کرنا چاہیے مجھے اتنا اعتبار درکار ہے۔ وہ
لڑکی اب اپنی گھبراہٹ پر قابو پا چکی تھی۔
میں کوشش کروں گا کہ اعتبار کے اس رشتے کو ٹوٹنے نہ دوں۔ وہ بولتی آنکھوں
سے مسکرایا اور وہ ٹیبل کے قریب مریضوں کی مخصوص سٹول پر بیٹھ گئی۔
آج سے دو ماہ قبل میں نے کمر کی بائیں جانب خارش محسوس کی جو چند دن
کھجلانے کے بعد دانوں کی شکل اختیار کر گئی تھی ۔میں موسمی دانے سمجھ کر
نظر انداز کرتی رہی لیکن جلن کا احساس متواتر ساتھ رہا ۔ آج نہاتے ہوۓ
دیوار گیر شیشے سے دیکھا تو سرخ دانوں کی ایک قطار ہے جو انتہائی تکلیف کا
باعث ہے۔
ڈاکٹر مہمنداب اسے ایک مریض کی نظر سے سن رہا تھا۔
ان دانوں سے مواد بھی نکلتا ہے باوجود اس کے یہ تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔
کیا میں انہیں دیکھ سکتا ہوں۔ ڈاکٹر مہمند نے پرچے ۔پر کچھ لکھتے ہوۓ
پروفیشنل لہجے میں کہا
وہ سن ہوئی تھی ۔ چند منٹ کی خاموشی کے بعد ڈاکٹر مہمند نے اسے اپنی جگہ سے
اٹھتے دیکھا تھا۔ وہ کھڑکی تک گئی بارش کی کن من اب بھی جاری تھی ۔ایک
جھٹکے میں بلائینڈرز گرانے کے بعد وہ مڑی ۔
ڈاکٹر مہمند اسے سوالیہ نظروں سے دیکھ رہے تھے۔
میں روشنی نہیں چاہتی۔ اس نے نظریں چرائیں
ڈاکٹر مہمند نے اپنی پشت کی دیوار کی طرف ہاتھ بڑھا کر روشنی گل کی ۔ اب
کمرے میں صرف نیلے رنگ کا ذیرو پاور کا بلب روشن تھا۔
ڈاکٹر مہمند کانپتی ہوئی لڑکی کے مقابل کھڑے تھے ۔اس نےرخ موڑا اور ڈاکٹر
مہمند کی جانب پشت کر لی ۔
چند لمحوں بعد سفید قمیض چاک سے اوپر اٹھتی دکھائی دی اور قمیض میں ملبوس
وجود کی گھبراہٹ اس کے ہر عضو سے ٹپکتی نظر آنے لگی۔
رہنے دیجئے ۔دفعتاََ ڈاکٹر مہمند نے کہا اور کمرہ دوبارہ سے روشنی میں نہا
گیا۔ اس نے ہاتھ میں پکڑا سفید قمیض کا چاک چھوڑ کر مشکور نظروں سے دیکھا۔
ڈاکٹر مہمند اب الماری کے سب سے نچلے حصے سے ایک گہری جامنی رنگ کی شیشی کی
بوتل نکال رہے تھے.
مجھے لگتا ہے پہلے زخم سے بیکٹیریل انفیکشن ختم کرنا ہوگا اس کے بعد ضروری
ہوا تو دانوں کا معائینہ کر لوں گا۔ ابھی اس کی ضرورت نہیں ۔ ڈاکٹر مہمند
کے اس فعل نے ان کے بارے میں خیالات بدلنے میں مدد دی اب وہ خود کو ہلکا
محسوس کر رہی تھی۔
یہ کیا ہے؟ دواؤں کےپرچے کے ساتھ انہوں نے بڑی سی جامنی شیشی بڑھائی تو اس
نے سوالیہ نظروں سے انہیں دیکھا۔
جنشن وائلٹ یہ جراثيم کش دوا ہے ۔ آپ اسے ابھی استعمال کر سکتی ہیں کیونکہ
یہ بے حد پر اثر دوا ہے۔ اس وقت کوئی دوسری چھوٹی شیشی نہیں ۔
ڈاکٹر مہمند نے دھیمے لہجے میں کہا اور تھوڑی سی کاٹن بڑھا کر ملحق باتھ
روم کی جانب اشارہ کیا۔
آپ با آسانی اس کی کچھ مقدار استعمال کر کے مجھے واپس کر کے جا سکتی ہیں
لیکن کھانے والی دوائيں میڈیکل سٹور سے ضرور منگوا لیجئے گا۔
اس کو اعترض نہ تھا کیونکہ جب خیالات کسی کے بارے میں بدلتے ہیں تو اس کی
موجودگی میں انسان خود کو محفوظ تصور کرتا ہے۔
دوا کا پرچہ میز پر رکھ کر ملحق غسل خانے میں چلی گئی ۔دوا لگا کر جب وہ
باہر نکلی تو ڈاکٹر مہمند کھڑکی کھول رہے تھے ۔ وہ ان کا شکریہ ادا کرتی
جیسے ہی جنشن وائلٹ کی بوتل ان کے ہاتهوں میں تھمانے لگی اس کے کانوں نے وہ
مانوس سی آواز سنی۔پھر لوگوں کا شور ۔ وہ اپنے وہم کو حقیقت میں دیکھنے کی
منتظر یہ بھی نہ دیکھ پائی کہ ڈاکٹر مہمند کو تھمائی گئ بوتل ان کے پکڑنے
سے قبل ہی ذمین بوس ہو چکی تھی اور بادامی رنگ کی ٹائیلز پہ گہرا جامنی
مواد نقش و نگار بنا چکا تھا۔ وہ جلدی میں ٹشو سے ہاتھ صاف کرتے بھاگتی
لڑکی کے پیچھے لپکے تا کہ صورتحال جان پائیں ۔
جیسے ہی انہوں نے درمیانی دروازے سے اس کے پورشن پر قدم رکھا تو چند محلے
داروں اور گھر والوں کے بیچ انہیں مسکراتا ہوا وہ چہرہ نظر آیا جسے وہ ہادی
نام سے جانتے تھے ۔ وہ اپنی پھولی سانسوں پر قابو پاۓ اپنی منزل سے چند قدم
دور خود کو یقین دلا رہی تھی کہ سفر رائیگاں نہیں گیا۔ ڈاکٹر مہمند چلتے
ہوۓ اس کے برابر کھڑے ہو کر پرشوق نظروں سے جذبات سے کھلتا چہرہ دیکھے لگے
اور یہ ہی وہ لمحہ تھا جب ہادی سمیت سب کی نظریں تولیہ سر پہ لپیٹے سفید
تنگ قمیض پر کمر سے تھوڑا اوپر جامنی نشانوں سے پھسلتی ڈاکٹر مہمند کے سلام
کے لئے بڑھے ہاتهوں پر لگے دھبوں تک جا کے رک گئیں تھیں۔ |