خوناب

ایک ایسی جدوجہد کی کہانی جو کہ نامکمل رہ گئ!

دسمبر اپنے ساتھ بڑی تلخ یادیں لے کر آتا ہے ۔ یہاں پردیس میں جیسے ہی برف گرنا شروع ہوتی ہے ویسے ہی اپنے دیس کی سنہری دھوپ کے لیے دل مچلتا ہے ۔پھر میں خاموشی سے اپنے پرانے کاغذات کھول کر بیٹھ جاتا ہوں۔ انہی کاغذات میں میرے زندگی کی ایک نامکمل کہانی ہے جسے میں کبھی مکمل نہ کر پایا۔ ہو سکے تو اسے پڑھ لیجے اور اسے مکمل کرنے میں میری مددکیجے۔
لاہور : جنوری ۱۹۷۰
میں کئی دنوں سےاسی سوچ میں ہوں کہ میری زندگی کی ساری منصوبہ بندی کو تلپٹ کرنے میں نگینہ کی سحر انگیز آنکھوں کا زیادہ قصور ہے یا پھر جنید اور خالد کی دوستی نے میرے ساتھ یہ ہاتھ دکھایا ہے۔آپ پوچھیں گے کہ ایسا کیا ہو گیا ہے ؟ قصہ یہ ہے کہ میں نے اپنے شاندار مستقل ، آسودہ حال ، اور قابلِ ٖفخر ماضی کو محض ایک جذباتی فیصلے کی نذر کر دیا ہے۔ میرے والدین مجھ سے سخت ناراض ہیں۔ وہ اپنے اعصاب کو سکون دینے کے لیے یہ گرمیاں یورپ میں گزارنے کا ارادہ کر چکے ہیں۔ ادھر میں لاھور کے ایک مضافاتی گاؤں میں بیٹھا اپنی زندگی کی بے حد اہم یادیں ایک ڈائری میں محفوظ کر رہا ہوں۔
ظہر کی نماز کے وقفے کے ساتھ ہی ڈسپنسری دہ گھنٹے کے لیے بند کر دی جاتی ہے۔ ڈسپنسری کے دوبارہ کھلتے ہی مریضوں کا اس قدر رش ہو جاتا ہے مجھے سوچنے کی مہلت ہی نہیں ملتی ۔ جب سے میں یہاں کے لوگوں کا علاج کرنا شروع کہا تب سے انہوں نے مجھے ایک دیوتا کا درجہ دیے دیا ہے۔ ان کا بس نہیں چلتا ہے وہ میرے قدموں کی جگہ اپنا دل رکھ دیں۔رات کے آٹھ بجے ڈسپنسری بند کر کے میں لاہورکے طرف روانہ ہو جاتا ہوں۔
اسی شہر کی دوڑتی بھاگتی دنیا میں کہیں میری زندگی کی کہانی بھی بسی ہوئی ہے۔ گو کہ میں یہاں کے ایک فیشن ایبل علاقے کا مکین ہوں،مگر مجھے اندرونِ شہر کی گلیوں سے زیادہ پیار ہے۔ اپنے گھر کے یورپی اور چائنیز سٹائل کے کھانوں کو چھوڑ کر میں خالد اور جنید کے ہاں جا کر قیمہ والے پراٹھے اور نہاری بڑے شوق سے کھایا کر تا ۔مما اور پپا نےپہلے پہل میری ان دونوں سے دوستی پر سخت ناک بھوں چڑھائی ۔انہیں اپنے سٹیٹس سے کم تر لوگوں سے راہ و رسم بڑھانا بے حد نا پسند تھا ۔لیکن پھر کسی نہ کسی طرح خالد اور جنید کے بے پناہ خلوص نے انہیں بھی دونوں کا گرویدہ بنا دیا تھا۔ظاہر ہے کارزارِ حیات میں کئ مقام ایسے بھی آتے ہیں جب زندگی کی ہر آسائش مہیا ہو نے کے باوجود آپ کو صرف انسانی ہمدردی کی ضرورت ہوتی ہے اور ایسے ہر مو قعے پر خالد اور جنید نے اپنوں سے بڑھ کر ہمارا ساتھ دیا۔
میں آج بھی حیران ہوں کہ میرا مزاج اپنے ان دونوں سے قطعی میل نہ کھاتا تھا ۔ ہماری دوستی کی شروعات کا بھی ایک دلچسپ قصہ ہے۔ جیسے ہی میرا داخلہ میڈکل کالج کے پہلے سال میں ہوا تو میری اکڑی ہوئ گردن میں اور تناؤ آ گیا۔ میرے والد ایک مشہور آرتھوپیڈک سرجن ہیں ۔مجھے ان جیسا ہی بننا تھا۔اسی لیے میں نے ہمیشہ پڑھائ کی طرف دھیان دیا۔ادھر خالد اور جنید بھی ذہین طالب علموں میں شمار ہوتے تھے۔ہمارے ایک استاد انہیں ہمیشہ کہا کرتے تھے :
’چلے ہیں ڈاکٹر بننے! لفنگے کہیں کے !‘
ادھر خالد اور جنید تو گویا اس مصرعے پر عمل پیرا تھے: ’اور بھی غم ہیں پڑھائ کے سوا‘
میرے یہ دونوں یار زندگی کے ہر لمحے کو جاوداں بنانے کے لیے بے چین رہتے تھے ۔بسنت کےموسم میں زور و شور سےپتنگیں ،ڈوراور مزیدا پکوان کا ساتھ خوب تیاری سے اہتمام کرتے۔ محلے کی کارنر میٹنگ ہو یا کوئ فلاحی کا م ہوتا تو یہ سب سے آگے نظر آتے ۔ اپنے علاقے کے سیاسی جلسوں کے لیے کرسیاں لگوانا اور چندہ اکھٹا کرنا بھی ان کی ذمہ داریوں میں آتا تھا۔اس کے علاوہ حلق پھاڑ پھاڑ کر نعرے لگانے والوں میں بھی سب سے آگے ہوتے۔ ادھر کالج میں ہونے والی تقریبات ان کے بغیر نامکمل تھیں۔ نجانے ان کے پاس ان تمام سرگرمیوں کے بعدمیڈیکل کی پڑھائی کے لیے وقت کیسے نکل پاتا تھا ۔ میں نے بذات خود ان کی جملہ سرگرمیوں میں کبھی ساتھ نہ دیا تھا ۔ میری زندگی کا نظم و ضبط اور گھر کے رکھ رکھا ؤ سے یہ سرگرمیاں میل نہ کھاتی تھیں۔
میرا ہمیشہ سے یہی خواب تھا کہ اعلی تعلیم کے لیے باہر چلا جا ؤں۔میرےایک بھا ئ امریکہ میں مستقل قیام پذیرہو گئے تھے۔میں بھی مستقبل طور پر امریکہ ہی رہنا چاہتا تھا ۔ اونچا اڑنے کی خواہش نے مجھےپڑھائ کو کبھی پس پشت ڈالنے نہ دیا۔ہاں !کالج کیفے ٹیریا ایک ایسی جگہ تھی جہاں میں ان دونوں سے باتیں کر کے خوش ہو ا کرتا ۔ خالد اور جنید کی زندہ دلی اور خوش گپیاں کبھی کسی کو بور نہیں ہونے دیتی تھیں۔روزانہ کی لگی بندھی روٹین میں یہی وقت مجھے اپنے زندہ ہونے کا احساس دلاتا ۔اسی کالج کیفے میں انہوں نے مجھے موٹی آسامی سمجھ کر گھیرا تھا ۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میڈیکل کالج میں داخلے کے شروعات ہوئ تو میں گھر سے ناشتہ کر کے نہ آتا تھا ۔ میر ی ان دنوں مما سے سرد جنگ چل رہی تھی ۔ نوکروں کے ہاتھ کا بنا ہوا ناشتہ مجھے سخت نا پسند تھا ۔دوسری جانب مما کی سماجی زندگی کی تقریبات رات گئے تک جاری رہتیں،اس لیے ان سے صبح اٹھنا مشکل ہو گیا تھا ۔ مما کا خیال تھا میں بیکار ایک فضول سی بات کے لیے ضد کر رہاتھا ۔ بہرحال میں ہر روز دو پریڈ کی کی پڑھائی کے بعد کالج کیفےٹیریا آجاتا اور خوب ڈھیر ساری اللم غلم چیزیں منگوا کر ناشتہ کر تا ۔ خالد اور جنید بڑے عرصے سے میری بسیار خوری تاک رہے تھے ۔ وہ درزیدہ نظروں سے دیکھتے رہتے اور آپس میں اشاروں کناؤں میں باتیں بھی کر تے ۔ مجھے ان کی رالیں صاف ٹپکتی نظر آ رہی تھیں ۔ پر میں نے بھی انہیں کسی قسم کی اہمیت نہ دینے کا فیصلہ کر رکھا تھا ۔ کیونکہ کچھ عرصہ پہلے وہ کالج میں منعقدہ تقریب میں ایک خاکے دوراں میرا اچھا خاصہ مذاق اڑا چکے تھے۔ خاکے کا نام تھا صبح کا ناشتہ ۔ کالج کا حال حاضرین سے کچھا کچھ بھرا ہوا تھا اور ان دونوں نے اپنی مضحکہ خیز حرکتوں سے پورے ہال کو ہنسا ہنسا کر لوٹ پوٹ کر دیا تھا ۔ تقریب کے بعد میں نے ان دونوں کو جی بھر کر گالیاں دیں۔ جواب میں وہ کب رکنے والے تھے ۔ انہوں نے بھی جواباً مجھے موٹا ولائتی سانڈ
کہہ کر پکارا ۔خیر خاصی گرما گرمی ہوئی ۔ پھر کچھ عرصے بعد کلاس فیلوز نے ہماری صلح کرا دی ۔یہی صلح بعد میں ایک ہمیشہ قائم رہنے والی پر خلوص دوستی کی بنیا د بنی ۔
آ پ سوچ رہے ہوں گے اس سارے قصے کے بیچ میں ابھی تک میں نے نگینہ کا ذکر نہیں کیا ۔ دراصل جب بھی ماضی کے افق کی طرف نظر پڑتی ہے وہاں خالد اور جنید چھا ئے ہوتے ہیں۔جبکہ کہ نگینہ مرے دل کی دھڑکن ہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ دل کی باتیں کرنے میں مجھے کو ئی خاص ملکہ حاصل نہیں ہے۔ جن دنوں ہم ہاوئس جاکر رہے تھے تو اسی وقت میں نگینہ کے عشق میں پوری طرح ڈوب چکا تھا ۔نگینہ میری خالہ کی بیٹی ہے۔ نگینہ کی بہن کی شادی کا ہنگامہ بھی برپا تھا۔ خالد اور جنید کو جب اس شادی کی بھنک پڑی تو وہ حسب عادت میرے سر ہو گئے کہ خالہ کے گھر ہونے والی شادی کا عوت نامہ دو۔ آپ کو میں پہلے ہی بتا چکا ہوں کہ انہیں ایسے مو قعوں پر کرسیاں اور قناتیں لگانیں کا کتنا شوق تھا۔ دوسری بات یہ بھی ہے کہ شادی کے مرغن کھانوں کے لیے تو وہ ویسے ہی بے چین ہو رہے تھے۔ خیر جس وقت ہم خالہ کی کوٹھی کے مین گیٹ سے اندر داخل ہوئے تو نگینہ پودوں کو پانی دے رہی تھی۔ اس نے چونک کر ہمیں دیکھا تو ہم تینوں وہیں جامد ہو گئے۔ اس کی خوبصورت آنکھوں میں ایسا نشہ تھا کہ بندہ بن پیئے ہی ڈول جائے۔ میں تو پہلے ہی اپنا دل ہار بیٹھا تھا ۔میرے دوستوں کو اس روز سمجھ آگیا تھا کہ میں نگینہ کا کیوں دیوانہ بن پھرتا تھا ۔خالد نے چپکے سے کہنا شروع کیا۔
یار ہمیشہ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ جب ہیرو کسی ہیرویئن کے عشق میں گرفتار ہوتا ہے تو ہیروئین پودوں کو پانی دے رہی ہوتی ہے یا پھر اس کی گاڑی کا ٹائر پنکچر ہو جاتا ہے یا پھر۔۔۔۔
اسی اثناء میں نگینہ اپنا کام چھوڑ کر ہماری جانب آچکی تھی ۔میں نے اور جنید نے دانت کچکچا کر کہا۔
بکواس بند کرو ۔ اورتبھی خالد خاموش ہو گیا۔
اس واقعے کے بعد میں نے مختلف حیلے بہانوں سے خالہ کے ہاں جانا شروع کر دیا۔مما میرے دل کی بات جان گیئں تھیں۔ خوشی سے ان کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا ۔انہوں نے خدا کا ہزار بار شکر کیا کہ میں نے ان کے معیار کی لڑکی تلاش کر لی تھی ۔ورنہ خالد اور جنید کی دوستی کی وجہ سے انہیں یہی ڈر رہتا تھا کہ انہیں اپنے لاڈلے بیٹے کی بارات اندرون شہر کی گندی گلیوں میں نہ لے جانی پڑے، جن کی بدبو انہیں ایک ہفتے کے لیے بیمار کرنے کے لیے کافی ہوتی۔
ادھر میری اور نگینہ کی بات پکی ہو گئی تھی۔لیکن ایک بے چینی تھی جو میری روح میں سرایئت کررہی تھی ۔میری زندگی میں ملنے والی ہر وہ شخصیت جسے میں اپنے دل میں جگہ دیتا تھا، وہ میرے کسی نظریے سے میل نہ کھاتی تھی۔اب نگینہ کو ہی لیجیے اسے میرے امریکہ جا کر مستقل قیام کرنے پر سخت اعتراض تھا۔ اور تو اور وہ سوشل ایکشن پروگراموں کو بے حد پسند کرتی تھی۔ ۔ ایک دن محترمہ میرے ساتھ خالد کے گاؤں کا دورہ کرنے پہنچ گیئں ۔خالد آجکل ہاؤس جاب کرنے کے بعد اپنے گاؤں کی ڈسپنسری چلا رہاتھا۔نگینہ نے سارے حالات کا جائزہ لے کر فیصلہ کیا کہ وہ یہاں لڑکیوں کے لیے دستکاری اسکول کھولے گی اور ان کی پڑھائی کا بھی بندوبست کرے گی۔پتا نہیں یہ سارے سر پھرے لو گ میری قسمت ہی میں کیوں لکھ دیے گئے تھے۔
ملک میں ان دنوں ایوب خان کے مارشل لاٍءکے آخری دن چل رہے تھے اور شہر تو کیا ملک بھر میں طلبہ یونینوں کے ہنگاموں کی وجہ سی عجیب قسم کی بے چینی پھیلی ہو ئی تھی۔ دوسری طرف جنید کی شادی کی تاریخ پکی ہو چکی تھی ۔اس کی منگنی پچپن سے ہی طے تھی ۔پچیس دسمبر کا دن میں کیسے بھول سکتا ہوں۔ میرے یار کی شادی تھی اور میں برات میں جانے کے لیے زور و شور سے تیاریوں میں مصروٖف تھا۔ بس ایک ہی فکر تھی کہ وقت پر پہنچ جاؤں۔ ہم گھر سے نکلنے ہی والے تھے کہ اچانک فون کے گھنٹی بج اٹھی ۔ہاں یہی وہ لمحہ تھا جس نے میری ساری زندگی کا رخ موڑ دیا۔یہی وہ پل ہیں جنہوں نے مجھے ہوش وخرد کی دنیا سے بے پرواہ کر دیا تھا۔مجھے کچھ یاد نہیں رہا کہ اس خبر کے سننے کے بعد میرے ارد گرد کیا ہو رہا تھا۔لوگوں کے مطابق خالد اور جنید حسب معمول چٹکلے چھوڑتے ہوئے برآت کے انتظامات دیکھ رہے تھے ۔گھر کے باہر دولہے کی گاڑی پھولوں سے سج کر پہنچ چکی تھی ۔ جنید شیروانی پہنے کسی ریاست کا شہزادہ لگ رہا تھا اور خالد اس کے ساتھ کھڑا گاڑی کے سجاوٹ کا ناقدانہ جائزہ لے رہا تھا۔اتنے میں تیزی سے ایک کار گزری اور ان میں بیٹھے ہوئے اشخاص اندھا دھند گولیاں چلانے لگے ۔یہ گولیاں خالد اور جنید کے سینوں کے پار ہو گیئں۔وہ دونوں وہیں ڈھیر ہو گئے اور ان کا جوان لہو بہتا رہا اور وطن کی مٹی کو سیراب کر تا رہا۔یہ حادثہ کیوں ہو اور اس کے پیچھے کیا عوامل تھے ؟ میں آج بھی ان سوالوں کے جواب میں گرداں ہوں۔بہرحال میں اتنا ضرور جانتا ہوں کہ میرے دوستوں کو اپنے وطن سے محبت کرنے کی سزا دی گئی۔اس بعد کا عندیہ مجھے خالد کے بریف کیس سے ملا ۔ مگر اس سے پہلے اچانک سے نگینہ کا فون آگیا۔
’امجد مجھے آپ سے یہی کہنا ہے کہ میں پاکستان چھوڑ کر کہیں اور رہنے کا تصور بھی نہیں کر سکتی ۔ خالد کے گاؤں میں میرا دستکاری اسکول کامیابی سے چل پڑا ہے۔مجھے زندگی میں پہلی با ر احساس ہوا ہے میں نے کو ئی تعمیری کام کیا ہے۔‘
اس نے اور بھی کئ باتیں کیں جن میں وہ بار بار مجھے صبر کی تلقین کرتی رہی اور زندگی کی طرف لوٹ آنے کو کہتی رہی۔وہ پگلی نہیں جانتی تھی کہ میں زندگی کی طرف لوٹ آیا تھا ۔میں نے چند روز پہلے ہی اپنے باہر جانے کی تمام کاغذات پھاڑ دیے تھے۔ اس کے بعد میں پاگلوں کی طرح سارے شہر کی خاک چھانتا رہااور پھر بس میں بیٹھ کر خالد کے گاؤں جا پہنچا۔ اس کی ڈسپنسری میں خاک اڑ رہی تھی۔ میں کافی دیر وہاں بیٹھا روتا رہا۔اتنا رویا کہ پھر میرے پاس کو ئی آنسونہ بچا۔خالد کے بریف کیس میں خطوط پرانے عید کارڈ اور دیگر ضروری کاغذات پڑے تھے۔وہ شاید تھانے میں کوئ رپورٹ جمع کرانا چاہتا تھا ۔ اس کے اپنے ہاتھ سے ڈائری کچھ نوٹس لکھے ہو ئے تھے ۔ پچھلے کچھ عرصے سے اسے دھمکی آمیز فون کالز مل رہی تھیں۔ضرور کو ئی ایسے ان دیکھے لوگ تھے جو اس کی سر گرمیوں پر نگاہ رکھے ہوئے تھے ۔ شاید حکومت وقت کو اس کا طلبہ کی احتجاجی تحریک میں حصہ لینا پسند نہیں تھا۔ان نوٹس میں کو ئی ایسا ثبوت نہیں تھا جس کی بنیاد پر میں کوئی قانونی کاروائی کرتا ۔اب میرا زیادہ وقت خالد کی ڈسپنسری میں ہی گزرنے لگا۔ مجھے لگتا تھا کہ خالد اور جنید میری رگ وپے میں سما گئے تھے ۔ اس روز جب میں نے انہیں لحد میں اتارا تھا تو میں نے اپنا آپ وہیں دفن کر دیاتھا۔ان کے سب خواب میں نے اپنی آنکھوں میں بسا لیے تھے ۔
خالد کی ڈسپنسری اب ایک خیراتی ہسپتال میں تبدیل ہو چکی تھی ۔ اپنی بیوی نگینہ کی مدد سے میں نے اور بھی فلاحی ادارے قائم کیے تھے ۔ہماری زندگی اچھی گزر رہی تھی ۔پھر مجھے نجانے کیا سوجھی کہ ایک دوسرے نام سے اخبارات اور رسائل پرملکی حالات پر مضامین اور کالم لکھنا شروع کر دیا۔پھر وہی ہوا کہ جس کا مجھے ڈر تھا ۔ میں نے گھر والوں کو دھمکی آمیز فون کالز کے بارے میں بتایا تو میرے والدین نے ایک ہی ہفتے میں سب گھر والوں کی امریکہ کی فلائٹ بک کروا دی۔ اس بار نگینہ نے کو ئی اعتراض نہ کیا۔جانے سے پہلے میں اپنے یاروں کی قبروں پر فاتحہ پڑھنے گیا اور سوچتا رہا کہ کیا خالد اور جنید کا خون پانی سے بھی سستا تھا ؟ وہ دونوں بس اپنی زندگیوں سے خوشیاں کشید کرنا چاہتے تھے ۔ اور اس کے ساتھ ساتھ دیس باسیوں کے لیے بہتر مستقبل چاہتے تھے۔لیکن فسطائیت کے پرستاروں نے ان کی زندگی کی ڈور کھینچ لی۔ہم کب تک سوچ پر پہرے بٹھاتے رہیں گے؟کب تک ہمارےوطن باسی ہجرتوں کا عذاب سہتے رہیں گے ۔

Atiya Adil
About the Author: Atiya Adil Read More Articles by Atiya Adil: 19 Articles with 24012 views Pursing just a passion of reading and writing ... View More