ذخیرہ اندوزی اور آٹے کا بحران

 اس وقت ملک میں آٹے کا بحران چل رہا ہے پورے ملک میں گندم ناپید ہوگئی ہے اور آٹے کی قیمتیں دن بدن بڑھتی چلی جارہی ہیں ۔

حکومت نے بیرون ملک سے گندم/ آٹا درآمد کرنے کی منظوری دے دی ہے ۔ کتنے افسوس اور شرم کی بات ہے پاکستان جو کہ ایک زرعی ملک ہے۔ جس نے گندم برآمد کرنی تھی وہ خود محتاج بن کراپنی ضرورت کی گندم دوسرے ملک سے منگوا رہا ہے۔ اس بحران کے بہت سارے اسباب ہوسکتے ہیں ۔ اس بحران کی سب سے پہلے حکومت ذمہ دار ہے۔ حکومت کا درآمد وبرآمد کا نظام اسقدر بہتر ہونا چاہیے تھا کہ ملک میں ایسی صورت حال پیدا ہی نہ ہو۔دوسرے نمبر پر وہ ہمارے مسلمان تاجر حضرات بھی اس مصنوعی بحران کی وجہ ہے جنہوں نے مال بڑھانے کے لئے برکت کی بجائے بے برکتی کے راستے یعنی گندم اور آٹے کی ذخیرہ اندوزی کے ذریعے مال بڑھانے کی ناجائز کوشش کی۔حالانکہ ذخیرہ اندوزی اسلامی اعتبار سے سخت گناہ ہے۔ اسلام ایسا خوبصورت دین ہے جو ہمیں صرف مصلے کی عبادت نہیں سکھاتا بلکہ دین و دنیا کے ہر معاملے میں ہماری رہنمائی کرتا ہے ۔اسلام ایک مکمل دستور حیات ہے جس میں خداوندی دستور صرف عبادات کی ادائیگی پر زور نہیں دیتا بلکہ آپس کے معاملات ،لین دین میں حلال اختیار کرنے اور حرام سے بچنے کی بھی پرزور تاکید کرتا ہے اور بڑے کھلے لفظوں میں حرام کھانے پینے اور پہننے والے کی عبادت و دعا کے مردود یعنی غیر مقبول ہونے کی وعید سناتا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اﷲ تعالی نے انسان کو اپنی ذاتی ملکیت میں تصرف کرنے کا پورا اختیار دیا ہے کہ جس طرح چاہے اس میں تصرف کرے لیکن چونکہ دین اسلام دین الٰہی اور مکمل ابدی ضابطہ حیات ہے اس لیے اس کے ساتھ ساتھ کچھ حدود و قیود بھی لگادیں کہ اگر اس کے اپنی ذاتی ملکیت میں تصرف کی وجہ سے دوسرے لوگوں بالخصوص عام معاشرے کو اجتماعی نقصان پہنچے یا عمومی مصلحت فوت ہوجائے تو اس کا اپنی ملکیت میں جائز تصرف بھی منع اور حرام ہے ۔شریعت اسلامی میں معاشرے کو عمومی نقصان اور ضرر سے بچانے کے لئے کئی ایک پابندیوں میں سے ایک پابندی ذخیرہ اندوزی پر لگائی گئی۔آج کل ذخیرہ اندوزی کے ذریعے مختلف اشیاء واجناس کی مصنوعی قلت پیدا کرکے عوام کو ضرر پہنچاکر ریٹ بڑھانااور مہنگا کرکے نفع کمانا معمول کی بات بن چکی ہے،روزمرہ استعمال ہونے والی خشک غذائی اجناس گندم،چینی ،چاول،گڑوغیرہ کے ساتھ ساتھ کولڈ اسٹورز کی کثرت کی وجہ سے سبزیوں ،انڈوں اور فروٹ وغیرہ میں بھی ذخیرہ اندوزی عام ہوچکی ہے۔

ذخیرہ اندوزی کو عربی میں’’ احتکار‘‘اور انگریزی میں’’Hoarding ‘‘کہتے ہیں اور ذخیرہ اندوزی کرنے والے کو ’’محتکر‘‘ کہتے ہیں۔شریعت اسلامی میں کھانے اور اس جیسی چیز کو خرید لینا اور اس کے مہنگا ہونے تک روک لینے کو’’ ذخیرہ اندوزی‘‘ کہتے ہیں یعنی اس نیت سے ذخیرہ کرناکہ میں اس کو اس وقت گودام سے نکالوں گا جب بازار میں اس کی بہت زیادہ قلت پیدا ہوجائے گی اور اس قلت کا فائدہ اٹھا کر بہت زیادہ قیمت وصول کر سکوں گا۔ گویاغلہ یا چارہ وغیرہ شہر ہی سے یا جہاں سے شہر میں آتا ہے ،وہاں سے خرید کر ،مخلوق خدا کی ضرورت اور ضرر کے باوجودمہنگا فروخت کرنے کی نیت سے روک لینے کو احتکار (ذخیرہ اندوزی) کہتے ہیں۔انسان کی غذائی ضروریات بالاتفاق اور جمہور فقہاء کے نزدیک جانوروں کی خوراک میں جبکہ مالکیہ اور امام ابو یوسف ؒ کے نزدیک ہر ضرورت کی چیز مثلا کھاناپینا،لباس،مکان،تعلیم،نقل وحرکت کے اسباب،دواء ،پیٹرول،ڈیزل وغیرہ کی ذخیرہ اندوزی کرنا منع ہے اور فقہاء کرام کا اس بات پر بھی اتفاق ہے کہ ذخیرہ اندوزی اس وقت منع ہے جب وہ چیز مارکیٹ میں کم ہو اور لوگوں کو اس کی ضرورت ہو لیکن اگر مارکیٹ میں اس چیز کی رسد فراوانی کے ساتھ موجو دہو تو اس وقت ذخیرہ اندوزی منع نہیں اور کوئی گناہ نہیں،مگر گرانی کے انتظار میں غلے کو روک رکھنا کراہت سے خالی نہیں،منع اور گناہ اس وقت ہو گا جب لوگوں کی اس کی ضرورت ہو اوریہ شخص گرانی اور مہنگائی پید اکرنے کے لئے ذخیرہ اندوزی کرے یا جب عوام کو ضرورت ہو اور یہ سٹور شدہ چیزمارکیٹ میں نہ لائے تاکہ مارکیٹ میں کمی ہوکر مزید مہنگی ہوجائے تب بیچوں گا تومنع اور گناہ ہے۔ اگر کوئی شخص اپنی ذاتی زمین کا غلہ جمع کر کے رکھتا ہے کہ سال بھر کام آئے گا تو یہ ممنوع نہیں بلکہ یہ تو اس کا خالص حق ہے ۔البتہ افضل یہ ہے جب لوگوں کو اس کی سخت ضرورت ہو تو اپنی ضرورت سے زائد چیز بیچ دے۔ذخیرہ اندوزی کے بارے میں مختلف احادیث میں بہت سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں۔جیسے آپ ﷺ کا فرمان ہے ’’ذخیرہ اندوزی کرنے والا گناہ گار ہی ہوتا ہے‘‘اسی طرح فرمایا’’بازار میں فروخت کرنے کے لئے مال لانے والے کو رزق دیا جاتا ہے اور اور ذخیرہ اندوزی کرنے والا ملعون یعنی اس پر اﷲ کی لعنت وارد ہوتی ہے‘‘اس طرح ایک اور روایت میں آپ ﷺ کا فرمان عالیشان ہے ’’جس نے کھانے کی چیز کو چالیس دن ذخیرہ کیا تو تحقیق وہ اﷲ سے بری ہے‘‘ آپﷺ بازار میں ایک شخص کو دیکھا جو بازاری ریٹ سے کم قیمت پر کھانے کی چیزیں بیچ رہا تھا تو آپﷺ نے اس سے پوچھاتم ایسا صبر اور ثواب کی امید سے کر رہے ہو؟ اس نے کہا، جی ہاں !تو آپ ﷺ نے فرمایا! جو ہمارے بازار میں چیز لانے والا ہے وہ ایسا ہے جیسے اﷲ کے راستے میں جہاد کرنے والااور جو ذخیرہ اندوزی کرنے والا ہے وہ ملحد یعنی اﷲ کی کتاب میں الحاد کرنے والا(یعنی اﷲ کی کتاب کے معانی کو تبدیل کرنے والا)اسی طرح ایک اور حدیث میں سرکار دوعالم ﷺ کا ارشاد ہے ’’جو شخص مسلمانوں کے بازار میں کوئی ایسی چیز داخل کرے جس کی وجہ سے ان پر گرانی یعنی مہنگائی کا سخت ضرر ہو تو اﷲ تعالی کے ذمے حق ہے کہ اس کوجہنم کے کسی بڑے طبقہ میں اوپر سے نیچے پھینک دیں‘‘ایسے ہی ایک موقع پر آپ ﷺ نے فرمایا’’جو شخص مسلمانوں کا غلہ(کھانے پینے کی چیزیں ضرورت کے باوجودفروخت کرنے کی بجائے )ذخیرہ اندوزی کرے تو اﷲ تعالی ایسے شخص پر کوڑھ کی بیماری اور تنگدستی کو مسلط فرمادیتے ہیں۔اس ضمن میں علامہ ابن قدامہ ؒ نے ایک عجیب واقعہ نقل کیا ہے کہاامیر المومنین حضرت عمر ؓ نے ایک ذخیرہ اندوز کو یہ حدیث سنا کر منع کیا مگر وہ باز نہ آیا تو کوڑھی کا مریض بن گیا۔امیر المومنین حضرت علی کرم اﷲ وجہہ نے ایک ذخیرہ اندوز کا غلہ (سزا کے طور پر) جلا دیاْ۔فقہاء اسلام کی ایک جماعت نے ایسے تجار کا سامان ’’لا ضر ر ولا ضرار‘‘ (نہ نقصان برداشت کرو نہ نقصا ن کا موجب بنو) کے تحت حکومت اسلامیہ کو بازار کے نرخوں پر فروخت کرنے کی اجازت دی ہے لہذا فقہاء کرام کے نزدیک ذخیرہ اندوز کو پہلے قاضی /عدالت کے ذریعے یہ نوٹس جاری کیا جائے گا کہ اپنی اور اپنے گھر والوں کی حاجت سے زائد کھانے پینے کی چیزیں فروخت کر دو ،اگر وہ ایسا نہ کرے تو حاکم وقت اسے سمجھائے ،ضرورت پڑے تو کچھ ڈرائے دھمکائے پھر بھی وہ باز نہ آئے تو اسے قید میں ڈالا جائے اور اسے زائد چیزیں بیچنے پر مجبور کیا جائے ،اگر اب بھی وہ آمادہ نہ ہو تو قاضی/عدالت خود اسے بیچ دے البتہ یہ سامان بازاری قیمت پر فروخت کرے ۔ بہرحال ہمیں اﷲ پاک سے ڈرتے ہوئے مکروہ ذخیرہ اندوزی سے بچنا چاہیے اور حلال اور برکت سے بھرپور رزق حاصل کرنے کے لئے اﷲ رزاق العالمین پر توکل کرکے اپنا سامان تجارت مارکیٹ میں تنگی کو دور کرنے کے لئے بڑے بڑے ذخیرہ اندوزی کے گوداموں سے نکال کر مارکیٹ میں پیش کرنا چاہیے۔

Tanvir Ahmed
About the Author: Tanvir Ahmed Read More Articles by Tanvir Ahmed: 21 Articles with 23417 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.