تحریر: منزہ گل، سرگودھا
اﷲ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات کا درج دے کر سب پر فوقیت دے دی۔ قطع
نظر اس کے کہ انسان جن تہذیبی قدروں کا شکار ہے اسے اشرف المخلوقات کہہ بھی
سکتے ہیں یا نہیں۔ تمام مخلوقات کے دل میں انسان کا خوف رکھ دیا گیا۔
دیگر مخلوقات میں انسان سے مانوس ہونا بھی رکھ دیا گیا۔ پرندے، جانور الغرض
سب ہی کہیں نا کہیں انسان سے مانوس ہوہی جاتے ہیں۔ محبت کی آڑ میں وہ انسان
کے ساتھ گھل مل کے رہنے لگتے ہیں۔ محبت یا میٹھے بول نہ صرف انسان کی ضرورت
ہے بلکہ رب تعالیٰ کی تمام مخلوقات کی کمزوری اور ضرورت ہے۔ سارا نظام
کائنات محبت کے مرہون منت چل رہا ہے، مزدور خود کو دھوپ کی بھٹی میں جلا کر
اپنے بچوں کے لیے روزی روٹی کا سامان مہیا کرتا ہے تو صرف اس لیے کہ دل میں
محبت کا بیج ڈالا گیا ہے اور وہ احساس ہوتا ہے ان کے اپنے بچے جن کی روٹی
روزی کا انتظام انہیں اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز ہوتا ہے۔
چھوٹے بچوں کا مشاہدہ کیا جائے تو رویوں میں 2 طرح کے بچے دکھائی دیتے ہیں۔
پہلی قسم جنہیں ہم شاباش دے کر پیار کی تھپکی دیتے ہیں جو کہ اپنا مرال اور
اعتماد ناصرف بڑھاتے ہیں بلکہ زندگی کے کٹھن مراحل کی ہمت اپنے بچپن سے ہی
سمیٹنا شروع کر دیتے ہیں جبکہ دوسری طرف وہ بچے ہیں جنہیں پیار کی جگہ غصے
اور ڈانٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے بچپن سے مسلسل انہی رویوں کا سامنا کرتے
کرتے نتیجہ یہ نکلتا ہے وہ بچہ نہ صرف احساس کمتری کا شکار ہوجاتا ہے بعد
ازاں جب وہ بڑا ہوتا ہے تو کٹھن منازل کا سامنا کرنے کے بجائے وہ ہمت ہار
بیٹھتا ہے۔ جس کے نتیجے میں ہونہار مستقبل کے نوجوان سے معاشرہ ہاتھ دھو
بیٹھتا ہے۔ معاشرے کے مسلسل ایک جیسے رویے سے تنگ آکر سمجھدار ہونے کے
باوجود وہ سب نہیں کرتا جو اگر وہ صحت مند ماحول میں کرتا۔
رویوں میں بیرونی رویوں کے علاوہ کچھ اپنوں کی بے اعتنائی بھی مار جاتی ہے
بلکہ یوں کہا جائے کہ زیادہ تر دکھ اپنوں سے ہی ملتے ہیں تو شاید غلط نہ
ہوگا۔ انسان کی آخری امید اس کا خاندان ہوتا ہے۔ اسوہ رسول صلی اﷲ علیہ
وسلم کو دیکھیں تو پہلی وحی کے موقع پر رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی غمزدہ
اور افسردہ اور پریشان حالت پر حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا آپ کو دلاسے دیتی
نظر آتی ہیں۔ پہلے والدین اور بہن بھائی، پھر خاندان کے دیگر افراد اور آخر
میں ہم سفر۔۔ یہ سب ایسے رشتے ہوتے ہیں جن سے ہمیں کچھ نہ کچھ ہمیشہ چاہیے
ہوتا ہے۔ کبھی بھروسہ، کبھی احساس اور بھی خیال رکھنے کی امید ہوتی ہے۔ کچھ
نہ بھی ہو تو کم از کم ایک رویہ جو ہمیں یہ احساس دلائے کہ ہم اکیلے نہیں
بلکہ وہ ہمارے ساتھ ہیں ہمیشہ کے لیے وہ تو چاہیے ہی ہوتا ہے۔ اب اگر یہ
چیز ہم ڈھونڈنے نکلیں تو ملتا کیا ہے۔۔۔ طعنے، یا پھر عجیب و غریب نصیحتیں۔
کچھ غلط ہوجائے تو بجائے تسلی اور ہمت بندھانے کے یہ جواب سننے کو ملے گا
کہ ’’گھر بیٹھنا نہیں آتا ، تمہیں کس نے کہا تھا جانے کو، کیوں گئے تھے ‘‘۔
حالانکہ اس وقت انسان کو صرف تسلی اور ہمت چاہیے ہوتی ہے۔
یہاں تو معاملہ ہی الٹ ہے۔ کسی کو ہمت دینے اور اس کا حوصلہ بڑھانے کے
بجائے الٹا اسے خوش دیکھ کر پریشان ہوجاتے ہیں۔ اسی کی خوشی ، سکون اور
راحت جیسے برداشت ہی نہیں ہوتی۔حالانکہ اس سے کسی کا کچھ نہیں جاتا۔
خدارا محبتیں بانٹیں کریں۔ رب کا فیصلہ ہے چیزیں بانٹنے سے دگنی ہوتی ہیں۔
خواہ وہ پیسہ ہو محبت ہو یا نفرت آپ جو کچھ معاشرے کو دیں گے وہ آپ کو ڈبل
واپس آئے گا اسلام کے نام پر نہ سہی انسانیت کے نام پے ہی سہی آج کل ہمارے
معاشرے میں خودکشیوں کا رجحان بڑھتا جارہا ہییقین مانیں ذاتی طور پر میں
اسے خودکشی نہیں سمجھتا اسے قتل کے مترادف گردانتا ہوں کیونکہ اس بات کے
سمجھنے میں ہم کسی کے کسی کو اتنا ڈی گریڈ کرتے ہیں کہ وہ خود کشی پر مجبور
ہو جاتا ہے بالخصوص صنف نازک (عورت) جس کو معاشرے نے جو مقام دیا ہے وہ
ہمارے سامنے ہے خدارا انہیں جینے دیں۔
|