تحریر: عرفان اقبال جتوئی
کچھ ماہ قبل نجی ٹی وی چینل پر ڈرامہ ’’میرے پاس تم ہو‘‘ چلا، معلوم ہے کہ
یہ ایک ڈرامہ ہے یعنی جھوٹی یا فرضی کہانی تو اس کو دیکھنے کا فائدہ کیا۔۔
تعجب ہوتا ہے کہ جس جھوٹ موٹ کی کہانی کووہ پیش کرتے ہیں اس کے سامنے ہم
لوگ مورتی بنے ہوتے ہیں۔ قسط وارڈرامہ بھی جاری رہا اور ہمارے عوام بھی اس
کو انہماک اور اہتمام کے ساتھ دیکھتے رہے۔ جانے اس ڈرامے میں ایسا کیا تھا
کہ جس نے پورے معاشرے اور پھر سوشل میڈیا پر اپنا سحر طاری کیا ہوا تھا۔
پھر ڈرامے کی آخری قسط بھی آگئی اور پھر سوشل میڈیا پر ہر جگہ لکھا تھا کہ
دانش مر گیاہے! یہ ہوگیا! وہ ہوگیا! اگر ایسا ہوتا تو یہ ہو جاتا ہے وہ
ہوجاتا۔ اس طرح کی پوسٹس دیکھ کر میرے دل میں تجسس پیدا ہوا کہ میں بھی تو
جانو یہ کیا ماجرہ ہے۔ دانش کو تھا اور کیوں مر گیا ۔ ڈرامہ سیریل کے مطابق
وفا اور محبت کے تقاضوں کو نبھاتے ہوئے جو اس کے ہیرو تھے ان کی ڈرامے میں
موت ہوگئی۔ خیر ڈرامہ تھا انہوں نے اس کو وہاں پہ دکھا دیا ان کی بات وہیں
ختم اب یہاں سے شروع ہوتا ہے ہمارے عوام کا تجسس اور حیران کن ردعمل۔
لٹریچر میں تنقید کے نام سے باقاعدہ ایک مضمون پڑھایا جاتا ہے جس کے مطابق
کوئی بھی اسٹوری کو اگراس کا رائٹر اس انداز سے نا لکھے کہ اس میں حقیقت کا
رنگ دکھائی نا دے تو اس کہانی کو غیر معیاری تصور کیا جاتا ہے اور اس تبھی
رائٹر پروڈیوسر اور اس شعبے سے وابستہ دیگر لوگ ایسا رول پلے کرتے جس میں
ناصرف غمگین میوزک اور ڈائیلاگ شامل ہوتے ہیں بلکہ کرداروں کی بارہا ریہرسل
کرائی جاتی ہے تاکہ کسی بھی طرح سے ان میں ریالٹی (حقیقت) نظر آئے۔لوگ اس
کو حقیقت سمجھیں اور ان کے دکھ ودرد میں ویسے ہی شریک ہو جائیں۔ جیسے وہ
معاملہ حقیقت میں ان کی آنکھوں کے سامنے وقوع پذیر ہو رہاہے۔
اگر تحریر میں اس طرح کا معاملہ شامل ہے تو وہ اچھی اسٹوری ہے اگر تمہاری
معاملہ شامل نہیں تو وہ اسٹوری اس قابل نہیں ہے کہ ہم اس اعلیٰ معیار کے
درجے تک پہنچائیں۔ اس ڈرامے میں ڈائریکٹر، رائٹر اور پروڈیوسر نے کامیابی
کے ساتھ اسے پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ اپنی اسٹوری اور اس کی ڈائریکشن میں
میوزک کی بدولت کو اس قابل بنایا کہ وہ ہمارے لوگوں کو بے وقوف بنانے میں
کامیاب ہوگئے۔ جس پر ان کی کامیابی کے جوہر کھل کے سامنے آئے کہ جیسے ہی
دانش کی موت ہوئی ہمارے عوام اس کے غم میں ویسے ہی رونے لگ گئے جیسے کہ
حقیقت میں ہی کوئی مر گیا ہو۔ جیسے وہ قوم کا کوئی بڑا سربراہ کوئی بڑا
قائد کوئی لیڈر تھا جس سے قوم کا مستقبل جڑا ہوا تھا۔ وہ اس دار فانی سے
رحلت کرچکا ہو۔میرے خیال سے یہ میری افسردہ قوم کبھی بھی اپنے کسی عزیز
رشتہ دار کی موت پر بھی اس قدر غمزدہ نہ ہوئے ہوں گے جس قدر دانش کی موت پر
افسردہ ہو رہے تھے۔ یہ تھا جی تصویر کا پہلا رخ جب کہ دوسری طرف اگر میں
بات کرو تو دانش صاحب اپنی پر سکون زندگی سے لطف اندوز ہو رہے ہیں اور یہ
حقیقت ہے دانش صاحب کو وہاں ڈرامے میں تو انہوں نے مردہ ظاہر کر دیا لیکن
وہ ڈرامے کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔
لفظ دانش کے اردو میں معنی ہوتے ہیں عقل وحکمت اور سمجھداری۔ ایک طرف یہاں
میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ واقعی میری قوم کے اندر سے دانش کی موت ہوچکی
ہے۔ ویسے تو عقل نام کی اس قوم میں کوئی چیز باقی نہیں تھی لیکن جو بچی
کھچی تھی اس کی بھی موت ہو گئی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ایک فرضی کہانی کو دیکھ
کے میری بہنیں، بیٹے اور بیٹیاں ویسے ہی رو رہے تھے جیسے ان کے اندر یہ
حادثہ سچ میں وقوع پذیر ہوا۔
خدارا! میرا آپ سے ایک مشورہ ہے کہ معاملات کو دیکھیں ان کی نوعیت کو
سمجھیں ، اس کے مطابق اپنے نظریات قائم کریں۔ ایک فرضی کہانی، جھوٹ کو اتنی
تجسس اور انہماک کے ساتھ ایسے باقاعدگی سے دیکھا جیسے وہ ہماری زندگی کا
کوئی اہم پہلو تھا۔ ہمارے نامہ اعمال میں نیکیاں لکھی جارہی ہو۔ ایک فرضی
اور جھوٹی کہانی کے اوپر ہم اگر اس قدر ایمویشنل ہوں گے پھر تو واقعی سچ ہے
کہ ہماری دانش جو باقی تھی وہ بھی مرگئی۔ کیوں کہ اگر ہمارے عوام کو عقل
ہوتی تو وہ کبھی بھی اس قدر ایمویشنل یا جذباتی نہ ہوتے جس طرح ہمیں اس
سیریل میں دکھایا گیا۔ انتہائی ستم ظریفی کی بات ہے کہ سوشل میڈیا کے پر
ہماری یہ ویڈیوز آپ پوری دنیا میں وائرل ہوگئی ہیں اور ہمارے عوام ہمارے
قوم کے احساسات و جذبات اسی کی ترجمانی کرتے ہوئے نظر آئیں گے تبھی پوری
دنیا کواس بات کا علم ہوگا کہ ہماری قوم اتنی جاھل احمق اور پاگل ہے کہ
فرضی کہانیوں اور اسٹوریوں پر روشن یہ تاثر دیتی ہے ۔
دانش کو اگر تھوڑا سا ہم استعمال کرتے تو ہمارے گرد، ہمارے آس پاس ایسے کئی
واقعات رونما ہورہے ہیں جو سچ ہیں اور جن پر رونا نہیں دھاڑے مار کر رونا
چاہیے مگر وہاں پر ہماری دانش جاتی ہی نہیں ہے۔ مسلم ممالک کی حالت زار
دیکھیں تو یقینا عقل سلیم ہار مان جائے مگر ہمیں کیا ہم تو ڈرامے والے دانش
کی موت پر افسردہ ہیں۔ ہم نے ان کے حقوق میں کبھی صف ماتم بچھایا۔ یہ دانش
کوئی کردار نہیں ہے بلکہ یہ دانش عوام اور قوم کی عقل و دانش ہے جس پر مجھے
تو کیا بلکہ پوری قوم کو رونا چاہیے اس حقیقت کے ساتھ کہ ہمارے قوم ایسی
پاگل احمق اور بے وقوف ہے میں اپنی قوم کو سلام پیش کرتا ہوں اور ساتھ ہی
انہیں احساس دلانا چاہوں گا کہ پتا کرو کیا تم میں دانش نام کی کوئی چیز
باقی رہی ہے یا پھر دانش مر گئی ہے۔ تو ناظرین دانش مرا نہیں بلکہ دانش مر
گئی ہے۔
|