ہمارے اردگردآوارہ کتے خاصی بڑی تعدادمیں پائے جاتے
ہیں۔جس کی وجہ سے اکثرافراد ان کے کاٹنے کی شکایت کی وجہ سے ہسپتالوں کا رخ
کرتے ہیں۔دُنیا بھر میں رے بیز ( Rabies ) سے سب سے زیادہ کتے متاثرہوتے
ہیں۔جس کی وجہ سے انسانوں میں یہ بیماری کتے کے کاٹنے سے کی وجہ سے ہوتی
ہے۔رے بیز(Rabies) جوایک خطرناک بیماری ہے ۔اس مہلک بیماری سے متعلق معاشرہ
خاص کرہمارے دیہی علاقوں میں آگاہی نہ ہونے کے برابرہے کہ اس بیماری کی
صورت میں کون سے اقدامات کئے جائیں،جن سے اس جان لیوا خطرہ سے محفوظ رہا
جاسکتاہے۔رے بیز(Rabies) سوفیصد قابل ِ علاج مرض ہے،جس کا انحصاران اقدمات
پرہے جواس بیماری کی علامات ظاہرہونے کے فوری بعد کئے جاتے ہیں۔لیکن
بدقسمتی سے ہمارے دیہاتوں میں آج کے اس جدید اورترقی یافتہ دورمیں بھی اس
جان لیوا مرض کے علاج لئے ٹونے اورگھریلو ٹوٹکے استعمال کئے جاتے ہیں۔غریب
اوربے بس اکثراوقات عطائیوں کارخ کرتے ہیں،جہاں الٹ پلٹ طریقہ سے علاج کرکے
انہیں بے رحم بیماری کے رحم وکرم پرچھوڑدیا جاتا ہے اورکئی مریض بغیرعلاج
کے ہی مرجاتے ہیں۔
دوسری جانب حکومتی اداروں کی بے حسی کا یہ حال ہے کہ صوبہ پنجاب کے صرف ایک
شہرفیصل آباداوراس کے گردونواح میں گزشتہ 10ماہ کے دوران آوارہ کتوں کے
کاٹنے سے گیارہ ہزارتین سوافرادمختلف ہسپتالوں میں رپورٹ ہوئے،جبکہ الائیڈ
ہسپتال میں گزشتہ دس ماہ کے دوران تقریباََ پانچ ہزار،اسی طرح ڈی ایچ کیو
ہسپتال میں تئیس سوزخمی افرادرپورٹ ہوئے ہیں۔اس سے بھی زیادہ پریشان کن بات
صوبے کے چھوٹے اوربڑے سرکاری ہسپتالوں میں اینٹی رے بیز ویکسین دستیاب نہ
ہونے کی اطلاعات ہیں۔اسی طرح حال ہی میں سندھ میں رے بیز کی وبا کے حوالہ
سے میڈیا میں تواترسے خبریں آرہی ہیں۔اعدادوشمار کے مطابق گزشتہ سال کے
پہلے 5ماہ میں69ہزارسے زیادہ کتے کے کاٹے کے کیس رپورٹ ہوئے۔جن میں سب سے
زیادہ واقعات لاڑکانہ میں ہوئے ہیں۔ لاڑکانہ ڈویژن میں کتے کاٹے کے کیسزکی
تعداد22ہزار822بتائی گئی تھی،حیدرآبادڈویژن21ہزار،شہیدبینظیرآبادڈویژن میں
12ہزار سے زیادہ، میرپورڈویژن میں 774واقعات پیش آئے تھے۔حیران کن بات سننے
میں یہ آرہی ہے کہ،کتے کے کاٹے کی ویکسین ہسپتالوں کی بجائے کمشنرآفس میں
رکھی جاتی ہیں۔جہاں مریضوں سے شناختی کارڈاورکتے کی صحت کے بارے میں
معلومات کے بعدانجکش فراہم کئے جاتے ہیں۔اب بندہ اپنے مریض کوچھوڑکرپہلے
کتے کی تشخیص کربندوبست کرے۔
گزشتہ دنوں رے بیز (Rabies)سے متعلق ایک دوست نے تفصیلی مضمون بھیجا، جسے
پڑھنے کے بعداحساس ہوا کہ یہ توبہت ہی خطرناک اور مہلک بیماری ہے ۔اس مضمون
کو یہاں شامل کرنے کامقصدبھی یہی ہے تاکہ اس بیماری سے متعلق خطرات اورروک
تھام کے بارے میں آگاہی ہوسکے اور عام لوگوں کے اندرشعورپیداہوکہ رے بیزکی
وجہ سے پیداہونے والی صورت حال میں کیسے اورکون سے ضروری اقدامات کئے جائیں
تواس جان لیوابیماری سے یقینی طورپربچا جاسکتاہے۔
رے بیز (Rabies) بعض پالتواورجنگلی جانوروں سے انسانوں میں (Zoonotic)
اثراندازہونے والی تکلیف دہ بیماری ہے۔ رے بیز(Rabies) کاوائرس
(Rhabdoviridae) کی فیملی (Lyssavirus)سے تعلق رکھتا ہے۔ رے بیز(Rabies) کی
بیماری میں مبتلا جانور کو (Rabid)کہتے ہیں ۔اس کا وائرس دودھ پلانے والے
جانوروں کی نسل جیسے کتے ،بلیاں،گیدڑ،بھیڑیا،چمگادڑ،لومڑی اورکچھ دوسرے
جانوروں کے منہ کے لعاب میں پایا جاتا ہے۔ہرسال دُنیا میں کم وبیش پچپن
ہزار سے زائدافراداس مرض کی وجہ سے المناک موت کا شکارہوتے ہیں،جن میں سے
ننانوے فیصدکویہ مرض پالتو جانوروں ( جنہیں حفاظتی ٹیکے نہیں لگوائے جاتے)
سے ہوتاہے۔ذہن نشین رہے کہ متاثرہ جانورکی معمولی خراش بھی اس مرض کاباعث
بن سکتی ہے ۔
رے بیز(Rabies)سے متاثرہ جانورعموماََ دس دن کے اندرمرجاتا ہے۔جدیدتحقیق سے
معلوم ہوا ہے کہ بعض دفعہ جانوروں کی تھوک(رطوبت) میں وائرس ہوتا ہے، مگر
وہ خودبہت عرصہ تک زندہ رہتے ہیں۔لہٰذا احتیاط کا تقاضا یہ ہے کہ جب بھی
کسی کوکوئی جانورکاٹے،چاہے جانورمیں بیماری کی علامات نہ بھی ہوں، پھر بھی
فوراََ ویکسین لگوالینی چاہیے۔
ماہرین کے مطابق رے بیز(Rabies)کی صورت میں جانورمیں عام طورپرکچھ مخصوص
عادات میں نمایاں تبدیلیاں ظاہرہوتی ہیں ۔جانورخاموش ہو جاتا ہے،خوراک نہیں
کھاتا،پانی سے ڈرتاہے یاپھرغضب ناک ہوکرہرایک کوکاٹنے کودوڑتاہے،چال میں
توازن نہیں رہتا،بعض دفعہ جانورکے جسم کے کچھ حصے مفلوج ہوجاتے ہیں۔
متاثرہ جانورکے کاٹنے سے علامات کے ظاہرہونے میں عام طورپر 2سے8ہفتے لگتے
ہیں۔کبھی کبھی یہ دورانیہ دس دن سے2سال تک کا بھی ہوسکتا ہے۔رے بیز کا
وائرس خون کی بجائے اعصاب کے ذریعہ دماغ تک پہنچتاہے۔یہ مرض انسان
پراثراندازہونے کے بعدریڑھ کی ہڈی اوردماغ کی طرف بڑھتاہے۔اسی لئے کہا جاتا
ہے کہ زخم دماغ سے جتنا نزدیک ہوگا،علامات اُسی قدرتیزی سے ظاہرہونگی۔جب
وائرس دماغ یا حرام مغزتک پہنچ جائے توبچنے کے امکانات کم ہوجاتے ہیں۔فلوکے
اثرات،گلے میں درد،چڑچڑاپن،مزاج میں سختی، غصیلاپن، زیادہ ہلنا
جلنا،احتجاجی رویہ،عجیب خیالات،الجھن،غیرمعمولی جسمانی حرکات،عضلات کی
سختی،سخت تھکن،جسمانی اعضاء کی کمزوری،فالج،لعاب دہن کی زیادتی
،قے،سردرد،بخار،پانی اورہوا سے ڈرنا،کچھ نگل نہ سکنا۔زخم جس قدر بڑا
اورگہرا ہو یا مریض بچہ ہوتوبھی علامات کا ظہورجلدی ہوگا۔
حفاظتی تدبیرکے طورپر خودبھی ویکسین لگوائیں اوراپنے پالتوجانوروں کی
ویکسین کا خاص خیال رکھیں ۔مردہ جانوروں کوچھونے سے پرہیزکریں،اسی طرح مردہ
پرندوں کوچھونے سے پرہیزکریں۔(مردہ پرندوں کے چھونے سے بھی رے بیز(Rabies)
کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں)۔اگرکوئی مشکوک جانور کاٹ لے اگرچہ زخم ایک خراش
کی صورت میں ہی ہوپھربھی زخم کوفوراََصابن سے اچھی طرح دھوئیں اورویکسین
لگوائیں۔یادرہے وائرس جانورکی تھوک (رطوبت)میں ہوتا ہے۔اس لئے متاثرہ جانور
کے چاٹنے سے بھی خطرہ ہوسکتاہے۔ریبڈ(Rabid)جانور کوتحویل میں رکھیں اگردس
دن کے اندرمرجائے تویقینی طورپرریبڈ (Rabid)تھا۔لیکن جانورکے بچ جانے کی
صورت میں بھی خطرہ بدستورموجود ہے۔کیونکہ جدیدتحقیق کے مطابق بعض
جانورزیادہ دیرتک بھی زندہ رہ سکتے ہیں۔ ویکسین کی افادیت اُسی صورت میں
ممکن ہے اگرویکسین کوصحیح درجہ حرارت میں رکھا جائے۔ویکسین کی مقداربچوں
اوربڑوں کے لئے یکساں ہے۔بڑوں کوانجکشن بازوکے حصے میں اوربچوں کوران کے
سامنے اوربیرونی حصے میں لگتاہے۔ عموماََ چارانجکشن لگتے ہیں،پہلے دن،ساتوں
دن، اکیسویں اوراٹھائیسویں دن۔پہلے دن زخم کے آس پاس امیونوگلوبولین
کاانجکشن بھی لگنا چاہیے۔اس کے بعدحفاظتی اقدام کے طورپرایک سال کے بعدایک
انجکشن اورہرپانچ سال کے عرصے میں حفاظت کے طورپرایک انجکشن دیا جائے تاکہ
مریض اس کے خطرہ سے محفوظ رہے۔
پالتوجانوروں کے گلے میں پٹہ ڈالیں اور گھرمیں اُٹھنے بیٹھنے اورکھانے پینے
کی اشیاء کے قریب نہ آنے دیں۔نہ ہی اُنہیں گھرکے اندرکمروں میں گھومنے
پھرنے کی عادت بنانے دیں۔ گھر کے صحن میں ایک طرف اُن کے لئے جگہ مخصوص
کریں اوروہیں تک محدودرکھیں۔اپنے پالتوجانوروں کوگھرسے باہرلے جانا مقصود
ہوتوکھلانہ چھوڑیں بلکہ رسی کے ذریعہ اپنے قابومیں رکھیں۔
رے بیز(Rabies) کے بارے میں ضروری معلومات سے دوسروں کو آگاہ کریں، ہوسکتا
ہے آپ کے آگاہ کرنے سے کسی کی جان بچ جائے۔بچوں، جوانوں اورہرعمرکے انسانوں
میں بیداری پیداکرنا،آوارہ جانوروں سے بچنا،پالتوکتے کی بروقت ویکسین
کروانا،جانور کے کاٹنے کی صورت میں فوری طور پر حفاظتی ویکسین کے لئے
ڈاکٹرسے رجوع کرنا چاہیے۔ اس بیماری سے متعلق خطرات اورروک تھام کے بارے
میں زیادہ سے زیادہ اورمتواتر آگاہی کی ضرورت ہے تاکہ عام لوگوں کے
اندرشعورپیداہوکہ اس صورت حال میں کیسے اورکون سے ضروری اقدامات کئے جائیں
۔
اس کے ساتھ ساتھ متعلقہ ادارے عوام پررحم کریں اورشہریوں کوآوارہ کتوں سے
نجات دلائیں۔آوارہ کتے شہریوں کے لئے وبال جان بن گئے ۔ستم بالائے ستم
انتظامیہ خاموش تماشائی بنی رہتی ہے۔محکمہ صحت اورمیونسپل کمیٹیاں کوئی بھی
ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نہیں۔ہرکوئی دلائل دیتے ہوئے ،ذمہ داری دوسرے
پرڈال رہا ہے۔آوارہ کتے گلیوں اور چوراہوں میں ڈیرے جمائے رہتے ہیں۔جس کی
وجہ سے عام شہریوں خاص کربچوں اوربزرگوں کوشدیدمشکلات اورخوفناک صورت حال
کا سامنا کرنا پڑتاہے۔شہروں میں انسانی جانیں کتوں کے رحم و کرم
پرہیں۔برطانوی حکومت کے عہدسے ہربڑے شہرکی میونسپلٹی میں آوارہ کتے مارنے
کے لئے باضابطہء طورپرسٹاف مقررتھا۔آج کل آوارہ کتے مارنے کے لئے مختص بجٹ
متعلقہ افسران کی جیب میں اورعملہ اعلی عہدداروں کے گھروں میں خدمت کرتاہے۔
|