تحریر:ناصر محمود بیگ
کمپنی کی ایک اہم آسامی کے لئے انٹر ویو ہو نے جا رہا تھا۔سبھی امیدوار
اپنی مکمل تیاری کے ساتھ مقررہ وقت سے پہلے ہی کمپنی کے مرکزی دفتر میں
پہنچ چکے تھے ۔ایک بڑے ہال میں امیدوار اپنی باری کے انتظار میں اپنی اپنی
نشستوں پر بیٹھے تھے۔کمپنی کو اپنے ایک شعبے کے لئے منیجنگ ڈائریکٹر کی
ضرورت تھی۔انٹرویو کے لئے آئے سب امیدوار مطلوبہ تعلیمی قابلیت اور تجربہ
رکھتے تھے۔ان کی اہلیت کو جانچنے کے لیے ان سے ایک سخت قسم کا ٹیسٹ پہلے ہی
لیا جا چکا تھا۔ایک طویل انتظار کے بعد انٹرویو شروع ہوا۔سب امیدواروں نے
باری باری انٹرویو لینے والی کمیٹی کے سامنے پیش ہو کر اپنی صلاحیتوں کا
اظہار کیا۔امیدواروں کی لمبی قطار میں ایک نوجوان عاطف بھی قسمت آزمائی
کرنے کے لئے موجود تھا ۔اس کے پاس اس پوسٹ کے لئے نہ ہی کوئی غیر معمولی
تجربہ تھا اورنہ ہی کوئی اضافی ڈگری اس نے حاصل کر رکھی تھی۔زندگی میں اس
کا یہ پہلا انٹرویو تھا۔اس لئے تھوڑی سی گھبراہٹ اس کے چہرے پر صاف نظر
آرہی تھی۔پھر بھی اس نے اپنے خوف پر قابو پانے کی کوشش کی ۔کمرے میں داخل
ہو کر اس نے کمیٹی کے ارکان کو ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ سلام کیا۔کمرے میں
ساتھ ساتھ دو کرسیاں بے ترتیب انداز میں پڑی تھیں ۔اس نے اپنے بیٹھنے والی
کرسی بھی سیدھی کی اور ساتھ والی کرسی کو بھی درست کر دیا ۔معمول کے چند
سوالات پوچھے گئے۔جن میں سے کچھ سوالوں کے جواب دینے سے اس نے معذرت کر
لی۔آخر میں ایک ممبر نے عاطف سے ایک گلا س پانی لانے کوکہا گیا۔اس نے سامنے
میز پر پڑی گھنٹی کو بجایا اور آفس بوائے کو بلا کر پانی لانے کا بول
دیا۔عاطف انٹرویو دے کر گھر آیا تواسے کوئی خاص امید نہیں تھی ۔ایک ہفتے
بعد اس کو کمپنی کی طرف سے نوکری کی پیشکش کا پروانہ موصول ہوا تو اس کو
بہت حیرت اور خوشی ہوئی۔ عاطف کی اس کامیابی کے پیچھے اس کا مثبت اور پر
اعتماد رویہ تھا۔جتنے بھی امیدوار آئے انہوں نے صرف اپنی کرسی سیدھی کی اور
بیٹھ گئے اور جب پانی مانگا گیا تو اس نے خود دینے کی بجائے ملازم کو
بلایا۔اس رویہ سے صاف ظاہر تھا کہ اس کے اندر مسائل کو حل کرنے اور وسائل
کے درست استعمال کی صلاحیت موجود ہے۔
نوکری حاصل کرنی ہو یا ملازمت کو بر قرار رکھنا ہو ، اپنا کارو بار کرنا ہو
یا نیا کام شروع کرنا ہو ۔زندگی کے کسی بھی شعبے میں نمایاں کارگردگی
دکھانے کے لئے انسان کے اندر تین خوبیاں ہونی ضروری ہیں۔اول :متعلقہ کام کے
بارے علم ہو ۔دوم:اس کام کے لئے مطلوبہ مہارت یا قابلیت ہو۔سوم:کام کے
دوران مثبت اور تعمیری رویہ جو کچھ کر گزرنے کی خواہش پیدا کرے۔ان تینوں کے
تعلق کو ہم درج ذیل فارمولے سے سمجھ سکتے ہیں۔
کارکردگی=(علم+مہارت)×رویہ
اس فارمولے کو ہم ایک مثال کی مدد سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ایک شخص ایک
مشین کو سالہا سال سے چلا رہا ہے۔وہ مشین کے بارے خوب جانتا ہے۔اس لئے اسے
علم کے 100پوائنٹس دیے جاتے ہیں۔اس نے مشین چلانے کی تربیت بھی حاصل کی ہے
۔وہ جانتا ہے کہ مشین کو کیسے بہترین انداز میں چلانا ہے۔اسے کب تیل دینا
ہے ،کب صفائی کرنی ہے۔مشین کو چلانے اور اس کی سروس کرنے کے ماہر اس شخص نے
دوسرے کاریگروں کو بھی تربیت دی ہے ۔اسے مہا رت اور قابلیت کے90پوائنٹس
ملتے ہیں۔لیکن اس کی مشین اکثر خراب رہتی ہے ۔اور بہت سارے حادثات ہو چکے
ہیں ۔اس لئے کہ وہ شخص اپنے علم کو کام میں نہیں لاتا۔وہ دوسروں کو تو
تربیت دیتا ہے مگر مشین کے بارے اپنے علم اور مہارت کو استعمال نہیں
کرتا۔اس کا مطلب اس کام کے بارے اس کا رویہ صفر ہے۔لہذا کارکردگی کے
فارمولے کے مطابق اس کاسکور کچھ یوں ہو گا۔
کارکردگی=(علم+مہارت)×رویہ
صفر=(100+90)×00
اکثر لوگ جانتے ہیں کہ انہیں کیا کرنا چاہیے لیکن ان کا منفی رویہ
اوراعتماد کی کمی ان کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ہوتی ہے۔کئی لوگوں کے پاس
علم حاصل کرنے کے لئے کتابیں اور اساتذہ موجود ہیں ۔مہارتیں سیکھنے کے لئے
لوگ اور مواقع بھی میسر ہوتے ہیں مگر وہ پھر بھی غافل ہیں۔اس لئے کہ وہ
سیکھنا نہیں چاہتے یا پھر سیکھنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے۔اوراس کے
برعکس کچھ لوگوں نے تاریخ میں اپنا نام کمایااگرچہ ان کو اسکول جانے کی
سہولت بھی حاصل نہیں تھی۔صرف اپنے مثبت رویے کی بدولت علم حاصل کرنے اور
مہارتیں سیکھنے کے ذرائع انہوں نے خود پیدا کیے۔ابراہیم لنکن ایک غریب
لکڑہارے کا بیٹا تھا۔وہ ادھار مانگ کر کتابیں پڑھا کرتا تھایہاں تک اس نے
کتابوں کے لئے کاریں صاف کیں ،گھاس کاٹی اور گھروں کو سفیدی تک کی۔اس نے
قانون کی ڈگری حاصل کیا اور امریکہ کا صدر بنا۔اگر رویہ درست ہو تو علم اور
مہارتیں سیکھنے کے راستے خود بخود کھل جاتے ہیں۔اس لئے آپ طالب علم ہیں یا
استاد۔ڈاکٹر ہیں یا انجینئر۔وکیل ہیں یا سیاستدان۔زندگی کے جس بھی شعبے میں
ترقی اور کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔آپ کا رویہ سب سے زیادہ اہمیت کا
حامل ہوتاہے۔اس لئے اپنے رویے پر نظر ثانی کرتے رہیں اور اس کو بہتر سے
بہتر کرنے کی کوشش میں لگے رہیں۔کامیابی کو آپ سے کوئی دور نہیں کر سکتا۔ |