انٹرنیٹ فائدہ کم نقصان زیادہ

آج کا دور انٹرنیٹ کا ہے انٹرنیٹ ایک ایسی سائنسی ایجاد ہے جس کا چرچا ہر طرف نظر آتا ہے۔ پوری دنیا گلوبل ویلج بن چکی ہے۔ انٹرنیٹ کی وجہ سے ہم باآسانی کسی سے بھی گھر بیٹھے گفتگو اور بات چیت کر سکتے ہیں۔ اس نے ہمارے کام کو اتنا آسان کردیا ہے کہ ہم کسی بھی کام کے لیے چاہے وہ معلومات اکھٹی کرنی ہو یا بات چیت کرنی ہو غرض ہر کام کے لیے انٹرنیٹ کے محتاج بن چکے ہیں ۔اس نے ہمیں اپنے سحر میں جکڑ لیا ہے بچے سے لے کر بوڑھے تک ہر کوئی اس وبا کا شکار ہے۔

یہ درست ہے کہ انٹرنیٹ نے ہماری زندگی کو سہل کر دیا ہے۔ ہمارے کسی بھی معاملے میں انٹرنیٹ معاون کا کردار ادا کرتا ہے۔ ہیمبرگ یونیورسٹی کے ہانس بریڈو انسٹیٹیوٹ میڈیا ریسرچ سینٹر کے مطابق انٹرنیٹ کی بڑھتی ہوئی اہمیت کیلیئے ایک وجہ ہی کافی ہے کہ اس نے تکنیکی نوعیت کے مسائل دور کرکے تمام کاموں کی انجام دہی کو بہت ہی آسان بنادیا ہے۔ شمٹ کے مطابق یہ ایک سیدھا سادہ سا اصول ہے کہ انٹرنیٹ جتنا زیادہ لوگوں کو سہولیات مہیا کرے گا لوگ اتنا ہی زیادہ اس پر وقت صرف کریں گے۔

انٹرنیٹ پر 35 کروڑ ویب سائٹس موجود ہیں جن میں سے اکثر ویب سائٹس بہت ہی مفید اور کارآمد ہیں۔ مذکورہ ویب سائٹس میں سے صرف دو فیصد ویب سائٹس یعنی 70لاکھ فحش موجود ہیں۔ یہ حقیقت بھی المیہ سے کم نہیں کہ نوے فیصد انٹرنیٹ صارفین انھی دو فیصد ویب سائٹس کو وزٹ کرتے ہیں۔ چنانچہ اس سے یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ انٹرنیٹ نے انسانی زندگی کو آسان بنانے سے زیادہ اس کو نقصان پہنچایا ہے۔ عالمی سطح پر یہ جادوئی دنیا انسانی معاشرے کے لئے جان لیوا ثابت ہو رہی ہے۔ بچے اور نوجوان تو اس کے سب سے زیادہ شکار ہوئے ہیں انسانی زندگی میں سادگی کی جگہ گلیمر کا لفظ آگیا ہے۔

انٹرنیٹ کے استعمال کے وقت بعض اوقات اچھا بھلا انسان برائی کی دلدل میں پھنس جاتا ہے عجیب سی فحش تصویریں یا ویڈیوز دیکھ کے۔ سوال یہ اٹھتا ہے کہ وہ ان پہ نظر ہی کیوں ڈالتے ہیں؟ اور جواب بہت ہی آسان ہے کہ کوئی بہت ہی نیک و پرہیزگار ہو گا جو ان کو دیکھ کے بھی ان دیکھا کر دے یہ انسانی نفسیات کے اندر ہے کہ وہ برائی کی طرف ایک نظر تو ڈالتا ہے۔ انٹرنیٹ کی دنیا میں اصول و ضوابط نہ ہونے کے برابر ہے۔ کسی بھی حوالے سے کوئی روک تھام نہیں ہے۔ چنانچہ یہ کہنا بہتر ہوگا کہ انٹرنیٹ ایک بڑا کوڑے دان ہے جس میں بہت سی انمول اور کارآمد چیزیں بھی ہیں لیکن ہر شخص کو اجازت ہے کہ وہ اس میں گلی سڑھی اور زہریلی اشیاء بھی ڈال دے۔

لندن اسکول آف اکنامکس کی ایک رپورٹ کے مطابق یورپ میں تقریبا 57 فیصد بچے انٹرنیٹ پر بلاجھجک فحاشی و عریانیت مواد دیکھتے ہیں اور ان کے والدین ان کی اس حیا سوز حرکت سے ناواقف ہوتے ہیں جو بچہ اپنی کم سنی میں ہی انٹرنیٹ کی دلدل میں پھنس جائے وہ جوانی میں ماں باپ کی کہاں سنے گا۔ جس کی معصوم نگاہیں بچپن میں ہی حیاسوز منظر سے آلودہ ہو چکی ہوں اس سے یہ امید رکھنا بےوقوفی ہے کہ وہ جوانی میں شریف اور پاکباز ہوگا۔ جس کا بچپن ایسا ہو اس سے جوانی میں برے اعمال ہونا فطری سی بات ہے۔

موجودہ دور میں نوجوانوں کی جو حالت ہے اس میں انٹرنیٹ کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ تعلیم سے بیزاری عروج پر ہے۔ کتابیں پڑھنے کا رجحان تقریبا ختم ہوتا جارہا ہے۔ والدین سے اتنا دور ہوگئے ہیں کہ صرف کھانے کے وقت ہی والدین سے ملاقات ہوتی ہے اس میں والدین پر بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ وہ اسی غلط فہمی میں رہتے ہیں کہ ہمارا بچہ تعلیم یافتہ ہورہاہے مگر درحقیقت بچے کی سوچ گندگی کا ڈھیر بن رہی ہوتی ہے۔ بچہ اگر گھر سے باہر نکلے تو اس کا خیال رکھا جاتا ہے کہ کہیں بری صحبت کا شکار نہ ہوجائے مگر انٹرنیٹ کے استعمال کے وقت یہ خیال مفقود ہوجاتاہے جب کہ یہ واضح ہے کہ شیطان تنہائی میں ہی سب سے زیادہ انسان کو بہکاتا ہے۔

ازدواجی زندگی کی تباہ کاریوں کا سبب بھی انٹرنیٹ کا زیادہ استعمال ہے۔ ٹائمز آف انڈیا کے مطابق " ایک شخص تنہائی میں فحش فلمیں شوق سے دیکھتا تھا کچھ عرصے کے بعد اس نے اپنی بیوی سے بھی ایسی فحش حرکتیں کرنے کی فرمائش کی بیوی نے انکار کردیا جس کے نتیجے میں اس شخص نے بیوی کو بہت مارا اور گھر سے نکال دیا چنانچہ بیوی نے عدالت سے رجوع کرکے علیحدگی اختیار کرلی"۔

پس آج کے تنہائی پسند انسان کے مصنوعی دنیا میں تو لاتعداد دوست ہیں مگر حقیقی دنیا میں اس کے دوست نہ ہونے کے برابر ہیں حالات کچھ اس نہج پر ہیں کہ پچھلے وقتوں میں مہمان کی آمد پر میزبان خاطر توازع میں کوئی کسر نہ چھوڑتے تھے مگر آج کا میزبان مہمان سے بات کرنے میں بھی دلچسپی نہیں رکھتا ہر کوئی اس جادوئی دنیا میں مگن ہے۔ حتیٰ کہ ایک گھر کے افراد کے درمیان جو ساتھ رہتے ہیں ان کی بھی آپسی قربت و محبت ناپید ہوتی جارہی ہے۔

انٹرنیٹ دراصل ایک نشہ بن چکا ہے۔ بھارت،چین اور امریکا جیسے ملکوں میں کیے گئے سروے کے بعد ماہرین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ انٹرنیٹ نے نشے کی صورت اختیار کرلی ہے ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ الکوہل اور ڈرگس کے بعد انٹرنیٹ کی لت تیسرے نمبر پر آتی ہے اور لت کسی بھی چیز کی ہو وہ اچھی نہیں ہوتی۔

 

Hafsa Abdul Qayum
About the Author: Hafsa Abdul Qayum Read More Articles by Hafsa Abdul Qayum: 6 Articles with 4501 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.