آج جس فلسطین کے لئے خیر وشر اور
حق و باطل کی قوتیں باہم ستیزہ کار ہیں،یہ کوئی نئی بات نہیں ہے اس مقدس
شہر کی تاریخ ایسی ہنگامہ آرائی اور معرکہ خیزیوں سے بھری پڑی ہے جس میں
تین آسمانی مذاہب کے مقدس مقامات و آثار پائے جاتے ہیں ۔ اسی متبرک سرزمین
کی با بت اس کے صحیح حقداروں اور اس کے جھوٹے دعویداروں کے درمیان ایک
مستقل آویزش اور کشمکش چل رہی ہے ۔ طاغوتی قوتیں شب و روز اسے نقصان
پہنچانے پر تلی ہوئی ہیں ۔ انہوں نے اسرائیل کو اپنا آلۂ کار بنا کر اسلام
کی مقدس ترین مسجد مسجد اقصیٰ کو نذر آتش کیا ۔ جس کا مقصد سوائے اس کے اور
کچھ نہیں ہے کہ بتد ریج اس مقدس سرزمین سے اسلام اور مسلمانوں کا نام و
نشان مٹادیا جائے ۔
اس مقدس سرزمین کا تعارف بیان کرتے ہوئے فاتح اعظم سلطان صلاح الدین ایوبی
اپنے سپاہیوں سے کہتے ہیں : اے میرے رفیقو!16ہجری کا ربیع الاول یاد کرو جب
عمر و بن العاص اور ان کے ساتھیوں نے بیت المقدس کو کفار سے آزاد کرایا تھا
۔ حضرت عمر ؓ اس وقت خلیفہ تھے ، وہ بیت المقدس گئے ۔حضرت بلال ؓ ان کے
ساتھ تھے ۔ حضرت بلال ؓ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ایسے
خاموش ہوئے تھے کہ لوگ ان کی پر سوز آواز کو ترس گئے ، انہوں نے اذان دینی
چھوڑ دی تھی ۔ لیکن مسجد اقصیٰ میں آکر حضرت عمر ؓ نے انہیں کہا کہ بلا ل!
مسجد اقصیٰ اور بیت المقدس کے درودیوار نے بڑی لمبی مدت سے اذان نہیں سنی ۔
آزادی کی پہلی اذان تم نہ دو گے ؟ حضور اکرم ﷺ کی وفات کے بعد پہلی بار
حضرت بلا ل ؓ نے اذان دی ، اور جب انہوں نے کہا کہ اشھد ان محمد رسول اللہ
۔تو مسجد اقصیٰ میں سب کی دھا ڑیں نکل گئی تھیں ۔
ہمارے دور میں ایک بار پھر مسجد اقصیٰ اذان کو ترس رہی ہے ۔ 90برسوں سے اس
عظیم مسجد کے دوردیوار کسی مؤذن کی راہ دیکھ رہے ہیں ۔یاد رکھو ۔مسجد اقصیٰ
کی اذانیں ساری دنیا میں سنائی دیتی ہیں ۔ صلیبی ان اذانوں کو گلا گھونٹ
رہے ہیں ، اس عظیم مقصد کو سامنے رکھو ۔ ہم کوئی عام سی جنگ لڑنے نہیں
جارہے ہیں ،ہم اپنے خون سے تاریخ کا وہ باب پھر لکھنے جارہے ہیں جو عمروبن
العاص ؓ اور ان کے ساتھیوں نے لکھا تھا اور ان کے بعد آنے والوں نے اس
درخشاں باب پر سیاہی پھیر دی تھی ۔ اگر چاہتے ہو کہ خدا کے حضور ماتھوں پر
روشنی لے کر جاؤ ،اور اگر چاہتے ہو کہ آنے والی نسلیں تمہاری قبروں پر آکر
پھول چڑھا یا کریں تو تمہیں بیت المقدس میں یہ منبر رکھنا ہوگا جو بیس سال
گزرے نورالدین زنگی ؒ و مغفور نے وہاں رکھنے کے لئے بنوایا تھا ۔
بیت المقدس آج بھی ایک بہترین یا دگار کے طور پر موجود ہے ۔قرون اولیٰ میں
بھی وہ ایک قدیم شہر تھا ۔ یہاں حضرت دادؤ علیہ السلام کی محراب اور حضرت
سلیمان علیہ السلام کا تخت تھا ، اور اس میں وہ عظیم مسجد بھی تھی جس کا
ذکر قرآن مقدس کے اندر موجود ہے اور جس میں امام الا نبیاء صلی اللہ علیہ
وسلم اس رات کو تشریف لے گئے جس رات کو معراج ہوئی تھی ۔ اسی مسجد کا نام
مسجد اقصیٰ (بیت المقدس ) ہے ۔ جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام
پیغمبروں کی امامت فرمائی ۔اللہ رب العزت قرآن کریم میں اس واقعہ کو اس طرح
بیان فرماتا ہے کہ :پاکی ہے اسے جو اپنے بندے کو راتوں رات لے گیا، مسجد
حرام سے مسجد اقصیٰ تک ۔
آج اسی بیت المقدس پر یہودی قابض ہیں، مسجد اقصیٰ کے دروازے مسلمانوں کے
لئے بند ہیں ۔ محراب و منبر کی بے حرمتی ہورہی ہے ۔ مسجد عمر فاروق ؓ کے
بلند و بالا مینار ان کی آواز کو ترس رہے ہیں ۔مقامات مقدسہ کا احترام ختم
ہو چکا ہے ہے ۔ بیت المقدس کے صحن میں ظالم یہودی خون خرابہ کر رہے ہیں ۔مسلمانوں
کے قبلہ اول میں داخل ہونے والے مسلمانوں کو گولیوں سے چھلنی کیا جا رہا ہے
۔ اور آج فلسطین ،بیت المقدس کے دوردیوار ایک نئے صلاح الدین ایوبی کا
انتظار کر رہے ہیں ۔
بیت المقدس کو یہودیوں کے ناپاک تسلط سے رہا کرنے کے لئے حضرت خالد بن ولید
ؓ نے سب سے پہلی جنگ کی تھی ،یہ جنگ آج بھی جاری ہے اور اس وقت تک جاری رہے
گی جب تک دنیا سے ظلم و ستم اور بے انصافی کا خاتمہ نہ ہوجائے گا ۔ الحاد
اور بے دینی ختم نہ ہوجائے گی ۔ اور طاغوتی طاقتیں اپنی شکست نہ تسلیم نہ
کرلیں گی ۔
آخر فلسطینیوں کا صبر و تحمل ، ایثار و قربانی رنگ لایا اور فلسطین کی
سرزمین سے ناپاک یہودی بستیوں کا اجاڑ اور یہودیوں کا انخلاء شروع ہو گیا
ہے ۔
فلسطینیوں کی جس زمین پر یہودی اپنا پیدائشی دعویٰ سمجھتے تھے اب اس زمین
سے خود اسرائیل کی فوجییں ہی انہیں نکال رہی ہیں ۔
اسرائیل نے 1961میں غز ہ کی پٹی پر قبضہ کیا تھا ۔ اب وہاں جو حالات ہیں اس
کا کوئی تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ۔ 140کلو میڑ کے اس چھوٹے سے علاقے میں
نو ہزار یہودی 21بستیوں میں آباد تھے۔ یہ یہودی بستیاں 13فلسطینیوں کے
گنجان آباد علاقوں میں گھری ہوئی ہیں ۔
وہ فلسطین جس کا ذکر قرآن مقدس میں موجود ہے۔وہاں سے یہودیوں کے انخلاء سے
پہلے امریکی و برطانوی صدر نے کہا تھا کہ فلسطین یہودیوں ہی کا علاقہ وہاں
سے انہیں نکالا نہیں جانا چاہئے ، یہ بیان بالکل ایسے ہی ہیں کہ جب 27اگست
1897ءکو سوئز لینڈ کے شہر سبیل میں یہودیوں کا پہلا اجلاس ہوا ؛۔ جس میں
مختلف ممالک کے یہودیوں نے شرکت کی ۔اس کانفرنس میں طے کیا گیا کہ فلسطین
کو یہود کا قومی وطن بنایا جائے ،یہ تحریک ناکام ہوگئی ۔ 1902میں ڈاکٹر
تھیورڈ ور ہزل کا انتقال ہوا ،اپنی وفات سے قبل وہ یہود نو آبادتی بینک اور
یہودی بیت المال قائم کرگیا ۔ان اداروں نے بعد میں یہود کے لئے فلسطین میں
زمین کی خریداری اور نوآبادیوں کی تعمیر میں اہم رول ادا کیا اور سالانہ
خرچ دیا کرتے ہیں ۔
یہودیوں کی صیہونیت اور عیسا ئیوں کی صلیبیت یا امریکہ کی سی آئی اے اور
اسرائیل کی موساد کے درمیان ایک عملی یا خاموش معاہدہ ہے کہ اپنے تاریخی
اختلافات سے قطع نظر کرتے ہوئے اور ملکی مفادات کو ایک حد تک نظر انداز
کرتے ہوئے ہمیں اس وقت صر ف اور صرف عالم اسلام کو نشانہ بنانا ہے ۔قرآن کو
مشق ستم بنانا ہے ۔ مسلمانوں کو خائف اور مرعوب کرنا ہے ۔ افغانوں کی غیرت
ملی کو کچلنا ہے ،عراقیوں کی حمیت قومی کو خاک میں ملانا ہے ۔ فلسطینیوں کو
یہود سے لڑا کر فلسطین کو یہودیوں کے حوالے کرنا ہے۔ عربوں کی توہین و
تذلیل کرنی ہے اور جس طرح بھی ہوسکے سارے عالم اسلام کو سرنگوں کر کے شوکت
اسلام کا جنازہ نکال دینا ہے ۔
کبھی آپ نے یہ سوچا کہ آخر غزہ پٹی سے یہودیوں کا انخلا کیوں ہو رہا ہے ؟
اس کا جواب اس کے علاوہ کچھ اور نہیں ہو سکتا ہے کہ اسرائیل و امریکہ نے
کوئی چال چلی ہوگی کہ اس انخلا کے بعد فلسطینیوں کو آرام سے ان کے علاقوں
سے نکالا جا سکتا ہے ۔ اپنے ساتھیوں کو نکال دینے کے بعد وہاں سے ان کا
صفایا ہوجائے گا جس سے اگر ہم ان سے لڑیں تو اپنے ساتھیوں کی بستیاں اور
یہودیوں پر کوئی آنچ نہ آئے ۔اس انخلا کے پیچھے کیا چھپا ہے اور اللہ ہی
بہتر جانتا ہے کہ امن یا دہشت گردی۔
ماخوذ از اردو ٹائمز انڈیا |