نکاح نام کا نہیں ، ہوتا ہے نبھانے کا نام

بیرون ملک مقیم ایک خوشحال فیملی نے اپنے ٹین ایج بچے کی خواہش اور پسند سے اس کا رشتہ طے کیا اور وطن واپس آ کر اس کی شادی کی اور پیسہ پانی کی طرح بہا کر کی ، کیونکہ یہ ان کا بیٹا تو ایک ہی تھا اور دولت بےحساب ۔ تصاویر اور وڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہو گئیں حالانکہ گاؤں دیہات اور قبائلی علاقوں اور کچھ مخصوص برادریوں میں اب بھی کم عمر بچوں کی شادیاں ہوتی ہیں اور معمول کی بات سمجھی جاتی ہیں اس لئے ان کا کوئی چرچا نہیں ہوتا ۔ مگر یہاں تو جیسے ایک اچنبھا سا ہو گیا یہ کوئی اتنا اچھالنے والی بات تھی ہی نہیں ۔ ماں باپ کی دولت اور سپورٹ سے اپنے خواب کو ہائی پروفائل پورا کرنے والے کو ایک رول ماڈل بنا کر پیش کرنے کا کوئی جواز نہیں تھا اور اسی چیز نے کچھ بچوں کے احساس محرومی کو بڑھا کر انہیں تنقید و تضحیک پر مائل کر دیا ۔ جبکہ ہر پوسٹ پر یہی جملہ تحریر تھا ٹائم پاس یا حرام تعلقات سے نکاح بہتر ہے ۔ جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نوجوانوں کو حرام حلال کا احساس ہے اور جن کا ابھی نکاح نہیں ہؤا ہے وہ اس کے خواہشمند ہیں لیکن ساتھ ہی انہیں اس رشتے سے جڑی ذمہ داریوں کا بھی علم ہونا چاہیئے ۔

‎متوسط شہری طبقے سے تعلق رکھنے والے اٹھارہ سال کی عمر سے کچھ کم یا زائد عمر کے نوجوان بچے عام طور پر اپنے والدین ہی کے زیر کفالت ہوتے ہیں اور عموماً زیر تعلیم ہوتے ہیں بس کا کرایہ اور کینٹین کا خرچہ بھی اپنے ابا سے لے رہے ہوتے ہیں ۔ وہ جیسے تیسے ان کو پال رہے ہوتے ہیں اور ایسے میں اگر وہ کسی طرح ان کے لئے بیوی لے بھی آئیں جو آئے ہی اس سوچ کے ساتھ کہ سسرال والوں کی خدمت مجھ پر فرض نہیں تو اسے بھی پالنا اور اس کے نخرے اٹھانا ساس پر فرض نہیں ۔ پھر یہ لڑکا کیا اس قابل ہو گا کہ اس کی علیحدہ رہائش کا بند و بست کر سکے بیوی کی بنیادی ضروریات ہی پوری کر سکے؟ کتنا عرصہ چل سکے گی یہ شادی؟

‎اگر کسی کے ماں باپ نے بہت تنگی ترشی سہہ کر اور محنت مشقت سے ان کو پال پوس کر بڑا کیا ہے اور اب ان کے پلے اتنا بچا ہی نہیں ہے کہ پہلے ان کی شادی کر کے پھر ان کی فیملی کو بھی پال سکیں تو انہیں معاف کر دیں اور خود کو کسی قابل بنانے کی کوشش کریں ۔ سبھی ماں باپ اتنے صاحب حیثیت نہیں ہوتے کہ فکر معاش سے بےنیاز بچے کی شادی کر کے اس کی فیملی کو بھی پالنے کی ذمہ داری لیں ۔ آواز اٹھانی ہی ہے تو ان لوگوں کے لئے اٹھائی جائے جنہیں دس دس سال ہو چکے ہیں برسر روزگار ہوئے مگر ان کی شادی نہیں ہوئی ۔ رحم کھائیں ان پردیسیوں پر جو اپنے پورے خاندان کو پال رہے ہیں شادی شدہ بہن بھائیوں کے گھر چلا رہے ہیں اور خود کئی کئی سال تک گھر نہیں آتے ۔ اگر کسی طرح خود اپنی بھی شادی ہو ہی گئی ہے تو بیوی کو اپنی زندگی ہی میں بیوہ کر چکے ہیں ۔ مرد کی چار شادیوں کا سب کو پتہ ہے بیوی سے چار ماہ سے زیادہ دور نہیں رہنا چاہیئے یہ بات کوئی نہیں کرتا تب کسی کو شریعت یاد نہیں آتی ۔ عورت اپنی پوری جوانی سسرال والوں کے ساتھ ان کی سیوا میں گذار دیتی ہے جس شخص کے نکاح میں آئی ہے ایک وہی موجود نہیں ہوتا کیسا طرفہ تماشا ہے کبھی کسی نے اس بارے میں بھی سوچا؟ کس بات کی سزا ملتی ہے خدا سے ڈرنے والوں کو؟ خدا سے نا ڈرنے والوں کے ہاتھوں (رعنا تبسم پاشا)
 

Rana Tabassum Pasha(Daur)
About the Author: Rana Tabassum Pasha(Daur) Read More Articles by Rana Tabassum Pasha(Daur): 228 Articles with 1854555 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.