بابر اعوان اور گڑے مُردے

علمی تحقیق کی بات کیجیے تو دنیا اب تک غار کے زمانے میں جی رہی ہے۔ دنیا بھر میں پی ایچ ڈی کرنے کا صرف ایک طریقہ ہے اور وہ ہے تحقیق۔ ہم نے اپنی تحقیق سے یہ معلوم کیا ہے کہ پاکستان میں پی ایچ ڈی کرنے کے کئی طریقے ہیں۔ اور ہوسکتا ہے کہ کل کو اِس موضوع پر بھی پی ایچ ڈی ہونے لگے کہ پاکستان میں پی ایچ ڈی کِس کِس طریقے سے کی جاسکتی ہے!

اب تک تو یہ ہوتا آیا تھا کہ یا تو لوگ خود تحقیق کر کے پی ایچ ڈی کی ڈگری لیا کرتے تھے یا پھر جس طرح اُجرتی قاتلوں کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں بالکل اُسی طرح دوسروں کو اُجرت دیکر تحقیق کروائی جاتی تھی اور پی ایچ ڈی کی ڈگری وصول کر لی جاتی تھی! بابر اعوان صاحب کے کیس میں انوکھی بات یہ ہوئی ہے کہ پی ایچ ڈی کی ڈگری تو اُنہوں نے حاصل کی ہے اور دادِ تحقیق ہما شُما دے رہے ہیں! پی ایچ ڈی کے حوالے سے یہ ایک نئی راہ نکالی گئی ہے تو کسی کو زیادہ جُزبُز ہونے کی ضرورت نہیں۔ جب سیاست دان ملوث ہوں تو ”علم“ کی دنیا میں ”تحقیق“ کچھ اِسی طور ہوا کرتی ہے۔ چند گھسے پٹے موضوعات میں کوئی کس طرح جدت پیدا کرسکتا ہے؟

بابر اعوان نے پی ایچ ڈی ہونے کا اعلان کر کے گویا ایک آسمان کو اپنے اوپر گرا لیا۔ جسے دیکھیے وہ اب تک اِس پی ایچ ڈی کی تحقیق میں لگا ہوا ہے! اگر یہی رنگ ڈھنگ رہے تو ہم خبردار کئے دیتے ہیں کہ اِس ملک میں پی ایچ ڈی بننے بند ہو جائیں گے!

بابر اعوان نے پی ایچ ڈی ہو جانے ہی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ بھٹو کیس کی دوبارہ سماعت میں وکیل کی حیثیت سے شریک ہونے کے لئے وزارت کی قربانی بھی دے دی ہے۔ بھٹو کیس کی ری اوپننگ کا چاہے جو بھی انجام ہو، بابر اعوان کا وزارت سے دستبردار ہونا بجائے خود ایک تاریخی حقیقت بن سکتا ہے! اُن کی قربانی مثال بنے نہ بنے، جذباتیت ضرور مثال کا درجہ پاسکتی ہے!

پاکستان کی سیاست ایک ایسی قبر کے مانند ہے جس میں گڑے مُردے اُکھاڑنے کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اور سچ تو یہ ہے کہ اُتنے مُردے گاڑے نہیں جاتے جتنے اُکھاڑے جاتے ہیں! یعنی ایک ہی مُردہ کئی بار اُکھاڑا جاتا ہے۔ بھٹو کیس بھی ایک ایسا ہی گڑا مُردہ ہے جو اب بہت حد تک اُکھڑے مُردے میں تبدیل ہوچکا ہے! پاکستان کی سیاسی تاریخ میں جس قدر مذاق بھٹو کیس کے ساتھ کیا گیا ہے شاید ہی کسی اور کیس کے ساتھ ہوا ہو۔ اب جس انداز سے اس کیس کو دوبارہ چلانے کی تیاری کی جارہی ہے اُسے دیکھ کر شاید ذوالفقار علی بھٹو کی روح بھی تڑپ گئی ہوگی۔ مگر ساتھ ہی ساتھ اِس کیس کی ری اوپننگ سے وابستہ شخصیات کو تڑپانے کا بھی خوب اہتمام کیا گیا ہے۔ اِدھر بابر اعوان نے بھٹو کیس لڑنے کا فیصلہ کیا اور اُدھر اُن کے سیاسی ماضی کے بارے میں تحقیق و تحقیر کا بازار گرم ہوگیا! بھائی اعجاز الحق نے تو غضب ہی ڈھا دیا۔ انہوں نے اپنے والد ضیاءالحق مرحوم کی برسی کے ایک اجتماع کی ایسی تصویر جاری کردی جس میں بابر اعوان بھی خطاب فرماتے دیکھے جاسکتے ہیں! اعجاز الحق صاحب! اگر آپ ایسا کریں گے تو کون آئے گا؟ بابر اعوان کی تصویر کھنچ ہی گئی تھی تو فریم یا البم میں کیا بُری لگ رہی تھی! اگر آپ لوگوں کے ماضی کی نقاب کشائی کرتے رہیں گے تو سیاسی دُکان کیسے چلے گی؟ سیاسی بوتیک کپڑے پہنانے کے لئے ہوتی ہے، اُتارنے کے لئے نہیں! اِس طرح تو آتا گاہک بھی بھاگ جائے گا!

میڈیا والوں کو بھی بس بہانہ چاہیے گڑے مُردے اکھاڑنے کا۔ بھٹو کیس ری اوپن کرنے کے لئے درخواست کی سماعت شروع ہونے کی دیر تھی۔ میڈیا کے لوگ اب ماضی کے کوڑا دان کو کھنگال رہے ہیں اور نوبت مٹھائی کی تقسیم اور فاتحہ خوانی تک جا پہنچی ہے! ساری محنت اِس بات کا کھوج لگانے پر صرف کی جارہی ہے کہ بھٹو کی پھانسی پر کِس کِس نے مٹھائی بانٹی تھی۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ بھٹو کی پھانسی پر کسی مشہور سنیما کے باہر مٹھائی بانٹے جانے سے متعلق تحقیق کی جائے اور سیاست میں ایک نئی فلم ریلیز ہو! بہر کیف، جامعات نوٹ فرمالیں کہ بھٹو کی پھانسی پر مٹھائی بانٹنے اور اُن کے بد خواہوں کے لئے فاتحہ خوانی کو بھی پی ایچ ڈی کے موضوع میں تبدیل کیا جاسکتا ہے!

بابر اعوان کو بھی بھٹو کی پھانسی پر مٹھائی بانٹنے کے الزام کا سامنا رہا ہے۔ ہم یہ عرض کرنا چاہیں گے کہ کسی کے مرنے پر فاتحہ خوانی کے بعد بھی شیرینی تو تقسیم کی ہی جاتی ہے۔ اب اگر کسی کے مرنے پر مٹھائی تقسیم ہوگئی اور بعد میں کسی اور کے مرنے پر فاتحہ خوانی کر لی گئی تو کون سی قیامت آگئی؟ بس ذرا رسم اور شخصیت کی ترتیب ہی تو بدل گئی!

ہمارا مشورہ تو یہ ہے کہ کسی کا ماضی زیادہ کھنگالنا نہیں چاہیے۔ اب کیا کوئی دو چار سیاسی پارٹیاں بھی نہ بدلے! اگر کسی ایک پارٹی میں جم کر بیٹھ جائیں تو لوگ سیاسی داؤ پیچ کیسے سیکھ پائیں گے! الزابیتھ نے آٹھ شادیاں کی تھیں۔ اُسے تو کسی نے نہیں روکا اور ہمارے ہاں کوئی تین چار پارٹیاں بدلے تو لوگ لٹھ لیکر پیچھے پڑ جاتے ہیں۔

یہ بات ماننا پڑے گی کہ بھٹو صاحب کے نام سے سیاست کی گرم بازاری برقرار ہے۔ آج بھی لوگ اُن کے نام کا اِتنا کھا رہے ہیں کہ بدہضمی کا شکار ہیں! بھٹو صاحب تو اپنی قبر میں ابدی نیند سو رہے ہیں مگر اُن کے نام پر گڑے مُردے اکھاڑنے کا سلسلہ کچھ اِس شِدّت سے جاری ہے کہ لوگ چونکے بغیر نہیں رہ سکتے۔ جو کچھ بھٹو صاحب نے کیا وہ اُن کے ساتھ گیا مگر جو کچھ اُن کے مرنے پر کیا گیا وہ اب بھی لوگوں کے سامنے آ رہا ہے! بہر کیف، بابر اعوان کفّارہ ادا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تو اُنہیں ایسا کرنے دیا جائے۔ کسی صورت تو سیاست کا میلہ چلتا رہے، میڈیا کی دُکان سجی رہے!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 487157 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More