تجربے کی بات، حسینوں کا ساتھ

مرزا تفصیل بیگ (اپنا) سر پکڑے بیٹھے تھے۔ ہم نے اُنہیں اِس حال میں دیکھا تو موقع غنیمت جانا اور ”مشورہ“ دیا کہ زیادہ زور سے سر نہ پکڑیں، کہیں کھوپڑی چٹخ گئی تو بُرادہ باہر آ جائے گا! ہمارے ”مُخلِصانہ“ مشورے نے جلتی پر تیل چھڑکنے کا کام کیا اور مرزا بھڑک اُٹھے۔ تپ کر بولے۔ ”تمہیں اٹکھیلیاں سُوجھی ہیں اور یہاں لوگوں کے کیریئر داؤ پر لگنے کے لئے تیار بیٹھے ہیں۔“ ہم نے دِل لگی کے مُوڈ کو لپیٹ کر ایک طرف رکھا اور دریافت کیا کہ ایسا کیا ہوگیا ہے جس سے کیریئر داؤ پر لگ گئے ہیں۔ ویسے اب چاہے کوئی بھی چیز داؤ پر لگ جائے، حیرت نہیں ہوتی۔ جب پورا ملک ہی داؤ پر لگ چکا ہو یا لگایا جاچکا ہو تو کسی بھی بات پر حیرت کیسی اور کیوں!

مرزا بتانے لگے۔ ”برطانیہ میں کام کے حوالے سے نئی تحقیق کے حیرت انگیز نتائج سامنے آئے ہیں۔“

ہم سوچ میں پڑگئے کہ گوروں کو کیا ہوگیا ہے۔ اب یہ کوئی کام وام نہیں کرتے، بس کام سے متعلق تحقیق ہی کو کام کو قرار دیکر اپنا دل بہلاتے رہتے ہیں! ہمیں آزاد کرنے کے بعد سے گورے خاصے نِکھٹّو ہوگئے ہیں! اور ہم بھی عجیب ہیں کہ نِکھٹّو گوروں کی تحقیق کو بھی بخوشی قبول کرلیتے ہیں! شاباش! مرعوبیت ہو تو ایسی ہو! گوروں کو ذرا فرصت ملے تو ہماری بے پایاں مرعوبیت پر بھی کچھ تحقیق فرمائیں!

خیر، مرزا نے بتایا کہ معمر اور تجربہ کار ملازمین زیادہ عمدگی اور دل جمعی سے کام کرتے ہیں۔ اِتنا سننا تھا کہ ہم حیرت کے مارے اُن کا منہ تکنے لگے۔ مرزا سمجھے کہ ہم اُن کی عمر کا ڈھلنا ملاحظہ فرما رہے ہیں! بس۔۔ پھر کیا تھا، اپنی حد سے گزر گئے۔ یعنی مُنہ بنالیا! ہم نے اُنہیں مناتے ہوئے کہا کہ ہمیں تو اِس بات پر حیرت ہے کہ معمر اور تجربہ کار افراد تو بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہی ہیں، اِس کے لئے تحقیق کا میلہ سجانے کی کیا ضرورت ہے؟

مرزا پھر گویا ہوئے۔ ”تحقیق سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ کسی بھی دفتر یا فیکٹری کے سینئر ملازمین پُرسکون رہتے ہوئے کام کرتے ہیں، اُن میں غیر معمولی تحمل پایا جاتا ہے، بات بات پر مشتعل نہیں ہوتے، لڑنے بھڑنے سے گریز کرتے ہیں۔“ ہم نے عرض کیا کہ یہ بھی کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ جو انسان زندگی کی پچپن ساٹھ بہاریں دیکھ چکا ہو اگر اُس میں بُرد باری پیدا نہیں ہوگی تو پھر کِس میں ہوگی؟ جونیئرز کا خون گرم ہوتا ہے اِس لئے وہ بات بے بات بھڑک اُٹھتے ہیں۔ یہ تو فطری امر ہے۔ زمانے کے سرد و گرم کا سامنا کرنے والوں میں تحمل پسندی در آتی ہے۔ اِس بات کو جاننے کے لئے بھی تحقیق کی چنداں ضرورت نہیں۔

مگر جب مرزا نے خبر کی پنچ لائن سُنائی تو ہم تقریباً اُچھل پڑے۔ محسوس یہ ہوا جیسے کسی نے منہ پر شہید ملت والا مُکّہ رسید کردیا ہو! مرزا بتا رہے تھے کہ برطانیہ کہ مینہائم یونیورسٹی کے عمرانی علوم کے ماہرین نے مشاہدے اور تحقیق سے یہ حسین نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اگر کسی ادارے میں خواتین بھی نمایاں تعداد میں ہوں تو سینئرز کی کارکردگی بہتر ہو جاتی ہے! ہم نے عرض کیا کہ انسان جب اِس فانی دنیا میں رہتے ہوئے حُوروں کے جلو میں کام کرے گا، پری چہرہ لوگوں کا ساتھ نصیب ہوگا اور غمزہ و عشوہ و ادا کی صحبت ملے گی تو ”بادل خواستہ“ خود کو جنت میں محسوس کرے گا اور زیادہ سُکون سے کام کرے گا! ایسے میں کارکردگی کا گراف بلند ہونا ہی ہے۔ شاید ایسے ہی ماحول کے لئے حمایت علی شاعر نے کہا ہے
کِس لیے کیجے کِسی گم گشتہ جنت کی تلاش
جبکہ مٹی کے کھلونوں سے بَہل جاتے ہیں لوگ!

برطانوی محققین مزید فرماتے ہیں کہ خواتین کے ساتھ کام کرنے سے نوجوان مردوں کی کارکردگی گہنا جاتی ہے! یہ ہمارے لیے انکشاف سے کم نہ تھا۔ مرزا نے اِس کی وضاحت یوں فرمائی۔ ”خواتین کی موجودگی میں سینئرز کا دماغ کام کرنے لگتا ہے اور جونیئرز کا دماغ چل جاتا ہے! محققین کا کہنا ہے کہ کام کے ماحول میں خواتین زیادہ ہوں تو جونیئرز کی توجہ کام پر نہیں رہتی ہے اور وہ مضطرب اور مشتعل رہتے ہیں!“

ہم نے عرض کیا کہ نوجوانوں کی توجہ اگر کام پر نہیں رہتی تو خواتین پر بھی نہیں رہتی۔ وہ تو بس سینئرز کا ”اِنہماک“ دیکھ دیکھ کر کڑھتے رہتے ہیں! سینئرز اِس صورت حال کا خوب فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ خواتین اپنے سینئرز میں پدرانہ شفقت (بھی) تلاش کرتی ہوں مگر بھئی، سینئرز کا اُن کی رائے یا خام خیالی سے متفق ہونا ضروری نہیں! جونیئرز بے چارے سینئرز کی شفقت میں میں پائے جانے والے خواتین نواز رُجحان کا تجزیہ کرتے کرتے اپنی ذہنی صلاحیت اور سکت سے محروم ہوتے جاتے ہیں!

خواتین کی موجودگی میں سینئرز کا پرُسکون رہتے ہوئے عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کرنا یہ ثابت کرتا ہے کہ وقت کتنا بڑا ڈائریکٹر ہے اور ڈارون کی تحقیق کے نتیجے کو اداکاری کے کیسے کیسے کرتب سِکھا دیتا ہے! یہ تحقیق اِس امر کو بھی ثابت کرتی ہے کہ سینئرز کتنے کتنے اچھے منصوبہ ساز ہوتے ہیں۔ تحمل کے ساتھ عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے وہ نوجوانوں کے اشتعال کا گراف بلند اور اپنی جاب پکّی کرتے ہیں! یہ تو میٹھی چُھری والا معاملہ ہوا!

برطانوی تحقیق سے یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ نوجوان ملازمین اپنے کام سے بہت جلد اُکتا جاتے ہیں اور دل جمعی سے کام نہیں کر پاتے۔ سیدھی سی بات ہے، جب خواتین کی توجہ سینئرز پر مرکوز ہو تو نوجوانوں میں بیزاری اور اُکتاہٹ کا پیدا ہونا فطری امر ٹھہرا۔ جب کرنے کے لئے کچھ ہوگا ہی نہیں تو بے چارے نوجوان سڑکوں پر ون وھیلنگ نہیں کریں گے تو اور کیا کریں گے! اُن کی نصف ذہنی صلاحیت خواتین کی توجہ حاصل کرنے پر اور نصف توانائی اِس توجہ کو برقرار رکھنے کے لئے کمالات دِکھانے پر صرف ہو جاتی ہے! بے چارے کریں تو کیا کریں، جس عمر میں اِنہیں خواتین کے نزدیک آنے کا چانس ملتا ہے، بزرگ کمالات دِکھانے پر تُل جاتے ہیں!

مرزا زیادہ پریشان دِکھائی دیئے تو ہم نے پوچھا کہ ایسی کیا بات ہوگئی کہ مستقل گم گشتہ دکھائی دے رہے ہو۔ کہنے لگے۔ ”ہم زندگی کی ساٹھ بہاریں دیکھ چکے ہیں مگر اب تک عمدہ کارکردگی کے معاملے میں ”عہدِ بہاراں“ کے محتاج نہیں رہے۔ کام کے ماحول میں خواتین خال خال بھی ہوں تو ہم کارکردگی پر توجہ دیئے رہتے ہیں! عمر کی حد تک ”سٹھیانے“ کے باوجود ہم اپنا کام پوری مستعدی اور عمدگی سے کئے جارہے ہیں۔ اب خیال آ رہا ہے کہ خواتین کی سنگت کے بغیر عمدہ کام کرنا کہیں کسی بڑی نفسیاتی پیچیدگی کا مظہر تو نہیں! کل کلاں کو یہ نہ ہو کہ خواتین کی سنگت کے بغیر بھی عمدہ کام کرنے پر ہماری سینیارٹی کو مشکوک قرار دیکر ہم ہی پر تحقیق کی جانے لگے!“

مرزا کے اِس وسوسے نے ہمارا دل بھی دہلا دیا اور ہم چند لمحات کے لئے سہم گئے۔ پھر ہم نے یہ کہتے ہوئے مرزا کو تسلی دی کہ زندگی کی ساٹھ بہاریں دیکھنے کے بعد اب آپ کا دل دنیا سے بھر گیا ہے اور آپ شاید چشم تصور کی آنکھ (!) سے ہر وقت خود کو حُوروں کے جلو میں پاتے ہیں! اور جب معاملہ حُوروں کا ہو تو اِس دنیا کے معمولی حسینوں کا خیال کِسے آئے اور کیوں آئے! پس ثابت ہوا کہ عمدہ کارکردگی کے لئے آپ آسانی سے جنت کے تصور کا سہارا لے سکتے ہیں، گوروں کی تحقیق کے محتاج ہرگز نہیں! ہماری اِس وضاحت سے مرزا کی ڈھارس بندھی اور وہ اپنے حواس کی دنیا میں واپس آئے۔

جو کچھ فطری ہے اور قدرت کی طرف سے ہم میں ”اِن بلٹ“ کیا گیا ہے اُس پر تحقیق کرنا وقت کے ضیاع کے سِوا کچھ نہیں۔ مرد کا ایک بنیادی ”مسئلہ“ یہ ہے کہ گھر والی آدھا پاؤ دہی منگوائے تو گھر سے باہر قدم رکھتے ہوئے جان جاتی ہے اور اگر پڑوسن لَسّی منگوائے تو تپتی دوپہر میں دس گلی چھوڑ کر ”پنجاب لَسّی ہاؤس“ تک جانا اور آنا بھی ذرا بُرا نہیں لگتا! اِس نوعیت کے معاملات میں جونیئرز اور سینئرز دونوں ہی برابر کے تحمل پسند اور خواتین نواز پائے گئے ہیں! ایسی ہی صورت حال خواتین خانہ کے دماغ کی لَسّی بناتی ہے اور وہ بعد میں تادیر ”منجن بیچتی“ پائی جاتی ہیں! خواتین خانہ کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ جو رجحانات فطری طور پر ودیعت کئے گئے ہیں اُن کے مطابق عمل کرنے کے معاملے میں مرد بے چارے لاچار ہیں! اِن ”معصوم پرندوں“ کو کچھ نہ کہا جائے!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 486764 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More