کہتے ہیں شہد جتنا میٹھا، مزیدار اور چاشنی لیے ہوتا ہے
اس کو بنانے والی مکھی کا ڈنک اتنا ہی خطرناک ، نقصان دہ اور گہرے زخم کا
پیغام لاتا ہے۔ شہد کھانے والا بہت سے امراض سے شفا پاتا ہے اور اس کی مکھی
کے ہاتھوں زخم کھانے والا بہت دیر تک تکلیف سہتے رہنے پر مجبور ہوتا ہے۔
زندگی میں بہت سی باتیں، اکثر عمل اور کئی لوگ شہد سے بھی میٹھے دکھائی
دیتے ہیں، مگر وقت آنے پر شہد کی مکھی کو بھی پیچھے چھوڑ دیتے ہیں۔ میرے
عزیز عدنان کو ابھی ابھی ایک ایسی ہی مکھی ڈنک مار گئی ہے اوروہ اپنا زخم
سہلانے میں مصروف ہیں۔
آج سے 20 سال پہلے عدنان نے’’ شہد‘‘ کی آرزو میں امریکا کا رُخ کیا تھا۔ تب
گھر کی حالت یہ تھی کہ ایک وقت کا فاقہ معمول تھا۔ رات کو صبح اور صبح کو
رات کی سوکھی روٹیاں کھائی جاتیں۔ بچوں کو ٹیوشنیں پڑھا کر انہوں نے بی اے
کیا۔ نہ جانے کتنوں سے قرض لے کر وہ اس دور کے نوجوانوں کے خوابوں کی
سرزمین جا پہنچے۔ ابتدائی 3،4 سال انہوں نے ہوٹلوں پر برتن دھوتے ، پبلک
واش روم صاف کرتے، ٹیکسی چلاتے گزارے اور اپنی تعلیم کو ماسٹر تک پہنچایا۔
اس کے بعد خوش قسمتی سے انہیں ایک ڈیپارٹمنٹل سٹور اور پھر جیولری کی دکان
پر ملازمت مل گئی اور حالات بدلنے شروع ہوئے۔ بعد میں وہ اپنا کاروبار کرنے
لگے۔
ادھر پاکستان میں اس کے والدین بوسیدہ گھر کو چھوڑ کر بنگلے میں شفٹ ہوئے۔
بچی ہوئی روٹیاں کھانے والے اکثر باہر ریستورانوں میں کھانا کھانے لگے۔ کچھ
عرصے بعد والدین نے ان کی شادی کردی، ان کے اوپر تلے دو بیٹے بھی ہوگئے۔
کلینڈر کے ہر پلٹتے صفحے کے ساتھ خوشحالی بڑھ رہی تھی، مگر اچانک ان کی
پُرسکون زندگی کے دریا میں پتھر آگرا۔ عدنان کی والدہ سے ان کی بیوی کی
لڑائی ہوئی۔ ان کی والدہ نے انہیں فون کرکے بیوی پر وہ الزام لگائے کہ غصے
میں آکر انہوں نے بیوی کو فارغ کردیا۔ بیوی صبر کے علاوہ اور کیا کرتی۔
چھوٹے بیٹے کو اٹھایا اور اپنے گھر چلی آئی۔ عدنان کے گھر والوں نے اسے
حوصلہ دیا کہ اس کے بڑے بیٹے کو وہ خود اپنی آنکھوں پر بٹھا کر رکھیں گے۔
عدنان نے صلح کی اپنی سی کوشش کی، مگر مایوس ہوکر اپنی ساری توجہ کا مرکز و
محور اپنے بڑے بیٹے عامر کو بنالیا۔
لاہور کے سب سے مہنگے اسکول میں اسے داخل کرایا۔ اس کے لیے خصوصی وین
لگوائی۔ جب وہ پاکستان ہوتا تو اسے خود چھوڑنے اور لینے جاتا۔ عدنان اس کے
کھانے پینے، اوڑھنے پہننے کے لیے ماں باپ کو الگ سے رقم بھیجتا۔ اس نے عامر
کو 12 سال کی عمر میں ہی لیپ ٹاپ، ٹیبلٹ اور آئی پیڈ کے استعمال میں طاق
کردیا۔ عدنان کے بیٹے نے کئی سوشل ویب سائٹس پر اپنی آئی ڈیز بنائیں اور
کمپیوٹر کی دنیا میں اس کے کئی دوست بن گئے۔ عدنان نے اپنی جوانی، اپنی
محنت اور اپنی دولت اپنے بیٹے کو بڑا آدمی بنانے میں وار دیں، مگر اب ہوتا
یہ کہ عدنان کبھی پاکستان آتا تو عامر ریزرو رہتا اور واپس جانے پر خوش
رہنے لگا۔
ایک روز وہ اسکائپ پر عامر سے گفتگو کررہا تھا۔ عامر کے مذاق اُڑانے پر
عدنان نے اسے سختی سے ڈانٹا تو عامر نے اپنے باپ کو گالی دی۔ روتا ہوا اپنی
دادی اماں کے پاس آگیا۔ عدنان نے بعد میں والدہ کو فون کرکے شکوہ کیا کہ
میرا گھر خراب کرنے کے بعد اب میرے بیٹے کو بھی مجھ سے جدا کیا جارہا ہے۔
اس کا جواب اسے یوں ملا کہ اب والدین اس کا فون نہیں اُٹھارہے۔ عامر نے یہ
کہہ کر اپنے باپ کا اسکائپ اکاؤنٹ لسٹ سے نکال دیا: ’’میں ایسے آدمی سے بات
نہیں کرنا چاہتا۔‘‘
عدنان ان دنوں بہت اُداس ہے۔ وہ سوچتا ہے کہ اسے گھر والوں کی خوشی کے لیے
سات سمندر پار اپنی اَنا، اپنی عزت کو ٹھوکر مارنے کا کیا صلہ ملا؟ جب بیٹے
قد نکالنے لگیں، اپنے باپ کو والد کے درجے سے گراکر ’’آدمی‘‘ بنا ڈالیں تو
ایسے میں باپ جیتے جی مرجایا کرتے ہیں۔ یہ اس لکڑی کی طرح ہوجاتے ہیں جو
دیکھنے میں مضبوط لگتی ہے، مگر دیمک اس کے اندر کا صفایا کرچکتی ہے۔ ایسی
دولت، شہرت اور آسائش کا کیا فائدہ جو سکون، خوشیاں اور اپنوں سے محبت کا
ہنر نہ دے سکے۔ ایسی بارش کس کام کی جو باہر کا ہر منظر بھگودے، مگر اندر
کی دنیا ویران اور بنجر ہی رکھے۔ ایسے شہد کو کیا چکھنا جس کا میٹھا ذائقہ
شہد کی مکھی کے ایک ڈنک سے دُکھ، تکلیف اور افسوس میں بدل جائے۔ عامر جیسا
بیٹا رکھنے والے ہر عدنان سے گزارش ہے یہ وقت آنے سے پہلے ہی لوٹ آئیے۔
اپنے بیٹوں سے عدنان جیسے فاصلے گھٹائیے اور اس کے لیے ’’شہد‘‘ کا سودا
کرنا پڑے تو کر جائیے کہ یہ کوئی مہنگا نہیں۔ |