ہر سال 10 فروری کو دنیا بھر میں مرگی کے مرض کا عالمی دن
منایا جاتا ہے جس کا مقصد اس مرض کے بارے میں شعور اجاگر کرنا اور عام
لوگوں کو مرگی کے بارے میں درست حقائق اور بہتر علاج معالجے کی فوری ضرورت
، بہتر نگہداشت اور تحقیق میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کے بارے میں
آگاہی فراہم کرنا ہے۔ ایپی لیپسی (Epilepsy) یعنی مرگی ایک ایسی بیماری ہے
جو کہ دماغ کو متاثر کرتی ہے ۔ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں 22 لاکھ
مرگی کے مریض ہیں مگران میں سے صرف 50ہزار مریضوں کو ہی علاج کی سہولت حاصل
ہے۔اس مرض کی بہت ساری اقسام ہیں۔ جس میں سے ایک تو وہ قسم ہوتی ہے جو بڑے
دوروں پر مشتمل ہوتی ہے جس میں پورا جسم تشنج کی طرح اکڑ جاتا ہے ، جھٹکے
کھاتا ہے، آنکھیں اوپر چڑھ جاتی ہیں، منہ سے جھاگ نکلتا ہے۔ اس قسم کے
دوروں کو ’’جنرلائزڈ ٹانک کلونک سیزر‘‘ (generalized tonic-clonic
seizures) کہتے ہیں۔ فضا میں گھورنا(staring spells) یعنی چند لمحوں کیلئے
گم صم ہوجانابھی مرگی کے مرض کی ایک قسم ہے۔ اس کو ’’دماغی طور پر غیرحاضر‘‘
(absence seizures) کہتے ہیں۔ اسی طرح چکر آنا اور کنفیوژ ہوجانا ، منہ
چلانا اور بے خود ہوجانا ، ہاتھ یا پاؤں کا جھٹکے کھانا وغیرہ بھی مرگی کی
اقسام میں شامل ہیں۔اگرچہ یہ مرض دیکھنے میں بڑا خوفناک لگتا ہے مگر یہ
قابل علاج مرض ہے۔ مرگی کوئی آسیبی اثر کا مرض نہیں ہے، کوئی جادو، چڑیل یا
جن کا اثر بھی نہیں ہے۔یہ دوسری بیماریوں جیسے بلڈپریشر، شوگر کی طرح ایک
بیماری ہے جو کہ ادویات سے بالکل کنٹرول میں آ جاتی ہے مگر افسوس یہ ہے کہ
مارکیٹ میں یہ ادویات بڑی مشکل سے اور بہت مہنگی ملتی ہیں۔اگر اس مرض کی
صحیح تشخیص کی جائے اور صحیح وقت پر مریض کو صحیح ادویات مل جائے تو یہ مرض
مکمل طور پر ختم بھی ہوسکتا ہے۔ علاج میں جتنی تاخیر ہوتی ہے اور مرگی کے
دورے جتنے بڑھتے جاتے ہیں ، علاج اتنا ہی لمبے عرصے پر محیط ہو جاتا
ہے۔علاج معالجہ ہر انسان کا بنیادی حق ہے اور یہ ہر شہری کی پہنچ میں ہونا
چاہئے جس کے لئے ضروری ہے کہ ادویات کی قیمتیں کم ترین سطح پر رکھی جائیں۔
حکومت کو ادویات پر سبسڈی دینا چاہئے۔ایک اورمسئلہ جس سے پاکستان میں مریض
اور معالجین دونوں ہی دوچار رہتے ہیں ادویات کی قلت کا مسئلہ ہے جسے لازمی
ختم کیا جانا چاہئے۔ میں بتا سکتی ہوں کہ میرے کتنے ہی مریض ادویات کی
قیمتوں کی وجہ سے بے حد پریشان ہیں کیونکہ جو ادویات وہ لے رہے تھے ، اچانک
سے ملنا بند ہو گئیں یا مارکیٹ میں ان کی قلت (shortage) ہوگئی یا پھروہ
بلیک مارکیٹنگ میں مل رہی ہیں۔ میری ایک مریضہ جو سال بھر سے بالکل ٹھیک
تھی ۔ دوائیاں کھانے کے باوجود اسے اچانک دورے پڑنے لگے ۔ جب میں نے اس کا
ٹیسٹ کرایا تو اس کے خون میں ادویات کے اثرات نہ ہونے کے برابر تھے جس سے
ثابت ہوا کہ جو ادویات بلیک میں بڑی مشکل سے چار پانچ گنا زیادہ قیمت پر
ملی بھی تو اصلی نہیں تھی۔ حکومت کوان مسائل کا فوری نوٹس لینا چاہئے۔ مرگی
کے مرض میں مبتلا یہ وہ لوگ ہیں جو معاشرے کے کارآمد افراد اور ملک و قوم
کا سرمایہ بن سکتے ہیں۔ دوسری اہم بات یہ کہ حکومت کو جواب دینا ہوگا کہ
ایک بالکل ٹھیک انسان جو کہ کام کررہا ہو اور اسے حکومت کی ناقص پالیسی کی
وجہ سے ادویات مارکیٹ میں دستیاب نہ ہونے یا قلت کی وجہ سے یکدم اس کو دورہ
پڑجاتا ہے اور اگر وہ سڑک پار کررہاہو اور کوئی گاڑی اس کے اوپر چڑھ جائے
یا کام کرتے ہوئے گرجائے اوراپنی جان کھو بیٹھے یا اس کا کوئی اعضاء ضائع
ہو جائے تو اس کا جواب کون دے گا اور اس کا ازالہ کیسے ہوگا۔
|