اپنے اندر جھانکنا منع نہیں مگر وقت اتنا تیزی سے گزرتا
ہے کہ فرصت نہیں ملتی ایک دائرہ سا بنا ہوا ہے جس کے اندر ہر شخص سفر کررہا
ہے اپنی مرضی اور اپنی خواہشات کے تابع اور اسے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا
کون اس کے اس سفر سے انگریزی والا سفر کررہا ہے. افسوس یہ ہے کہ وہ دائرے
پہ نظر تو رکھتا ہے مگر اپنے اندر نظر ڈالنے کے لئیے اسے ایک لمحہ نہیں
ملتا ایک ہوس و حرص کا سفر ہے ایک اپنے آپ کو بہتر کرنے کا سفر ایک کئیوں
سے بہتر ہونے کا سفر مگر لازمی سفر اپنے اندر جھانک کر اپنے آپ کو بہتر
کرنے کا سفر ہے جو صفر کے برابر ہے کیونکہ مادیت کے اس دور میں اندر
جھانکنے کا وقت نہیں ہوتا یا ہمت مفقود ہے یا پھر یہ سوچ لیا جاتا ہے چھڈو
دفع کرو اندر نوں، باہر دیکھو باہر رہو اور وہی کرو جو سب کررہے ہیں.....
جو سب کررہے ہیں وہی کرنا ہے اپنے اندر مت جھانکو دماغ کہتا ہے نہ دل بلکہ
پیٹ کہتا ہے بہت بڑا ہدایت کار ہے پیٹ اس کی ڈائریکشن کے تابع ہے ہے سب کچھ
جو بھی افعال ہم سرانجام دیتے ہیں اس ظالم کی ہدایت کے تحت ہی دیتے ہیں مگر
ایک منٹ یہ ہر وقت ہدایات نہیں دیتا نہ ہر وقت ظلم پر آمادہ ہے یہ اس وقت
اپنا کام شروع کرتا ہے جب دل اور دماغ مردہ ہوجائیں اور آپ اس بات کو تسلیم
کریں کہ دل و دماغ زندہ ہوتے ہیں مگر آہستہ آہستہ حالات و واقعات کے تحت
نیم مردگی اور پھر مردہ ہونے کی طرف ان کا سفر شروع ہوتا ہے، یہاں یہ بات
قابل زکر ہے کہ یہ دل دماغ پیٹ ہر ملک کے حساب و کتاب سے چلتے ہیں...
آپ کہیں گے دماغ دل پیٹ ملک کی حساب سے کیسے کام کرتے ہیں دوچار اس بات کو
سمجھیں گے مگر جن کو سمجھانا مقصود ہے وہ ان چکروں میں پڑیں گے نہیں کیونکہ
ان کہ پاس اتنا فالتو وقت نہیں کہ وہ سمجھنے والی باتوں کو پڑھنا پسند
کریں، یہ سمجھ لیں کہ وہ پیٹ کی سخت ہدایات کے تحت صرف اپنے آپ کو آگے لے
جانا چاہتے ہیں اپنی زات کی ترقی چاہتے ہیں آپنے گھربار کی بہتری چاہتے ہیں
اور انہیں بنیادی طور پہ اس سے کوئی دلچسپی نہیں کہ سمجھنا سمجھانا ضروری
ہے کیونکہ دل دماغ مردہ ہونے کے بعد وہ اس فیز کا حصہ بن چکے ہیں جہاں
مادیت پرستی اول ہے اور دل دماغ پرستی فضولیات ہے بہرحال ابھی ہم ملکوں تک
رہتے ہیں. خوشحال ملک میں پیدا ہونے والا بچہ ریاست کی زمہ داری ہوتا ہے اس
کی پیدائش کے ساتھ ہی ریاست اس کے حقوق کی وارث بن جاتی ہے اور یہاں تک کہ
ماں باپ بھی اس پر اپنی مرضی مسلط نہیں کرسکتے، اس کی تعلیم تربیت میڈیکل
مکمل طور پہ ریاست کی زمہ داری ہوتی ہے اور ریاست اس کی ماں باپ کے بعد
دوسری آغوش بن جاتی یے، وہ بڑا ہوتا جاتا ہے ریاست اس کو آسانیاں فراہم
کرتی جاتی ہے اسے بہت کم فکر معاش رہتی ہے کیونکہ اگر وہ کچھ نہ بھی کما
رہا ہو بلوغت کے بعد تو بھی اس کو کچھ نہ کچھ ریاست کی طرف سے مل جاتا ہے
اس لئیے اس کا دل دماغ سوچتے ہیں پیٹ کی ہدایات وہاں بھی ہیں مگر اتنی
زیادہ نہیں، تفصیل سے بات میں سمجھانا نہیں چاہتا کیونکہ میں جن سے مخاطب
ہوں انہیں سمجھ آرہی ہوگی کہ میں کیا کہنا چاہ رہا ہوں. واپس آتے ہیں اپنے
خطہ میں جہاں ہم پیدا ہوئے جہاں دل دماغ مردہ ہوجاتے ہیں اور پیٹ کی حاکمیت
کا دور شروع ہوتا ہے. یہ حاکمیت شروع کیسے ہوتی ہے دل دماغ مردہ کیسے ہوتے
ہیں آخر اس کا اس جستجو سے کیا تعلق ہے.... پھر سہی
|