ضرورت رشتہ سے شادی تک

مجھے آپکا نمبر میرج بیورو نے دیا ہے ہم اپنے بیٹے کے سلسلے میں آپ کے گھر آناچا ہتے ہیں دو سری جا نب سے جواب دیا جا تا ہے جی ضرور ! آپ تھوڑا اپنے بیٹے کی کوا لیفکشن وغیرہ کچھ اپنا تعارف کروادیں دوسری جا نب سے کہا جا تا ہے دو نوں طرف سے تبا دلہ خیال شروع ہوتا ہے سب تفصیلا ت فون پر بتا ئی جا تی ہیں پھر لڑکے والے آج ہی آنا چا ہتے ہیں لڑکی کی ماں تھوڑا گھبراتی ہیں اتنی جلدی ! تھوڑا ٹہریئے میں گھر والوں سے مشو رہ تو کر لوں دو سری طرف سے جواب ملتا ہے آپ کیوں پر یشا ن ہو تی ہیں ہم بس تھوڑی دیر کو آئیں گے آپ کو ئی اہتمام مت کیجئے گا لڑکی کی ما ں سو چ میں پڑ جا تی ہے اسے کئی طرح کی فکریں ہیں اگر وہ لو گ آئے اور ناپسند کر کے چلے گئے تو کیا ہو گا؟ سب سے پہلے بیٹی کی طرف دھیا ن جا تا ہے وہ کتنی آزردہ ہوگی سارا دن جو خاطر و مدارات کی تیا ری کی گھر کے افراد جس طرح ذہنی طور پر انوالو ہو ئے وہ کیا محسوس کر یں گے ؟سو چوں کا سلسلہ رک جا تا ہے کہ دو سری جا نب سے اصراربڑھتا ہے کس سو چ میں پڑ گئی آپ کیا ہوا ِ؟ جی کچھ نہیں ضرورآئیے آپ کا اپنا گھر ہے کہ کر فو ن بند کر دیا جا تا ہے یہ آج کی با ت نہیں تھی سب کچھ توکئی مہینوں سے چل رہا تھامختلف میر ج بیورو سے رابطہ تھا جہاں بیٹی کی تصویر کے سا تھ ایڈوا نس بھی دا کیا جا چکا تھا آئے دن کوئی نہ کوئی فون کا ل اور رشتے کے لئے آتے رہتے تھے دونو ں جا نب سے سب پر فیکٹ ہو تا لڑکی بھی پسند آجا تی اس کی اعلیٰ تعلیم گھر وا لوں کا رکھ رکھا ؤ سے کر تہذیب وآداب سب ایک مڈل کلا س گھرانے کے لحاظ سے مکمل ہو تا پھر ایسا کیا تھا کہ دیکھنے والے کو ئی جو اب دیئے بنا ء چلے جا تے انکا رکی کو ئی وجہ سمجھ نہیں آتی تو استخا رے کا بہانہ سب سے بہترین و جہ ہوتی ادھر سب گھر والے ایک دوسر ے کو ڈھا رس دیتے ہیں کو ئی با ت نہیں اس میں بھی خدا کی کو ئی بہتری ہو گی آخر لڑکی کے صبر کا پیما نہ لبریز ہوتا ہے وہ کہ دیتی ہے کہ مجھے روز روز رشتے والوں کے سا منے تما شہ نہیں بننا اگر زیا دہ پیچھے پڑے تو خودکشی کر لوں گی ماں با پ لا کھ سر پٹختے رہیں مگر لڑکی نہیں مانتی ۔

ہما رے معا شرے میں میرج بیورو ایک منا فع بخش کا روبار بن گیا ہے جس سے پورا فا ئدہ لڑکے والے اٹھا تے ہیں آئے دن اپنی فیملی کے ساتھ لڑکی کے گھر آوٹئنگ پر نکلتے ہیں بہت عزت کے ساتھ بہترین نا شتے چا ئے اور پھر مفت میں لڑکی کو دیکھنے کا تما شا الگ مل جا تا ہے قطع نظر کہ دو سروں پر کیا گزرے گی جی ہاں ! بے شما رلمحات میں یہ ایک پل بھی شا مل ہے جسے ہم سب بیٹی کے پیدا ئش پر ما تم کے سبب کو جا ن سکتے ہیں ہما رے ملک میں غریب اور مڈل کلاس طبقہ اپنی غر بت اورسفید پو شی کی سزا سا ری زندگی کا ٹتا ہے میرا موضوع میرج بیورو یا رشتے کرا نے والی خواتین کے با رے میں نہیں کہ ان کے حوالے سے اب ایک عام را ئے بن چکی ہے کہ کس طرح اپنی دکا نیں سجانے کی خاطر مکر وفریب کا لبا دہ اوڑھے چند رو پوں کے لالچ میں لڑکی کی پو ری زندگی برباد کرنے میں عارمحسوس نہیں کر تے لیکن اس کے ساتھ لڑ کے والوں کا رویہ بھی قا بل گر فت ہے جو لا لچ و خوب سے خوب تر کی تلا ش میں حد سے بڑھ جا تے ہیں بیٹی والے جب رشتہ طے پا نے اذیت کو عبور کر لیتے ہیں تو بقول منیر نیازی اکؔ اور دریا کا سامنا تھا منیر ، جب ایک دریا پا ر اترا

شادی طے ہونے کے بعد لڑکے والوں کی جانب سے ڈیما نڈ کی لمبی فہرست جسے یہ کہ کرجا ئزبنا یا جا تا ہے جو کچھ دیں گے اپنی بیٹی کو دیں گے امیروں کے لئے شادی دولت کی نما ئش کا ایک ذریعہ ہے مگر سفید پوش طبقہ اس میں پس جا تا ہے با رات ایک ایسا بو جھ ہے جو خوامخواہ لڑکی والوں پر لاد ا گیا ہے یہ بھی عجیب منطق ہے کہ نکاح میں چوہا رے لڑکے والے لا ئیں گے اور کھا نا لڑکی والوں کی طرف سے ہو گا جس میں درجنوں ڈشزز مہنگے ہا لوں کا خرچ سلا می میں اپنی حیثیت سے بڑھ کردینا لازم ہے ارے جو کھانا کھلا سکتا ہے کیا وہ چو ہا رے نہیں بانٹ سکتایہ تکلف بھی کیوں کیا جاتا ہے ضروری ہے کہ بحیثیت مسلم نکاح مسجد میں ہو نے کے بعد بیٹی کو سا دگی سے رخصت کر دیا جا ئے ہم سے بہتر تو غیر مسلم ہو ئے جنھوں نے اپنے پا دری اور چرچ کا تقدس بحال رکھا ہو اہے شا ہی خاندان سے لے کر عام آدمی تک سبھی نکاح کے لئے چرچ جا تے ہیں بے شک یہ ایک بدعت ہے حضور ﷺ کے دورمیں ایسی کو ئی مثال نہیں اس کی اصلا ح ضروری ہے۔

اسلام میں بارات لفظ کے کو ئی معنی عربی کی کسی ڈکشنری میں جہیز کاکوئی تصوراسلام میں نہیں یہ خالص ہندوانہ رسم ہے اس لیے کہ وہ جا ئیدا د میں بیٹی کو کوئی حصہ نہیں دیتے تو اس طرح دان دہیز ادا کر کے سبکدوش ہو جا تے ہیں لیکن اسلام بیٹوں کے ساتھ بیٹیوں کو بھی ما ں با پ کی ترکے میں حقدار ٹہرا تا ہے خود آپ ﷺنے اپنی کسی بیٹی کوکو ئی جہیز نہیں دیا بی بی فا طمہ ؓ کی شا دی کے وقت آپﷺ نے حضرت علیؓ سے پو چھاآپ کے پاس کچھ رقم ہے مہر ادا کر نے کے لئے تو انھوں نے فرما یا نہیں ہے آپﷺ نے فر مایا تمھا رے پا س ایک زرہ ہے اسے بیچ دو حضرت علی ؓ نے وہ زرہ حضرت عثما ن غنی ؓکو تیس درہم میں فر وخت کردی( جو بعد میں حضرت عثما ن ؓ نے تحفتا وا پس کر دی تھی )حضرت علیؓ نے کچھ رقم بی بی فا طمہؓ کے کپڑوں کے لئے اور مہر کے لئے ادا کئے گھر کے استعمال کے لئے ایک گدا دو تکئے جس میں کجھور کی چھال بھری ہو ئی تھی ایک چکی اور ایک پا نی کا مشکیزہ خریدا کو ئی با رات نہیں گئی مسجد میں نکاح ہوا شام کو چند خواتین نے نبی ﷺ کی لا ڈلی بیٹی کو رخصت کر نے حضرت علی ؓ کے دروا زے تک آئیں جب حضور ﷺ کی تما م بیٹیوں کی شادیاں سادگی سے ہوسکتی ہیں تو کون سی بیٹی ان سے معتبرہو سکتی ہے ۔

سعودی عرب میں نکاح لڑکی کے گھر کیا جا تا لیکن دعوت کو جو اہتمام ہو تا ہے اس کا سا را خر چہ لڑ کے والے ادا کرتے ہیں بس یہی ایک کھانا ہوتا ہے جسے ولیمۃالعرس کہا جا تا ہے کاش کہ ہم اپنے ملک میں اس رسم کو کسی بھی قسم کی دل آزاری کے بناء نا فذ کر سکیں آخر ایسا کیوں نہیں ہو سکتا ہر گھر میں لڑکی اور لڑکے دونوں مو جود ہو تے ہیں پھر ہم اپنی بیٹی کے لئے سوچتے ہیں ایسارشتہ مل جا ئے جہاں ہما ری بیٹی پہلی چا ئے پیش کرنے کی اذیت میں پا س ہو جا ئے اور جہیز کے بو جھ سے بھی بچ جا ئیں تو پھر بیٹے کے معاملے میں ایسافیصلہ کیوں نہیں کرتے وہاں توالٹا بڑھ چڑھ کر تقا ضے کئے جا تے ہیں کہ آخر ہم بھی تو بیٹی بیا ہنے میں اسی پل صراط سے گزرے ہیں ہم تو گن گن کر بدلے لیں گے آپ ایک با ر در گزر کر کے معا شرے میں سادگی کی بنیاد توڈالیں بالوں میں چا ندی کے تار لیے سینکڑوں بیٹیوں کے گھر بس جا ئیں گے ۔
 

Ainee Niazi
About the Author: Ainee Niazi Read More Articles by Ainee Niazi: 150 Articles with 161348 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.