|
برِاعظم جنوبی امریکہ کے شمالی خطے میں کسی کار کی جسامت کے برابر کچھوؤں
کی باقیات دریافت ہوئی ہیں۔
سٹوپینڈیمس جیوگرافیکس نامی کچھوے کے بارے میں خیال ہے کہ یہ اس خطے میں
ایک کروڑ 30 لاکھ سال سے لے کر 70 لاکھ سال قبل کے درمیان پایا جاتا ہوگا۔
ان فوسلز کی دریافت کولمبیا کے صحرا ٹاٹاکوا اور وینیزویلا کے اوروماکو خطے
میں ہوئی ہے۔
|
|
سٹوپینڈیمس کے فوسل سب سے پہلے 1970 کی دہائی میں دریافت ہوئے تھے مگر اس
چار میٹر طویل جانور کے بارے میں اب تک بہت سی باتیں پراسرار ہیں۔
یہ کسی ڈگی والی کار جیسی جسامت اور وزن رکھتا تھا اور جنوبی امریکہ کے
شمالی خطے میں دریائے ایمازون اور اورینوکو کے جنم سے قبل وسیع و عریض
دلدلی علاقوں میں رہتا تھا۔
نر کچھوے کے خول کے دونوں جانب سامنے کی طرف کو سینگ نکلے ہوئے تھے۔ فوسلز
میں پائے جانے والے گہرے زخموں کے نشانات سے اندازہ ہوتا ہے کہ ممکنہ طور
پر ان کا استعمال مخالفین سے لڑنے کے لیے نیزوں کی طرح کیا جاتا ہوگا۔
محققین کا کہنا ہے کہ انھیں ایک تین میٹر طویل خول اور نچلے جبڑے کی ایک
ہڈی ملی ہے جس سے انھیں اس کچھوے کی خوراک کے بارے میں مزید اشارے ملے ہیں۔
|
|
ان کا خیال ہے کہ یہ عظیم الجثہ کچھوا جھیلوں اور دریاؤں کی تہہ میں بڑے
مگرمچھوں کے ساتھ رہتا ہوگا جبکہ اس کی خوراک چھوٹے جانوروں، پودوں، پھلوں
اور بیجوں پر مشتمل ہوگی۔
سٹوپینڈیمس کی جسامت اسے دیگر بڑے شکاری جانوروں سے بچنے میں مدد دیتی ہوگی۔
اس کچھوے کا ایک ایسا فوسل بھی دریافت ہوچکا ہے جس میں ایک بڑے مگرمچھ کا
دانت پیوست تھا۔
|