ایک فون کال

محبت والوں کی ایک کال سرمایہ ہوتی ہے

بیمار معاشرہ

تَصّور سے بھی اسکے مُطمئِن ھُوں

آرزُو تھی مگر وہ رُو برُو رہتا میرے

پاکستان علماء کونسل ایک تناور درخت بن چکی ہے اور علماۓ حق ختم نبوت صلی اللہ علیہ والہ وسلم, امن, اتحاد, وحدت امت مسلمہ کے لیے کوشاں ہیں اللہ کریم انکی مدد اپنی رحمت خاص سے فرماۓ.
پاکستان علماء کونسل کی قیادت حضرت مولانا حافظ طاہر محمود اشرفی صاحب کے ہاتھ میں ہے اور انکی مثال مجھ طالب علم کی نظر میں گلاب کے اس درخت جیسی ہے جس سے منسلک ہر پھول اپنی خوشبو, اپنا مقام ؤ مرتبہ رکھتا ہے لیکن حضرت حافظ مولانا طاہر محمود اشرفی صاحب کے ان پھولوں میں چوٹی کا پھول جسکو قائد محترم کی رفاقت گزشتہ تیس سال ہے (بے شک پاکستان علماء کونسل میں بے شک انکی شمولیت چار سال پہلے ہوئی ہے)
میری حضرت مولانا اسد زکریا صاحب سے ہے.

(میں تھوڑی دیر کے لیے یہ بات یہاں روکتا ہوں!! )

دسمبر 2013 سے روز نامہ اسلام میں مہمان کالم لکھنا شروع کیا اور مختلف فورم سے ہوتا ہوا یہ سلسلہ **قلمدان ڈاٹ نیٹ ** کے فورم سے جاری ہے.
لکھنے والا احساس ہوتا ہے, اسکے دل میں میں ہوتا ہے کہ پڑھنے والے اسکی تحریر سے متفق ہوں یا نہ ہوں لیکن اسکے الفاظ کی بے قدری نہ کریں کیونکہ اختلاف راۓ کا ہونا ہمیشہ سے ہے اور رہے گا.
میں نے لکھنا شروع کیا تو میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا میرے دوست ہی میری تحریر سے اختلاف رکھتے تھے اور ابھی بھی رکھتے ہیں.
لیکن میں لکھتا رہا, وقت گزرتا رہا, تنقید, اعتراض, اختلاف, لالچ, اصلاح ,اعتماد, غرض سب کچھ اس میدان میں ملا.
لیکن ایک کمی رہی جو شاگرد میں ہوتی ہے کہ میرا استاد مجھے پیار ,خلوص ,محبت کے ساتھ تھپکی دے.
میں بھی ٹیچر ہوں اپنے شاگردوں کو پڑھاتے ہوۓ دیکھتا ہوں کہ کونسا شاگرد توجہ کی امید لیے میری طرف دیکھ رہا ہے اگر ایسا کبھی ہو تو پھر میں اسکو پاس بلاتا ہوں ,مسئلہ پوچھتا ہوں, تھپکی دیتا ہوں, حوصلہ دیتا ہوں تو یقین کریں اگلی صبع وہ کلاس میں بہترین ورک کر کے مسکرا رہا ہوتا ہے.
مگر یہ امید اس کمی کے ساتھ میرے لکھنے کے سفر میں ساتھ ساتھ رہی,
دسمبر 2013 سے بڑے لکھنے والوں, بڑے اداروں, بڑے اہل ؤ علم کے ساتھ واسطہ ؤ رابطہ رہا ,لکھنے کی قمیت ملتی رہی لیکن افسوس سے کہتا ہوں کہ مجھے اس سمندر میں لفظی, اخلاقی, اعتماد کی ضرورت ہی رہی.
روزنامہ اسلام لاہور سے مولانا عبدالوادو ربانی صاحب کی شفقت چار سال رہی لیکن وہ بات کرتے ہوۓ غصہ اور احسان والا معاملہ رکھتے تھے مگر میں خوش ہوں ان سے اور انکی صحت ؤ کامیابی کے لیے دعا گو بھی ہوں,

(اب میں واپس اپنے موضوع کی طرف آتا ہوں!!)
(اب میں آتا ہوں اس ایک فون کال کی طرف جو میرا موضوع ہے)
گزشتہ ہفتہ میں پاکستان علماء کونسل کے چیرمین محترم حضرت مولانا طاہر محمود اشرفی صاحب سے ملاقات اور انکی شفقت ؤ محبت نے ایک تحریر
( ایک پل کی شفقت) لکھی!!
یہ تحریر پڑھنے والوں میں ایک صاحب علم ؤ عمل جناب محترم حضرت مولانا اسد زکریا صاحب بھی تھے,
نماز مغرب کے بعد مجھے ایک کال وصول ہوتی ہے, سلام ؤ دعا کے انکا تعارف سنتا ہوں, انکا مقام ؤ مرتبہ سمجھنے کی کوشش کرتا ہوں, بات سن کر درست الفاظ تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہوں لیکن میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ مجھ سے انکے مرتبے کے اعتبار سے گفتگو نہیں ہو پائی.
اپنا مقام , حیثیت ,مرتبہ دیکھتا ہوں تو ان سے گفتگو ختم ہونے کے بعد صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ میرا حال کلاس کے اس طالب علم جیسا تھا جو سالوں سے اپنی نااہلی, کم عقلی چھپانے کے لیے کلاس کے آخری ڈیسک پر ہمیشہ اس انتظار میں رہتا ہے کہ
کب اسکا شفیق استاد پاس بلا کر کہتا ہے
بیٹا شاباش,
اس ایک لفظ کی بدولت سارا سال کلاس میں آخری ڈیسک پر بیھٹنے والے طالب کو ناصرف کلاس کی پہلی نشست پر لے آتا ہے بلکہ اسکا تاریک مستقبل روشن مستقبل کی مثال بن جاتا ہے.
میں لکھنے والا ہوں, قلم قبیلے سے میرا تعلق ہے حضرت مولانا اسد زکریا صاحب کا شکریہ ادا کرتا ہوں کیونکہ انکی وہ ایک فون کال میرے اب تک لکھنے کی قیمت ہے جو انکی آواز میں مجھے وصول ہوئی.
پاکستان علماء کونسل کی پہچان ,اسکا مقصد اور قائد محترم علامہ طاہر محمود اشرفی صاحب کا ویژن ان جیسے علماۓ حق ہی اپنی خوشبو سے واضح کرتے ہیں.
اللہ کریم پاکستان علماء کونسل کے زیر سایہ حضرت مولانا اسد زکریا صاحب کی علم ؤ زندگی میں برکت عطا فرمائیں.
 

Babar Alyas
About the Author: Babar Alyas Read More Articles by Babar Alyas : 875 Articles with 458378 views استاد ہونے کے ناطے میرا مشن ہے کہ دائرہ اسلام کی حدود میں رہتے ہوۓ لکھو اور مقصد اپنی اصلاح ہو,
ایم اے مطالعہ پاکستان کرنے بعد کے درس نظامی کا کورس
.. View More