جھوٹوں کے بازار میں، جاؤں تو جاؤں کہاں

 یوں تو ’’ اونٹ رے اونٹ تیری کو نسی کل سیدھی ‘‘ کی کہاوت ہمارے معاشرے کی عکاس ہے، بے شمار خرابیاں ہمارے ہاں گھس آئی ہیں،کالم ہذا کی تنگ دامنی ان تمام خرابیوں کا ذکر کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا ،مگر ایک ایسی خرابی ،جو تمام خرابیوں کی جڑ ہے اور جس سے ذاتی طور پر مجھے بہت دکھ ہوتا ہے ،وہ ہے جھوٹ۔ افسوس اس بات کا ہے کہ اب احساسِ زیاں بھی نہیں رہا یعنی جھوٹ بولنے کو اب کوئی برائی بھی نہیں سمجھتا ۔جھوٹ بظاہر تو ایک چھوٹا سا لفظ ہے مگر معنوی اعتبار سے ’’جھوٹ ‘‘ کے اس لفظ کو دنیا کے کسی مذہب یا معاشرے میں مستحسن نہیں سمجھا جاتا۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ غیر مسلم معاشرے میں جھوٹ بولنے والوں کو انتہائی مطعون قرار دیا جاتا ہے ۔کتنی بد قسمتی کی بات ہے کہ جو ہمیں اختیار کرنا چاہیئے وہ یورپ کر رہا ہے حالانکہ ہمارے پیارے نبیﷺ کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا۔پوچھا ‘‘ ائے سرکارِ دو عالم ﷺ ! میں ایک بہت گنہگار شخص ہوں، میرے لئے یہ ممکن نہیں کہ اپنے اپ میں موجود ساری برائیاں چھوڑ دوں، مجھے کوئی ایک ایسی بات بتا دیجئے کہ سارے گناہ چھوڑ دوں ‘‘ آپ ﷺ نے فرمایا ’’ تم جھوٹ بولنا چھوڑ دو ‘‘

اس شخص نے حضور ﷺ کے بات پر عمل کیا تو شرمندگی کی خوف سے ساری برائیاں چھوڑ دیں۔گویا ایک جھوٹ کی عادت چھوڑنے سے انسان بہت ساری برایؤں سے اجتناب برتتا ہے۔

راقم الحروف خیبر پختونخوا کے دل ’پشاور ‘ میں شب و روز بسر کر رہا ہے مگر جہاں بھی جاتا ہے، جھوٹوں سے واسطہ پڑتا ہے (اس کا یہ مطلب نہیں کہ صرف پشاور میں جھوٹ بولا جاتا ہے ، پورے پاکستان کا یہی حال ہے )۔ عدالتیں جہاں لوگ انصاف مانگنے آتے ہیں، جھوٹوں کی سب سے بڑی آماجگاہ ہے ،یہاں lawyerکم Lier بے شمار ملتے ہیں ۔عوام ہوں یا وکلاء، سب کو یقین واثق ہے کہ جھوٹ بولوگے تو کامیابی نصیب ہو گی ،گویا ہمارے عدالتوں میں ’جھوٹ ‘ کامیابی کی کنجی سمجھی جاتی ہے۔حالانکہ ایسا سمجھنا محض ایک غلط فہمی ہے، تھانوں میں 80فی صد ایف آئی آر میں جھوٹ کا عنصر ضرور شامل کیا جاتا ہے ۔جب معاملہ عدالت کے سامنے لایا جاتا ہے تو ایف ائی ار میں کچھ حصہ جھوٹ شامل ہونے کی وجہ سے ملزمان کو شک کا فائدہ دے کر برّی کر دیا جاتا ہے۔ جھوٹ صرف عدالتوں میں نہیں، گھروں،دفتروں، رشتہ داروں اور دوستوں کے درمیان کے درمیان بھی بولا جاتا ہے۔گزشتہ روز کی بات ہے کہ میں نے بڑے بڑے عہدوں سے ریٹائرڈ افراد سے جھوٹ بولتے سنا ، بقولِ شاعر ، ’’ جھوٹ والے کہیں سے کہیں بڑھ گئے۔۔۔اور میں تھا کہ سچ بولتا رہ گیا ‘‘

ضروریاتِ زندگی خریدنے کے لئے بازار جانا پڑتا ہے، یہاں بھی جھوٹ کا بازار گرم رہتا ہے ،دکاندار حضرات اپنی اشیاء کو مہنگے داموں فروخت کرنے کے لئے اپنے ایمان کو بیچنے سے گریز نہیں کرتے ۔حالانکہ وقتی طور پر شاید فائدہ حاصل ہو جائے مگر صرف آخرت ہی میں نہیں بلکہ اس دنیا میں بھی انہیں سکون کی دولت میّسر نہیں آسکتی۔

پاکستان ترقی نہیں کر رہا، اربوں ڈالر قرضہ لینے کے باوجود ہماری حالت نہایت دگر گوں ہیں ، جس کی ایک بڑی وجہ ’’جھوٹ ‘‘ ہے

جس معاشرے میں جھوٹ اتنی کثرت سے بولا جاتا ہو ،جس معاشرے کی بنیاد جھوٹ پر مبنی ہو، جہاں چھوٹے بڑے جھوٹ بولنے کو برائی ہی نہیں سمجھتے ،وہاں ترقی کیسی ہو سکتی ہے ،ایسے معاشرے سے خیر و برکت اٹھ جاتی ہے ،بے چینی اور اضطراب بڑھ جاتا ہے۔ اب تو یہ حال ہے کہ قدم قدم پر جھوٹوں سے واسطہ پڑتا ہے ۔جھوٹوں کے بازار میں سچ کی خوشبو بھی نایاب ہے ، سمجھ نہیں آتی کہ جائیں تو جائیں کہاں ‘‘ ہم نے جھوٹ کو زندگی کا ’جزو لا ینفک ‘ بنا لیا ہے اپنی چھوٹی سی کسی غرض یا مفاد کے لئے جھوٹ پہ جھوٹ بولنا ہمارا وطیرہ بن گیا ہے جو صرف قابلِ افسوس ہی نہیں، قابلِ شرم بھی ہے ۔ہماری پستی کا علام یہ ہے کہ ہم جھوٹ جیسی گھٹیا خصلت کو کمال سمجھتے ہیں لوگ اپنے احباب کو فخریہ بتاتے ہیں کہ ہم نے فلاں کو الّو بنایا ہے ،لوگ جھوٹ بولنے کے ہنر کو اپنی ہوشیاری سمجھنے لگے ہیں جبکہ حقیقت تو یہ ہے کہ جھوٹے لوگ گھٹیا ترین اور پست ترین لوگ ہوتے ہیں ،اوپر سے بے وقوف اتنے ہو تے ہیں کہ اپنی اس پستی کو اپنا کمال سمجھتے ہیں۔کاش ! میرے ہم وطن اس بات کو سمجھیں کہ جھوٹ ایک ایسی بیماری ہے کہ جس کسی کو یہ لاحق ہو جائے تو یہ پھر انڈے بچے دینا شروع کر دیتی ہے ،اﷲ تعالیٰ سب کو اس موذی مرض سے بچائے رکھے ۔
’’ حیران ہوں دل کو روؤں کہ پیٹوں جِگر کو میں ۔۔مقدور ہو تو ساتھ رکھوں نوحہ گر کو میں ‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الراقم : روشن خٹک۔۔۔

roshan khattak
About the Author: roshan khattak Read More Articles by roshan khattak: 300 Articles with 284810 views I was born in distt Karak KPk village Deli Mela on 05 Apr 1949.Passed Matric from GHS Sabirabad Karak.then passed M A (Urdu) and B.Ed from University.. View More