میں نے دوا کھانی تھی ۔ کھانا سامنے آگیا ۔ میں نے دوا
منگوائی اور سامنے رکھ کر بھول گیا کہ کھائ ہے یا نہیں کھائ ، جو میں نے
کام کرنے والی سے منگوائی تھی ۔ میں نے اس سے پوچھا کہ میں نے کھائ ہے تو
اس نے اعتماد سے کہا کہ آپ نے کھائ ہے ۔ میرے سامنے کھائ ہے ۔ مجھے تسلی
نہیں ہوئ ۔ اس نے کہا جب میں لائ تھی تو اس میں پانچ تھیں ، اب چار ہیں ۔
اب مجھے اپنے سے زیادہ اس پر اعتماد ہو گیا ۔
کسی دن دوسری دفع ایسا ہوا تو میں نے اسی سے پوچھ لیا کہ کتنی تھیں پتے میں
، جیسے میری دوا کی گنتی کے علاؤہ اسے اور نا کوئ کام ہے نا دھیان ہے ۔
اس نے جواب دیا
جی آج تو نہیں دیکھا میں نے ۔
پھر اس نے کہا
چلیں یہ تو ایک خدا کی آس پر کھا لیں ، آئیندہ میں یاد رکھوں گی ۔
میں نے سوچا کہ خدا کی آس پر کھانے کے بجاے خدا کی آس پر ایک گولی چھوڑی
بھی تو جا سکتی ہے۔ اصل بات تو خدا کی آس ہے جو ہر وقت انسان کے پاس ہے۔
لیکن اعتماد اسی کو کہتے ہیں جو بچہ ماں پر کرتا ہے ، جس میں معصومیت ہوتی
ہے ، چالاکی نہیں ہوتی ۔ ہم خدا پر اعتماد میں اپنی عقل کو ڈال کر ہی اپنا
کام خراب کرتے ہیں ۔
بہت دن سے ایک غم سا تھا کسی اپنے سے بچھڑنے کا ، تو میں نے سوچا کہ اس کی
واپسی کی آس، خدا کو پاس کرنے کا سبب بھی بن سکتی ہے اور میں پاس ہو گیا ۔
میری یاس کو آس میں بدل دیا گیا ۔ وہیں بیٹھے بیٹھے خدا کی یاد نے اداسی کو
خوشی میں بدل دیا ۔
ایک لیکچر موبائل فون پر چل رہا تھا کہ غم خدا سے آشنا کر دیتا ہے ۔
غم آنکھ نم کرتا ہے اور اس کیفیت میں ،
خدا سے مانگنا ڈپریشن کم کرتا ہے ۔
شکر انسان بہت کم کرتا ہے ۔
کاش ہم شکر کرنے والے بن جائیں۔
|