آپ رضی اﷲ تعالیٰ کی کنیت ابوبکر ابی صحافہ اتیمی اور نام
عبداﷲ بن عامر القریشی تھا.آپ نکھری ہوئی گندمی رنگت، موزوں قدو قامت، نحیف
بدن، پرسوز آواز کے مالک ایک وجیہ شخص تھے۔ گھنگریالے بال، پسینہ سے معطر
بلند جبین، نشیب میں بیٹھی ہوئی آنکھیں، رخساروں پر نظر آنے والی ہڈیاں،
خمیدہ کمر جس سے تہبند یا شلوار خود بخود پھسل جایا کرتی ہے آپ پہلے خلیفہ
راشد ہیں. آپ مردوں میں سب سے پہلے مومن ہیں. مسلمانوں کے امام اور ایل
ارتداد کے لئے برہنہ تلوار تھے. عام الفیل کے ڈھائی سال بعد آپ کی ولادت
ہوئی.چھٹی پشت میں سلسلہ نسب حضور ﷺ سے جا ملتا ہے۔
آپ حسن معاشرت کے حامل اور وعدے کے سچے تھے.آپ نے اسلام سے قبل ہی شراپ
نوشی ترک کر دی ضرورت مندوں کو کھانا کھلاتے اور کمزورں کی دل آزاری کرتے.
آپ انساب عرب کے ماہر تھے.عرب کے تمام قبیلوں اور شاخوں سے واقف تھے. سید
السادات تھے مشرکین مکہ کی اذیتیں جب حد سے بڑھ گئیں تو مکہ چھوڑ کر ہجرت
کر کے مدینہ آ گئے. ایک مرتبہ قریش نے حضور صلی ﷲ علیہ وسلم کو بے حد زدو
کوب کیا جس سے حضور بے ہوش ہوگئے۔ سیدنا ابوبکر کو معلوم ہوا تو فوراً بچاؤ
کے لیروانہ ہوئے۔ ظالموں نے آپ کی درگت بنادی اتنا مارا کہ سر پر جب بھی
ہاتھ لگاتے خون کے ساتھ بال ضرور ہوتے۔ بالوں کی پوری ایک چوٹی قربان گاہ
کی نذر ہوگئی۔ یہ بھی آپ کی انفرادی سعادت ہے کہ حضورﷺ کی حمایت میں سب سے
پہلے لڑنا نصیب ہوا۔
ہجرت مدینہ کے سفر میں آپ حضور ﷺکے ہمسفر تھے۔ یہ انتخاب جبرائیل امین کے
مشورے سے ہوا تھا۔ ہجرت کی مشقتوں اور غار ثور کی تنہائیوں کے ساتھی آپ ہی
ہیں۔ مسجد نبوی کی زمین کی قیمت حضور ﷺ نے آپ کے مال سے ادا کی جودس دینار
تھی۔
واقعہ معراج میں بھی آپ کی تصدیق کی اور آپ کا خوب دفاع بھی کیاجس کی وجہ
سے آپ ﷺ نے آپ کو ''صدیق '' کے لقب سے نوازا آپ نے اپنی صاحبزادی حضرت
عائشہ رضی اﷲ کا نکاح آپﷺ سے کیاآپ غار ثور میں '' ثانی اثنین ''تھے آپ نے
نیکی کی کوئی راہ نہیں چھوڑی. آپ اتنے نرم طبعیت والے تھے کہ جلد آنسو نکل
آتے تھے آپ روشن چہرے والے تھے.آپ نے آپ کو جہنم سے آزادی اور نیک لوگوں کے
ہمراہ جنت میں داخل ہونے کی بشارت سنائی. خلیفہ بننے کے بعد دن مسلمانوں کی
خدمت اور رات عبادت میں گزار دیتے.آپ رضی اﷲ عنہ احادیث کا ایک مجموعہ تیار
کیا جسے بعد میں خاص حکمت و مصلحت کی بناء پر ضائع کردیا تحقیق حدیث کے لیے
اصول شہادت کی بنیاد رکھی۔ قرآن کو متفرق جگہوں سے ایک صحیفہ میں جمع کیا
اور اس کا نام مصحف رکھا۔ آپ رضی اﷲ عنہ سے 182 احادیث مروی ہیں۔ فقہ میں
اجتہاد کے قاعدہ کے موسس آپ ہی کی ذات گرامی ہے۔ فقہ کے مشکل مسائل: مثلاً،
میراث جد، میراث جدہ، تفسیر کلالہ، شراب پینے کی سزا، ان سب مسئلوں کو حل
کیا۔ (بخاری: 1/ 512)
لشکر کشی کے 10اصول مقرر فرمائے۔ آپ حافظ قرآن، مفسر قرآن تھے۔ تعبیر
الرویاء اور انساب میں یدطولیٰ رکھتے تھے۔ کہا گیا ہے کہ انساب کا جتنا علم
اس وقت امت کے پاس محفوظ ہے وہ سب آپ رضی اﷲ عنہ ہی کے واسطے سے امت کو ملا
ہے۔ پہلے قرآن، پھر حدیث رسول پھر منتخب اور اہل الرائے اصحاب رسول اور خود
اپنے اجتہاد سے فیصلہ فرماتے تھے۔
خلیفہ بننے کے بعد چونکہ تجارت کے لئے وقت نہ نکال سکتے تھے اس لیے بیت
المال سے اپنے لیے اتنی معمولی رقم لیتے تھے کہ بمشکل گزارا ہوتا تھا آپ
عظیم المرتبت اور رفیق القلب تھے دنیا میں بھی حضور ﷺ کے رفیق تھے اور قبر
میں بھی آپ ﷺ کے مصاحب بنے.نیز حوض کوثر پر بھی آپﷺ کے جلیں اور پیشی کے دن
آپﷺ کے رفیق ہوں گے۲۲ جمادی الثانی 13 ہجری کو مدینہ منورہ میں وفات پائی
اور خیر البشر خاتم الانبیاء و الرسل کے جوار مبارک میں مدفون ہوئے.
|