سوشل میڈیا پر ہر سطح ، ہر نظرئیے ، علمی اعتبار سے مختلف
سوجھ بوجھ رکھنے والے لوگ موجود ہیں جو ہر طرح کے موضوعات پر بحث مباحثہ کے
ماحول کو زینت بخشتے رہتے ہیں۔عام طور پردیکھا گیا ہے کہ دو طرح کے موضوعات
پر لوگ اپنی بھرپور دلچسپی کا اظہار کرتے ہیں۔ حالاتِ حاضرہ (کرنٹ افیئرز)
اور اسلامی موضوعات۔ جہاں تک حالات حاضرہ کی بات ہے تو اس میں لوگوں کی
کثیر تعداد دلچسپی رکھتی ہے اور گاہے بگاہے اس حوالے سے پوسٹیں اور اپنی
رائے کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ اور دوسرا سب سے بڑا موضوع ہے اسلام، اسلامی
پوسٹوں کو ہم دو حصوں میں تقسیم کرسکتے ہیں ایک وہ اسلامی پوسٹیں جوقرآنی
آیتیں، احادیث رسول اور اخلاقیات وغیرہ پر مبنی ہوتی ہیں جس پر سب کھل کر
پوسٹیں شیئر کرتے ہیں (چاہے عمل کریں یا نہ کریں) اپنے رائے کا اظہار کرتے
ہیں جو کہ اچھی بات ہے۔
سوشل میڈیا پر ایک بہت بڑا طبقہ اسلامی متنازعہ موضوعات پر پوسٹیں شیئر
کرتا ہے اپنی رائے کا اظہار کرتا ہے۔اسلامی متنازعہ مسائل پر بدقسمتی سے کم
علم کثیر تعداد میں حصہ لیتے ہیں او ربھرپور رائے اور جذبات کا اظہار کرتے
ہیں اس بات سے قطع نظر کہ ان کی رائے اور جذبات صحیح ہیں یا غلط بس وہ
مسلکی چشمہ لگا کر دھڑا دھڑا سب کو برا بھلا کہنا اخلاق سے گری ہوئی باتیں
کرنا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ ان موضوعات پر بات کرنے کا سب حق رکھتے ہیں لیکن
ضروری ہے کہ بات علم کی بنیاد پر ہو۔ مفہوم حدیث ہے ’ صرف علم رکھنے والے
ہی بات کریں‘ ایسے لوگوں سے گزارش ہے کہ یقینا اپنا حصہ ڈالیے لیکن مکمل
تحقیق، حوالوں اور بہترین لفظوں کے انتخاب کے ساتھ جس سے دوسرے کے ساتھ
ساتھ آپ کے اپنے علم میں بھی اضافہ ہوسکے۔
ساڑھے چودہ سو سال سے ہم اسی طریقہ کار پر گامزن ہیں کہ متنازعہ بات فساد
کا سبب بن سکتی ہے اس
وجہ سے ان پر بات ہی نہ کی جائے لیکن وہ لوگ جو تحقیقی ذہن کے مالک ہیں یا
جو حقیقی طور پر متنازعہ مسائل کو جاننا چاہتے ہیں وہ فساد کے خوف سے ان
مسائل پر بات نہیں کرپاتے اور دورِ حاضر کی نوجوان نسل جس کے ذہن میں
سوالات بہت آتے ہیں اور وہ جوابات کی جستجو بھی رکھتے ہیں سوشل میڈیا انہیں
بھرپور موقع فراہم کرتا ہے تاکہ وہ لوگ اپنی علم کی پیاس بجھا سکیں۔میں
سمجھتا ہوں یہ بات کسی حد تک صحیح ہے کہ متنازعہ موضوعات پر بات کرنا فساد
کا سبب بن سکتا ہے لیکن اگر بات علم رکھنے والے کریں حوالوں کے ساتھ کی
جائے اور خالصتاً علمی ماحول میں کی جائے تو ا س کا نتیجہ فساد سے برعکس
یعنی امن ہوگا اور علم و شعور و معرفت میں اضافہ کا سبب بھی بنے گا۔ جس کی
ایک زندہ مثال ہمارے سامنے انجینئر محمدعلی مرزا کی شکل میں موجود ہے جن کی
نوے فیصد ویڈیوز ہی متنازعہ ایشوز پر ہیں لیکن ان ویڈیوز کی بنیاد علم پر
ہے اور وہ تمام تر حوالوں کے ساتھ ہیں ، میں ان کی کئی تشریحات سے اتفاق
نہیں کرتا لیکن پھر بھی ان سے متاثر ہوں اور میری طرح ہر مسلک کا شخص (جو
طالب علم ہے او رتحقیقی ذہن رکھتا ہے) ان سے متاثر ہے کیوں کہ وہ علمی
ماحول میں اختلافی بحث کرتے ہیں ۔بدقسمتی سے سوشل میڈیا پر صحت مند گفتگو
دو تین فیصد سے زیادہ نہیں ہو رہی ضروری ہے کہ اپنے مطالعہ کو بڑھایا جائے
اور پھر ان موضوعات پر بات کی جائے۔ |