قومی اداروں کی اصلاح اور ہمارا کردار

آزاد جموں کشمیر کا چار ہزار مربعہ میل کا چھوٹا ساخطہ انتظامی طور پر دس اضلاح میں تقسیم ہے جہاں کثر اعلی سرکاری افسران کو لوگ ذاتی طور پر جانتے ہیں۔ اس وقت عدلیہ، انتظامیہ، پولیس، محکمہ صحت اور تعلیم کے شعبوں کے کئی ذمہ داران کو میں بھی جانتا ہوں جنکی صلاحیت کسی شک و شبہ سے بالا تر ہے ۔ یہ افسران جب اپنی سیٹ پر ہوتے ہیں تو اچھے فیصلے بھی کرتے ہیں لیکن نظام پھر بھی ٹھیک نہیں ہوتا اور نہ ہی مثبت فیصلوں کا تسلسل قائم رہتا ہے کیونکہ کرسی تو ایک ہی ہوتی ہے لیکن اس پربیٹھنے والے ایک جیسے نہیں ہوتے ۔ اختیارت کا استعمال قانون کے بجائے فردکے تابع ہو جاتا ہے ۔آخر اسکی وجہ کیا ہے؟ ترقی یافتہ ممالک نے یو ہی ترقہ نہیں کی بلکہ اس کی بڑی وجہ تحقیق و تخلیق اور ارتقائی عمل تھا۔ وہاں مثبت فیصلوں کو مثال بنا کر پیش کیا گیا اور باصلاحیت اور دیانتدار ذمہ داروں کو رول ماڈکے طور پر متعارف کروا کر جانشینوں کومثالی کردار کے مالک پیشرؤں کی تقلید کی ترغیب دی گئی۔ اب سوال ہے کہ ہمارے معاشرے میں اگر ایسا نہیں تو اس کی وجہ کیا ہے؟ کون ذمہ دار ہے؟ کیا ہم اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ جن سرکاری ملازمین پر ہم تنقید کرتے ہیں وہ بھی ہماری طرح ہمارے گھروں اور درسگاؤں کی پیداوار ہیں اور ہم انہیں اپنے آپ سے مختلف کیوں دیکھتے ہیں۔ رائے اور اختلاف رائے ہر کسی کا حق ہے لیکن میرے خیال کے مطابق ہمارے معاشرے میں بہتری کے بجائے ابتری کی بڑی وجہ ہماری اجتماعی زہنی صحت کا فقدان ہے ۔ اچھی زہنی صحت کی سب سے بڑی نشانی اچھی مثبت اور منصفانہ سوچ ہے جبکہ ہمارے ہاں مجموعی طور پر ایک عام انسان سے لے کر حکمرانوں تک لوٹ مار کے چکر میں رہتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اداروں کے اندر غیر معمولی صلاحیت کے مالک افراد اپنے غیر معمولی فیصلوں کے زریعے مثبت تبدیلیاں لاتے ہوئے اداروں پر حاوی اور کمزور افرادپر ادارے اپنا منفی رنگ چڑھا دیتے ہیں لیکن جب تک اجتماعیت اور انسانیت کا جذبہ پیدا نہ ہو اور سول سوسائٹی اپنا کردار ادا نہ کرے تب تک چند دیانتدار افراد کے انفرادی فیصلے کسی کو وقتی فائدہ تو پونچا سکتے ہیں لیکن کسی قوم کو قوموں کی صف میں با وقار مقام نہیں دلا سکتے۔ اب آئیے چند ایک قوموں کی مثالوں کی طرف۔

تیونس ایک چھوٹا سا اسلامی ملک ہے۔ فرانس سے آزادی کے بعد یہ طویل عرصہ مطلق العنانی کا شکار رہا لیکن اب عوام نے سیاسی پارٹیوں کو مسترد کر کے ایک پروفیسر کو آزاد امیدوار کے طور پر اپنا صدر چن لیا۔ ہمارے ملک کی طرح تیونس کے سیاستدان بھی قومی اداروں کی تبائی اور کرپشن کی سب سے بڑی وجہ تھے جس کے خلاف تیونس کی سول سوسائٹی اور تعلیمی اداروں نے اہم کردار ادا کیا۔ ۲۱ جون ۲۰۱۷ کو تیونس میں مطالعاتی مرکز برائے اسلامی جمہوریت نے ایک سیمینار منعقد کیا جسکا عنوان تھا کرپشن کے خلاف اسلامی اپروچ۔ مقررین میں فلسفہ کے پروفیسر بن عیسی دمنی، ادارہ اصول الدین کے ڈائریکٹر منیر رئیس اور جدید تہذیب و تمدن کے پروفیسر جمیل الدین تھے۔ پروفیسر بن عیسی نے حدیث کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کرپشن سے پاک نظام کے حصول کے لیے بنیادی کردار لیڈر کا ہے جس کی عام لوگ پیروی کرتے ہیں۔ دوسرا بلا تفریق و تخصیص قانون کی عملداری ہے۔ تیسرا شفافیت اور چوتھا ایسا تعلیمی و تربیتی نظام جس میں نوجوان نسل کو ایمان داری اور دیانتداری کا درس دیا جائے۔ پروفیسر منیر رئیس نے کہا کہ کرپشن کی کئی شکلیں ہیں جس میں انفرادی بھی اور اجتماعی بھی ہیں۔ اس کے خاتمے کے لیے اسلامی قوانین کو سمجھنے، سمجھانے اور نافذ کرنے کی ضرورت ہے جبکہ پروفیسر جمیل الدین نے تجویز دی کہ لوگوں کے اجتماعی مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے احتسابی نظام کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سمینار کا لب و لباب یہ تھا کہ کرپشن تب جنم لیتی ہے جب دین دنیا اور انسانیت کے درمیان تعلق میں عدم توازن پیدا ہ ہوتا ہے۔

ملیشیا کے اصلاح کاروں کے مطابق کرپشن کے خاتمے کے لیے حکمرانوں کا دیانتدار ہونا اور حکومتی نظام کا اوپن ، صاف و شفاف اور منصفانہ ہونا ضروری ہے۔ جہاں انصاف نہیں ہو گا وہاں کرپشن ہو گی اگر خوشحالی کے باوجود کرپشن کی جاتی ہے تو پھر سزا بھی عبرت ناک ہونی چائیے کیونکہ جزا سزا کا عمل جہاں کمزور ہو گا وہاں قانون کا احترام بھی نہیں ہو گا۔ ترکی اور ایران نے جہاں اوپر سے نیچے نظام کی اصلاح پر زور دیا وہاں تعلیمی اور خاندانی بنیادوں کو بھی بہتر بنانا ضروری تصور کیا ہے کیونکہ انسانی رویے گھر اور سکول کے ماحول سے جنم لیتے ہیں۔ وسیع دنیا میں جا کر کچھ مخصوص افراد مخصوص حالات و تجربات کی بنا پر اپنی باطنی قوتوں سے شاید استفادہ کر لیں لیکن اکثر لوگ عملی زندگی میں وہی رویے مضبوط کریں گے جنہیں گھر اور سکول کے ماحول نے جنم دیا۔

مضربی نکتہ نگاہ سے کرپشن کا مطلب صرف رشوت نہیں بلکہ وسائل کا ایسا غلط استعمال ہے جس سے غربت میں اضافہ ہوتا ہو۔ اس طرح کی کرپشن کے خاتمے کے لیے سول سوسائٹی کا اہم کردار بنتا ہے جہاں حکومتی اور غیر حکومتی اداروں کو مل جل کر کام کرنا چائیے۔

ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ اس میں رواجی مسلمان تو بہت پیدا ہوتے ہیں لیکن ایسے مومن بہت کم جنکو یہ خیال ہو کہ ایک دن انہوں نے اپنے اعمال کا حساب دینا ہے۔ ہم حقوق العباد کی کوئی پرواہ نہیں کرتے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہم حج اور عمرہ کر کے سارے گناہ معاف کروا لیں گے لیکن اگر کسی انسان کی حق تلفی ہوتی ہے تو معافی تب ہی ہو گی جب وہ انسان معاف کرے گا۔ اس وقت ہمارے معاشرے میں زیادتی ایک قدر بن گئی ہے ۔ ایک ہی خاندان کے اراکین ایک دوسرے سے محفوظ نہیں۔سب سے بڑے مجرم وہ حکمران ہیں جو اپنے اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہیں۔ بر صغیر میں باالعموم اور ہمارے خطے میں باالخصوص ریاستی اداروں کو سرکاری ملازمین سے زیادہ حکمرانوں کے ایجنٹ تو درکنار وزیروں کے وہ بیٹے اور بیٹیاں چلاتے ہیں جو ابھی زیر تعلیم ہیں۔ یہاں تک کہ ترقیاتی فنڈز کی تقسیم و ترسیل اور سرکاری ملازمین کی ترقیاں اور تبادلے بھی اداروں کے بجائے وزیروں کی اولاد کے حکم پر ہوتے ہیں۔ ایسے ماحول میں ایسے سیاستدانوں سے صاف ، شفاف اور منصفانہ نظام کی کیسے توقع کی جا سکتی ہے البتہ اس نظام کی اصلاح کے لیے سول سوسائٹی اور اداروں کے اندر با ضمیر، با کردار اور باصلاحیت افسران کو مل جل کر جد وجہد کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ ایک صبرآزما جد و جہد ہے لیکن کہیں نہ کہیں سے اسکا آغاز ضروری ہے۔
 

Quayyum Raja
About the Author: Quayyum Raja Read More Articles by Quayyum Raja: 55 Articles with 47542 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.