دو دن پہلے کوئٹہ کے ایک بار پھر دلدوز اور اندوہناک
سانحے نے تڑپا کر رکھ دیا، انسانیت کے دشمن درندوں نے درندگی کا ایسا وار
کیا کہ لمحے بھر میں درجنوں انسانی جسموں کے چیتھڑے ہوا میں اڑتے نظر
آئے،درجنوں گھر تباہ ہوئے،درجنوں سہاگ اجڑے اور درجنوں بچے یتیم اور درجنوں
ماؤں کی گودیں ویران ہو گئیں-
انسانی خون کے پیاسے یہ ظالم انسانی درندے یہ کیوں بھول جاتے ہیں، کہ اس
زمین سے ایک نہ ایک دن ان کا یہ غلیظ اور ناپاک وجود بھی ضرور مٹنے والا
ہے،اور آج نہیں تو کل ان کی موت بھی یقینی ہے اور یقیناً انہیں اس سے بھی
عبرت ناک موت مرنا پڑے گا- کیونکہ یہ ایک ازلی حقیقت ہے کہ بڑے بڑے منصب
دار ،بااقتدار ،بااختیار اور طاقتور بھی موت کے سامنے بے بس لاچار اور بے
اختیار ہو جاتے ہیں-
اس پاک سر زمین کا شروع سے ہی المیہ رہا کہ کچھ شیطان صفت طاقتیں روزِ اول
سے اس کے وجود کی منکر اور اسے مٹانے کے درپے رہیں، پچھلے 70 سالوں میں ان
دریدہ دہن نادیدہ قوتوں نے اس پاک وجود کی بنیادوں کو لرزہ براندام کرنے
میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی، اور ہر طرح کے ظاہری اور پوشیدہ طریقے آزمائے،
لیکن شائد شہیدوں کے خوں سے سینچی گئی اس سرزمیں کے ہر ذرّے پر قدرت کا خاص
سایہ اور خصوصی کرم نوازی ہے کہ سازشیں ،فتنے اور بحران اٹھانے والے خود
اپنی موت آپ مرتے گئے،اور یہ پاک دھرتی آج بھی قائم دائم اور سلامت ہے،اور
قیامت تک رہے گی ..انشاءاللہ
لیکن اس سب کے باوجود بحیثیت قوم ہماری کچھ ذمہ داریاں بھی ہیں، جو ہمیں اس
اجتماعی وجود کو پائیداری ،استحکام اور دوام بخشنے کے لئے نبھانی ہیں، ہمیں
اجتماعی سطح پر حد درجہ محتاط رہنا ہو گا، اپنی آنکھیں اور کان کھول کر
رکھنا ہوں گے، اور اپنے دلوں میں وسعتیں پیدا کرنا ہوں گیں، تاکہ دشمن کے
ہر ظاہری اور پوشیدہ وار سے بچا جا سکے-
ہمارا دشمن بہت چالاک اور مکار ہے ،وہ جانتا ہے کہ ہماری دکھتی رگ مذہب ہے،
اور وہ ہر بار مذہب کا ہی بیوپار کرتا ہے،وہ کبھی مذہب کے گھوڑے پر خودکش
بمبار بٹھاتا ہے اور کبھی مسلکیت کو دلہن کی طرح سجاتا ہے، کبھی ختم نبوت
جیسے نازک معاملے پر سادہ لوح مسلمانوں کو چِڑاتا ہے ،اور کبھی بندوق کے
زور پر شریعت کے نفاذ کا اشتعال دلاتا ہے، وہ اپنے ناپاک ارادے اور ناپاک
منصوبے پورے کرنے کے لئے صرف اور صرف مذہب کا ہی جال پھیلاتا ہے،کیونکہ وہ
یہ حقیقت جان چکا ہے کہ اس قوم کو کسی اور دوسرے محاذ پر شکست دینا ناممکن
ہے، اس لئے وہ اس قوم کو جذباتیت اور مذہبی بھول بھلیوں میں الجھا کر اپنی
شیطانیت کے جوہر دکھانا چاھتا ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ ہر بار مذہب کا ہی
کاروبار کرتا ہے ،اور ہمیشہ مذھبی کارڈ کھیلنے کی تاڑ میں رہتا ہے-
حالیہ سانحہ کوئٹہ کوئی عام اور معمولی واقعہ نہیں، بلکہ یہ اس خطرے کی
گھنٹی ہے ،جسے دشمن اب ایک نئے انداز سے ترتیب دے رہا ہے، اور دانستہ نفرت
اور انتقام کے ایسے بیج بو رہا ہے، جو مسلکیت کے کسی بڑے زہر آلود طوفان کا
پیش خیمہ ثابت ہو سکتے ہیں-
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام مکاتبِ فکر کے ماننے والوں میں قومی اور ملی
یک جہتی کا شعور اجاگر کیا جائے ،اور انہیں ہر طرح کے فروعی اختلافات سے
بچنے ،اور اختلافی معاملات سے پہلو تہی کا ہنر سکھایا جائے ،تاکہ اندرونی
اختلافات اور مسلکی تنازعات میں صَرف ہونے والی تمام تر توانائیاں اور
صلاحیتیں مثبت اور تعمیری استعمال میں لائی جا سکیں اور ملک عزیز میں امن و
امان ، اندرونی استحکام اور پائیداری کو دوام بخشا جا سکے-
اس سطح کی تربیت سازی میں ہر مکتبہ فکر کے زعماء ،عمائدین اور علمائے کرام
انتہائی مثبت کردار ادا کر سکتے ہیں، اور سکولوں ،کالجوں اور دوسرے تعلیمی
اداروں میں اس معاملے پر خصوصی لیکچرز اور موٹیویشنل سپیچز بھی نوجوان نسل
کو فرقہ واریت اور اندرونی خلفشار سے بچانے کے لئے ممد و معاون ثابت ہو
سکتی ہیں-
اگرچہ اس معاملے میں ہمارے ذمہ دار ادارے ان حقائق سے زیادہ باخبر بھی ہیں
اور دشمن کی ان عیارانہ اور مکارانہ چالوں کا توڑ بھی اچھی طرح جانتے ہیں،
بلکہ ضربِ عضب اور آپریشن ردالفساد میں اس مٹی کے رکھوالوں نے دشمن کو جس
طرح سے دشمن کو دھول چٹائی ہے ،اور جس طرح سے اسے زخم چاٹنے پر مجبور کیا
ہے، وہ کوئی زیادہ پرانی بات نہیں، لیکن بحرحال ہر سطح کی انفرادی و
اجتماعی حیثیت سے ہم سب کو اس سلسلے میں اہم کردار ادا کرنے کی اشد ضرورت
ہے-
آج وہی شکست خوردہ دشمن ایک بار پھر کانپتی ٹانگوں کے ساتھ ایک بار پھر
میدان میں آیا ہے، ہتھیار وہی پرانا ہے ،لیکن اسے استعمال کسی اور اینگل سے
کرنا چاھتا ہے، وہ مسلکیت کی چنگاری کو شعلۂ جوالہ بنا کر بم دھماکوں اور
دوسری شرپسندیوں سے ایک بار پھر کشت وخوں کے بازار گرم کرنا چاھتا ہے
...لیکن شائد وہ نہیں جانتا کہ 72 سال پہلے لگایا جانے والا یہ پودا اب ایک
تنومند شجر بن چکا ہے،اور اس کی آبیاری میں لاالہ الااللہ کے نعرے والوں کا
خون ہے، لہذا اب کی بار صرف رسی ہی نہیں جلے گی ،بلکہ اس کے سارے بل بھی
جائیں گے- انشاءاللہ |