بیوی پر ظلم کرنا: جھوٹی تہمتیں لگانا:

میرے بھائیو اللہ عزوجل فرماتے ہیں:

﴿يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَيَّنُوْٓا اَنْ تُصِيْبُوْا قَوْمًۢا بِجَــهَالَةٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰي مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِيْنَ﴾ (الحجرات: 6)

اے مومنو! اگر تمہارے پاس کوئی فاسق کوئی خبر لے کر آئے تو اچھی طرح تحقیق کر لیا کرو، ایسا نہ ہو کہ تم کسی قوم کو لاعلمی کی وجہ سے نقصان پہنچا دو، پھر جو تم نے کیا اس پر پشیمان ہونا پڑے

یاد رکھیے میاں بیوی کے باھمی ازدواجی تعلقات اس وقت تک سیدھے نہیں ہو سکتے جب تک میاں بیوی کا آپس میں تعاون نہ ہو، جب تک شوہر اور بیوی اپنی مشکلات کے بارے میں باہمی تعاون نہ کریں اور افہام و تفہیم سے کام نہ لیں تب تک کسی بھی گھر میں باھمی معاملات خوش اسلوبی سے پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکتے۔۔۔

میاں بیوی کو چاھیئے کہ آپس میں پیدا ہونے والی ہر مشکل کا حل نرمی اور شفقت سے تلاش کریں۔ مگر آپس میں تنازع کرتے رہنا اور ایک دوسرے پر کوتاہی اور برائی کی الزام تراشی کرتے رہنا تو یہ انتہائی غلط روش ہے۔ اور یاد رکھیے کسی بھی پاکدامن مرد یا عورت پر گناہ کی تہمت لگانا کبیرہ گناہ ھے۔۔۔

بعض بیویاں (اللہ تعالی انہيں ہدایت دے) ہمیشہ شوہر پر تجسس کرنے کی کوشش کرتی رہتی ہیں کہ کس نے ان کو کال کی، کس سے اس نے بات کی، کون اس کے پاس آیا اور وہ کس کے پاس گیا وغیرہ؟ ایسی خاتون کا شوہر کے ساتھ یہ نفسیاتی مسئلہ بن جاتا ہے تو وہ یہ کرتی رہتی ہیں، کرتی رہتی ہیں، کرتی رہتی ہیں یہاں تک کہ پھر اس پر ایسی تہمت تک لگا بیٹھتی ہے جس سے وہ بری الذمہ ہوتا ہے۔۔۔

بالکل اسی طرح کسی شوہر کے پاس برے شکوک و بدگمانیاں ہوتی ہیں تو وہ اپنے بیوی پر ایسی چیز کی تہمت لگا بیٹھتا ہے جو اس نے کی ہی نہيں ھوتی۔ پس اگر ایسے شکوک میاں کے دل میں پیدا ہو جائيں تو پھر گھر ٹوٹ جاتے ہیں۔ شوھر حضرات کو الله نے اپنی عورتوں کا محافظ بنایا ھے۔ کیسا بدبخت اور کم ظرف شوھر ھو گا وہ جو اپنی زوجہ کی عزت کا محافظ بننے کی بجائے اس پاک دامن خاتون پر تہمتیں لگا کر اپنی ہی زوجہ کی عزت کی دھجیاں اڑاتا ھے۔۔۔

لازم ہے کہ دونوں کو ایک دوسرے پر مکمل اعتماد اور حسنِ ظن کریں۔ جب تک کوئی یقینی بات اس اعتماد کو توڑنے کا موجب نہ بنے اور یقینی بات تب ھوتی ھے جب کسی بھی الزام یا جرم کا چشم دید گواہ موجود ھو۔ لہذا جب تک باتيں صرف وہم و گمان، سنی سنائی اور صرف خیالی دعوؤں تک محدود ہوں تو ان کا کوئی اعتبار نہیں جب تک حقیقتاً کوئی چیز واقع نہ ہوئی ہو۔ اس صورت میں اپنی ہی عزت کو بجائے تحفظ دینے کے الٹا دھجیاں اڑانے والا شوھر انتہائی بدنصیب اور سخت گنھگار ھو گا۔۔۔

چناچہ میاں بیوی کو چاہیے کہ باہمی ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں اور آپس میں ایک دوسرے کی خیر خواہی چاہیں، اگر مرد کو بیوی میں کوئی کوتاہی نظر آتی ہے تو وہ اسے نصیحت کرے، اور اسے اللہ تعالی کا حکم یاد دلائے، اور اگر شوہر کی طرف سے کوتاہی ہو تو بیوی اسے اللہ تعالی کی ناراضگی یاد دلائے اور اس پر صبر کرے، اس کے راز کو گھر سے باہر افشاء نہ کرے، بلکہ یہ بات بس اس کے اور شوہر کے درمیان رہے گھر سے باہر لوگوں کے کانوں تک نہ پہنچنے۔۔۔

اگر اس قسم کے شکوک زوجین کے مابین پیدا ھو جائيں تو گھرانے ٹوٹ جایا کرتے ہيں۔ لازم ہے کہ دونوں کو ایک دوسرے پر اعتماد اور حسن ظن ہو جب تک کوئی یقینی بات اسے توڑنے کا موجب نہ ہو۔ البتہ جب تک بات بس دعوؤں اور بدگمانیوں کی ہو تو ان کا کوئی اعتبار نہیں جب تک حقیقت میں کچھ نہ ہوا ہو، اس صورت میں تو وہ الگ موضوع ہو گا۔۔۔

تہذیب الحسن
 

Tehzeeb Ul hassan
About the Author: Tehzeeb Ul hassan Read More Articles by Tehzeeb Ul hassan: 2 Articles with 1107 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.