صدیق اکبر ؓ

روز اول سے اِس دھرتی پر ایک سے بڑھ کر ایک انسان اپنی پو ری شان و شوکت جا ہ و جلال طا قت و ہیبت، شاہی کرو فرم ، طویل اقتدار، بڑے لشکر کا مالک سورج کی طرح طلوع ہوا لیکن وقت کی ایک کروٹ ، گردش لیل و نہار کے چند سال، وقت کی چند جنبشیں اور غبار ما ضی کہ آج ان کا نام تک نہیں ہے فرعون کو قدرت نے چار سو سال کی عمر بھی دی اور مکمل با دشاہت بھی فرعون کو بہت غرور تھا کہ میں مِصر کے اشجار و انہار کا اکلوتا وارث ہوں لیکن خدا ئے جبار و قہار نے اس کا سارا اعتبار ووقار دریا برد کر دیا قا رون کو دولت کے انبار بھی عطا کئے اور رعونیت بھی اس کو بہت مان اور ناز تھا کہ اس کے خزانے کی چابیاں بہت سارے لوگ مل کر اٹھا تے ہیں مگر اس رحیم کریم آقا کے ایک فیصلے نے اس کا بھٹہ بٹھا دیا سکندر کے قدموں میں جوانی میں ہی آدھی دنیا ڈال دی قیصر کو روم جیسی عظیم سلطنت بخش دی کسری کو تاج ایران عطا کر دیا چنگیز خان، ہلاکوخان نے اپنے گھوڑوں کے پاں تلے ملکوں کے ملک کاغذ کے پرزوں کی طرح ہوا میں بکھیر کر رکھ دئیے امیر تیمور جیسے ظالم انسان نے زمین کو ادھیڑ کر رکھ دیا شہروں کے شہر صفحہ ہستی سے مٹا دئیے دنیا بھر کی دولت لوٹ کرلے گیا اکبر اعظم کی انچاس سالہ حکومت رضا شاہ پہلوی کی ہزار سال پر محیط حکومت وقت کے غبار نے لپیٹ کر رکھ دی ہر دور میں ایک سے بڑھ کر ایک انسان اس دنیا کے سٹیج پر نمودار ہوا اپنا کام کیا اور مٹی کے ڈھیر میں تبدیل ہو کر ماضی کے غار میں دفن ہو تا گیا لیکن گردشِ زمانہ اور ہر نئے دن کے ساتھ کچھ لوگ دنیا میں ایسے بھی آئے کہ ان کی شہرت ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھتی چلی گئی تا ریخ وقت اور ماضی کا غبار ان کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکا بلکہ ہر لمحے ان کی چمک میں اضافہ ہی ہو تا جا رہا ہے ۔ میں روضہ رسول ﷺ کے سامنے کھڑا تھا میری آنکھوں سے التجا ئیں مو تیوں کی طرح چھلک رہیں تھیں میرے دل و دما غ اور باطن کے نہاں خانوں میں بہت ساری دعائیں ریشمی پرندوں کی طرح پھڑ پھڑا رہی تھیں یہ نرم و نازک خو بصورت ریشمی تتلیوں کی طرح سنہری جالیوں سے ٹکڑا ٹکڑا کر عقیدت کے بو سے لے لے کر یوں پلٹ رہی تھیں کے ایمان و یقین کے ہزاروں چشمے پھوٹ رہے تھے میں اِس نشے میں شرابور بھیگی آنکھوں سے سنہری جالیوں کو دیکھ رہا تھا کہ اچانک میری نظر سبز رنگ کے تین گول کتبوں پر پڑی سید الانبیا ﷺ ابی بکر صدیق اور عمر بن خطاب اور پھر میرے با طن میں ایک خیال ہزاروں چاند ستاروں اور سورجوں کی روشنی بکھیرتا چلا گیا کہ یورپ اور امریکہ کتنا بد قسمت ہے کہ ان کی ہزاروں سالہ تاریخ میں ایک بھی ابو بکر، عمر پیدا نہ ہوا ہزاروں سالوں سے نسل حضرت انسان جانور نما انسانوں کو پیدا کئے چلا جا رہا ہے لیکن ایک بھی حضرت ابو بکر نہیں ایک بھی حضرت عمر نہیں نسلِ انسانی کے سب سے بڑے انسان سرتاج الانبیا سرور کائنات ﷺ کی صحبت میں گزرے ہو ئے شب و روز نے انہیں تاریخ کے ما تھے کا جھو مر بنا دیا حضرت ابو بکر صدیق جن کے بارے میں نبی کریم ﷺ نے فرمایا میں نے جس شخص کے سامنے اسلام پیش کیا اس میں ایک قسم کی جھجک اور تردد اور فکر ضرور پا ئی مگر ابو بکر کہ جس وقت میں نے ان کے سامنے اسلام پیش کیا تو انہوں نے بے جھجک قبو ل کیا ۔ زمانہ جاہلیت میں آپ کا نام عبدالکعبہ تھا بعد میں نبی کائنات ﷺ نے عبداﷲ گو ہر کیا صدیق و عتیق کا لقب پا یا ۔ ابو بکر کنیت سے شہرت پا ئی آپ ایا م جا ہلیت میں بھی قریش کے روسا میں سے تھے مورخین کے مطا بق صحابہ کرام میں دس ایسے آدمی تھے جو ایام جا ہلیت اورابدا سلام دونوں میں رئیس و سربراہ ما نے جا تے تھے آپ نے زما نہ جاہلیت میں بھی کبھی شراب نہ پی تھی مشکل سے مشکل حالت اور جنگ میں ہمیشہ آقا کریم ﷺ کے ساتھ سائے کی طرح رہے جب ہجرت مدینہ کا وقت آیا تو سرور دوجہاں ﷺ حضرت ابو بکر کے گھر آئے اور فرمایا ابو بکر ہجرت کی اجا زت آگئی ہے تو یا ر غار نے بے ساختہ کہا اور میری رفاقت یا رسول اﷲ ﷺ نو ر رحمت ﷺ نے تبسم فرمایا رفاقت کی بھی اجا زت ہے یہ سن کر حضرت ابو بکر فرطِ مست سے رونے لگے ہما ری ماں حضرت عائشہ کا قو ل ہے اس دن میں نے جانا کہ آدمی جوش اور خو شی میں بھی روتا ہے حضرت ابوبکر نے اسی وقت دو اونٹ پیش کئے اور عرض کیا یا رسول اﷲ ﷺ یہ اونٹ اِسی کام کے لیے تیا ر کئے ہو ئے ہیں آپ ﷺ کو جو پسند ہے وہ پسند فرما لیجئے آپ کی نبی کریم ﷺ سے محبت رب کعبہ بھی واقف تھے اِسی لیے قرآن مجید میں حضرت ابو بکر کو دوسرا حوالہ دے کر امر کر دیا سور تو بہ میں ارشاد ِ با ری تعالی ہے ۔ اﷲ نے اس کی مدد کی اور اس وقت کی جب کا فروں نے اسے اس حال میں گھر سے نکا لا تھا کہ وہ دو میں دوسرا تھا اور دونوں غا رمیں چھپے ہو ئے تھے اسی وقت رسول کریم ﷺ نے اپنے ساتھی سے کہا تھا غم نہ کھا اﷲ ہما رے ساتھ ہے اور آپ کی شان اور مقام ملا حظہ فرمائیں سرور کا ئنات ﷺ نے فرمایا کہ کسی کا مجھ پر کو ئی احسان نہیں اس کا بدلہ ہم نے دنیا میں ہی دے دیا سوائے ابو بکر کے اس کا بدلہ قیا مت کے دن اﷲ تعالی عطا فرما ئے گا آپ ﷺ ہی کا ارشادہے ایک دن حضرت ابوبکر کو دیکھ کر فرماتے ہیں کسی نے آگ سے آزاد شخص کو دیکھنا ہو تو حضرت ابو بکر کو دیکھ لے آپ کے با رے میں ہی آقا پاک ﷺ فرماتے ہیں ایک دن رحمت دو جہاں ﷺ اِس طرح مسجد نبوی میں داخل ہو ئے کہ آپ ﷺ کے دائیں طرف حضرت ابو بکر صدیق اور بائیں جانب حضرت عمر تھے شہنشاہِ دو عالم ﷺ نے مسجد میں مو جود صحابہ سے فرمایا قیا مت کے دن بھی ہم اِسی طرح اٹھائے جا ئیں گے نبی کریم ﷺ فرماتے ہیں ہر نبی کے دو وزیر آسمان کے فرشتوں اور دو زمین والوں میں سے ہو تے ہیں فرشتوں میں میرے وزیر جبرائیل اور میکا ئیل ہیں اور اہل زمین سے میرے دو وزیر ابوبکر اور عمر ہیں ۔ یہی حضرت ابو بکر تھے جب موت کا وقت قریب آیا تو حضرت عائشہ سے پو چھا سرور دو عالم ﷺ کو کتنے کپڑوں کا کفن دیا گیا کہا گیاتین کپڑوں کا تو فرمایا میرے کفن میں بھی تین کپڑے ہی استعمال ہو نگے دو چادریں جومیرے جسم پر ہیں جبکہ تیسری نئی چادر لی جا ئے حضرت عائشہ نے کہا ہم اتنے تنگ دست بھی نہیں کہ تین کپڑے نہ خرید سکیں تو فرمایا جان پدر نئے کپڑوں کی ضرورت زندہ لوگوں کو ہو تی ہے مردوں کو نہیں۔ انتقال کے دن فرمایا رسول کریم ﷺ کی وفات کس دن ہو ئی لوگوں نے کہا دو شنبہ تو کہا مجھے امید ہے میری موت بھی آج ہی ہو گی موت کے وقت حضرت عائشہ نے یہ شعر پڑھا نوا ئی صورت کی تازگی ہے ابر سیراب ہو یتیموں کی پنا ہ بیواں کی محافظ یہ سن کر آنکھیں کھول دیں اور کہا یہ شان عظمت اورمقام تو صرف اور صرف سرتاج الانبیا نور مجسم محبوب خدا ﷺ کا ہی تھا ابو بکر اِس کا مستحق بلکل بھی نہیں ۔ سنہری جالیوں کے پاس ابو بکر کس طرح اپنے آقا کریم ﷺ کے ساتھ قیا مت تک محو خواب ہیں ۔
 

Prof Abdullah Bhatti
About the Author: Prof Abdullah Bhatti Read More Articles by Prof Abdullah Bhatti: 805 Articles with 736122 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.