جہاں ہر طرف ’’کرونا وائرس‘‘ جیسی مہلک وائرس کا چرچازبان
زد عام ہے۔وہاں دوست احباب،رشتہ دار پریشانی اور کرب میں مبتلا ہیں مگر
اکثر لوگوں کی انسانیت سے گری ہوئی پوسٹ دیکھ کر مزیدپریشانی ہوتی ہے ۔میرے
سوشل میڈیا دوست آفتاب احمد کہتے ہیں کہ’’ میرے چین میں گزرے تین سال ایسے
تھے جیسے میں اپنے ملک میں رہ رہا ہوں۔جہاں بھی ملتے اور اپنا تعارف
پاکستانی کرواتے تو وہ پھولے نہیں سماتے تھے اور مُکاہوامیں بلند کرتے اور
کہتے پاتھیامطلب لوہے سے مضبوط دوست۔آج جب اُن پہ مشکل گھڑی آئی ہے تو ہم
مزاحیہ پوسٹ بناکرخوشی خوشی کہہ رہے ہیں کہ اِن پر اﷲ کا عذاب ہوا ہے۔یہ
مردار کھانے والے لوگ ہیں وغیرہ وغیرہ۔ڈیڑھ ارب کی آبادی ہے ۔مردار کھاتی
ہے مگر کسی کا حق کھاتے نہیں دیکھا۔کہیں نہیں دیکھاکہ کسی پانچ سات کی بچی
سے زیادتی ہوئی ہو۔کہیں کرپشن نہیں دیکھی۔کہیں دھوکادہی نہیں دیکھی۔کہیں
نہیں دیکھا کہ راہ چلتی عورت کو بھوکے کتے کی طرح تاڑتے ہوں۔ کہیں ملاوٹ
نہیں دیکھی۔ جان مال اور عزتیں محفوظ۔گدھے کا گوشت فروخت ہوتاہے تو وہ
گدھاہی ہوتا ہے۔ اپنے ہم وطنو ں کو کتے کا گوشت بکرابنا کر یامرچوں میں رنگ
والا برادہ ڈال کرنہیں کھلاتے۔ حالانکہ اِن کاکوئی مذہب نہیں۔کسی خدا
کونہیں مانتے۔کسی رسول کی تعلیمات پہ عمل نہیں کرتے لیکن عدل و انصاف ہے
اِن میں۔میں تو کہتاہوں کہ یہ عذاب نہیں بلکہ اﷲ کی طرف سے آزمائش ہے اِن
پر،انہیں مزید مضبوط بنانے کی،کیونکہ ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھاہے 6 دن کے
اندر اندر 1000 بستروں والا ایمرجنسی ہسپتال تعمیر کردیا۔ہماری مسلمان
گورنمنٹ6سال میں بناکے دیکھادے‘‘۔ہم بنی اسرائیل کی طرح اِس غلط فہمی کا
شکار ہیں کہ ہم اﷲ کی لاڈلی قوم ہیں جو چاہے کریں۔اصل عذاب کے حق دار توہم
لوگ ہیں۔ ایک خداکے ماننے والے،خود کو مسلمان کہلوانے والے،دنیا کی کون سی
برائی اور درندگی ہے جو ہم میں نہیں ہے۔ ہمارا ہمسائیہ ملک چائنہ اوربہت سے
ملک کرونا وائرس کی زد میں ہیں مگراِس مشکل گھڑی میں ہم اپنے متقی اور
پرہیز گار ہونے کاایسا ثبوت دے رہے ہیں جیسے یہ وائرس مذہب کے بارے میں
تصدیق کرکے اور نامہ اعمال کا جائزہ لے کر انسان کے اندر داخل ہوتاہے۔کسی
کو پردے کا فلسفہ اسلام اورکسی کو حرام غذاؤں کا استعمال اِس کی وجہ نظر
آرہی ہے جیسے ہم پاکستانیوں کو تو کبھی کھوتاکٹے کے نام پراور کتا بکرے کے
نام پر کبھی کھلایا ہی نہ گیا ہو۔باقی رہا پردہ تو ہم مسلمان بھی ہیں تو
سارے پاکستان میں ہر عورت تو شرعی پردہ بھی نہیں کرتی ہیں۔پھر اِن کے پاس
کون سا لائسنس ہے کہ خدانخواستہ یہ وائرس اِن میں نہیں پھیل سکتا۔اور تواور
ابھی تک پوری دنیامیں اِس بیماری کاعلاج بھی دریافت نہیں ہوااور وطن عزیز
میں لوگ نیم کے پتوں سے اِس کا شرطیہ علاج بھی دریافت کرکے بیٹھے ہیں۔خدارا
اِس نازک اور کٹھن وقت میں ہمیں متاثرہ ممالک کی ہرممکن مدد کرنی چاہئیے نہ
کہ اِس پریشان کن صورتحال میں ہم اُن کا مذاق اُڑائیں۔یہ مشکل کسی پربھی
آسکتی ہے۔ |